شیعہ اور قرآن - Quran


قرآن مجید

باب 1: تعارف


آج ایک عام مسلمان، چاہے وہ شیعہ ہو یا سُنی، اس شک میں مبتلا نہیں ہوتا ہے کہ اللہ کی کتاب میں لکھی باتیں درست ہیں یا نہیں اور اس کا اللہ کے کلام ہونے کا ثبوت ہے کہ نہیں۔ پس، ہم سب مسلمانوں کو قرآن مجید کے ایک ایک حرف پر پورا بھروسہ ہے اور یہ قرآن کا ہی معجزہ ہے کہ چاہے اسلام کا کوئی بھی مسلک ہو اور مسلمان چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں بستا ہو، قرآن کی مختلف نقلوں میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں ملتا۔ لیکن دشمنان ِدین کو یہ ایک آنکھ بھی کیوں بھاتا۔ لہٰذا اسلام دشمن قوتوں نے ایک ٹولہ چن لیا اور اس کی پرورش کی اور پھر اس کے ذریعے دوسرے مکاتب ِفکر پر قرآن کے متعلق شک و شبہات پیدا کروائے تاکہ مذہب ِاسلام کی لاریب کتاب دنیا میں ایک متنازع کتاب بن جائے۔ یہ یزیدی ٹولہ ہے جو کہ ہمیشہ سے ہی خود کو سُنی ہی کہلانا پسند کرتا آیا ہے لیکن برادران ِاہل ِسنت میں صاحب ِنظر حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ ان کی سوچ اور ان لوگوں کے افکار کی بنیاد پر ان کے اسلاف کو ناصبی کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ناصبی یزیدی ٹولہ دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف تنظیموں کے ذریعے اسلام کا نام بدنام کرنے میں مصروف ہے اور اس عظیم دین کو تشدد پسند اور منافرت پسند مذہب کہلوانے پر تلا ہے۔ برِصغیر میں یہ ناصبی ٹولہ سپاہ صحابہ کے نام سے مصروف ِعمل رہا ہے۔ پس، اپنے غیر ملکی آقائوں کی ایماء پر انہوں نے شیعان ِعلی ابن ابی طالب (ع) کو اپنا نشانہ بنایا اور ان کے خلاف خرافات اگلنے شروع کردیئے۔ انہیں خرافات و الزامات میں سے ایک تحریف ِقرآن کا معتقد ہونا بھی ہے۔

اگرچہ ہمیں شیعہ و سُنی کتب میں ایسی کئی روایات ملتیں ہیں جن سے یہ گمان ہوتا ہے کہ قرآن میں خد۱نخواستہ تحریف واقع ہوئی ہو لیکن ایسی تمام روایات کو رد کرتے ہوئے شیعہ اوربرادران ِاہلِ سنت کا اجماع ہے کہ موجودہ قرآن پاک ، مکمل، معتبر اور اصل حالت میں ہے۔ لہذا ہمارے اس مضمون کو شائع کرنے کی پھر صرف دو ہی وجوہات باقی رہ گئی تھیں۔

1. ۔ اُن اذہان کے شبہات کو دور کرنا جو کہ اس قسم کی روایات کو پڑھنے کے بعد پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

2. دوسری اور زیادہ اہم وجہ ناصبیوں کی جانب سے شیعہ عقیدہ ِ قرآن پر بڑھتے ہوئے حملے تھے اور وہ بھی صرف اس لئے کہ سُنی کتب کی صحیح روایات کی طرح شیعہ کتب میں کچھ ایسی روایات ملتی ہیں ۔

نواصب عرصہ دراز سے اس بنا پر شیعان ِعلی ابن ابی طالب (ع) پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں۔ آج بھی سپاہ صحابہ اور سلفی / وہابی مسلک کی اکثریت جو کہ دراصل ناصبیت کے بیروکارہیں اور انتہائی درجہ کے منافرت اور تشدد پسند ہیں ، اپنے ذہن کا گند باہر اگلتے ہوئے نظر آئیں گے کہ شیعوں پر کفر کا فتویٰ جاری کیا جائے کیونکہ ان کی کتب میں ایسی روایات ملتی ہیں جن سے قرآن میں تحریف کا معلوم ہوتا ہے۔ اب چونکہ ہم خرافات نہیں بلکہ علمی مباحثوں پر یقین رکھتے ہیں اس لئے انشااللہ ہم ناصبی پروپگینڈے کی گہرائی میں جائینگے اور ائمہ طاہرین (ع) اور شیعہ علماء کی جانب سے قرآن کے متعلق اصل شیعہ عقیدہ پیش کرینگے اور پھرہم ناصبیوں کی منافقت کو ان کی کتب میں موجود صحیح روایات پیش کر کے عیاں کرینگے جن سے صاف معلوم ہوتا ہو کہ جن صحابہ و علماء کے احترام کے لئے ناصبی قتل و غارت گری کے لئے تیار ہیں، انہوں نے خود ایسی روایات بیان، نقل یا ان کی تصدیق کی ہے جو کہ تحریف ِ قرآن کے عقیدہ پردلالت کرتی ہیں اور آخر میں ہم فیصلہ ناصبیوں پر چھوڑ دینگے کہ وہ دہرا معیار نہ اپناتے ہوئے خود اپنے چہیتے علماء ، صحابہ و تابعین کے ایمان کا فیصلہ کرلیں۔

نوٹ: اس اردو مضمون میں ہم نے اپنے انگریزی آرٹیکل سے صرف اہم موضوعات ہی اخذ کئے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح ہم یہ واضح کرتے چلیں کہ عرصہ دراز سے منافرت اور تشدد پسند ناصبیوں کی جانب سے شیعان ِعلی ابن ابی طالب (ع) کی کردار کشی نے ہی ہمیں قلم اٹھانے پر مجبور کیا ہے اس لئے ہمارا تمام مواد انہی نواصب کے لئے ہے۔ اگر ہماری کسی بات سے کسی کو یہ لگے کہ مسلک ِ اہلِ سنت پر تنقید کی جارہی ہے تو یہ نظریہ درست نہ ہوگا کیونکہ مسئلہ ہی یہ ہے کہ یہ ناصبی لوگ ہمیشہ سے اہل ِسنت میں ہی چھپے رہے ہیں اور بظاہر سُنی کتابوں پر ہی یقین رکھتے ہیں لہٰذا مناطرہ کے اصولوں کے مطابق ہمیں بھی سُنی کتابیں ہی استعمال کرنی پڑتی ہیں۔

باب 2: ابتدایہ


تحریف ِ قرآن کو اجاگر کرنے والی روایات کو کیسے سمجھا جائے ؟


شیعہ عالم ِ دین جناب سید شریف الدین عاملی (المتوفی 1377 ھ) تحریر کرتے ہیں:

سُنی و شیعہ علماء کی کتب میں لکھی گئی احادیث کی کتابوں میں ایسی روایت موجود ہیں جو کہ اس مطلب پر دلالت کرتی ہیں کہ قرآن میں کمی واقع ہوئی ہے یعنی موجودہ قرآن اصل قرآن سے کچھ کم ہے لیکن یہ حدیثیں سُنی و شیعہ علماء کی نزدیک معتبر نہیں ہیں کیونکہ یہ حدیثیں سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں اور اس کے علاوہ ان حدیثوں کے مدمقابل ایسی بہت سی حدیثیں موجود ہیں جو کہ سند کے اعتبار سے اعلیٰ درجہ و وثاقت پر ہیں اور عدد و دلالت کے اعتبار سے بھی اکژ اور واضح ہیں ۔ لہٰذا ان بےشمار اور واضح حدیثوں کی موجودگی میں جو کہ تحریف ِ قراآن کی نفی کرتی ہیں ان ضعیف حدیثوں پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا ۔
اور پھر تحریف ِ قرآن کو ثابت کرنے والی حدیثیں خبر ِ واحد ( ظن کا فائدہ دیتی ہیں) بھی ہیں اور خبر ِ واحد اگر مقام ِ عمل میں مفید نہ ہو تو وہ حجت اور دلیل نہیں ہیں پس ایک طرف قطعی اور یقینی دلیلوں سے ثابت ہیں کہ موجودہ قرآن تحریف سے منزہ ہے اور دوسری جانب بعض غیر معتبر حدیثوں کی وجہ سے قرآن میں تحریف کا گمان پیدہ ہوتا ہے ۔ واضح ہے کہ قطعی اور یقینی امر کو ظن و گمان کی وجہ سے ترک نہیں کیا جاسکتا ۔ نتیجتاً قرآن کریم میں تحریف کو ثابت کرنے والی حدیثوں کو دور پھینکا جائےگا
اجوبت المسائل جار اللہ

تین اہم نکات

شیعہ علماء کی جانب سے تحریف کے عنوان پر مبنی روایات پر گفتگو اور ان روایات کا تجزیہ کرنے سے قبل ہم اپنے قارئین کی توجہ ان تین اہم نکات کی جانب مبذول کرنا چاہینگے ۔

پہلا نکتہ: کسی شیعہ عالم نے اپنی حدیث کی کتاب کو سوفیصد صحیح قرار نہیں دیا

وہ لوگ جو شیعہ کتب میں موجود چند روایات کو پڑھنے کے بعد اُن کتب کے مصنفین اور عام شیعہ حضرات کو برا بھلا کہتے ہیں وہ دراصل تعصب کا کُھلا مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ کسی شیعہ مٰولف، مصنف یا عالم نے کبھی یہ دعوٰی نہیں کیا کہ اس کی کتاب میں موجود تمام روایات صحیح ہیں۔ اسی طرح شیعہ محدثین اور فقہاء میں سے بھی کسی نے کسی مخصوص کتاب کے صحیح ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ اسی طرح استاد شیخ محمد جواد معتیہ فرماتے ہیں کہ شیعہ معتقد ہیں کہ ہمارے مسلک کی حدیث کی کتب مثلاً الکافی، الاسبصار ، التہذیب ، من لا ہحضرہ الفقہ میں صحیح اور ضعیف حدیثیں موجود ہیں۔ اسی طرح ہمارے علماء کی جانب سے لکھی گئی فقہی کتابوں میں بھی خطا اور صواب پر مشتمل مواد موجود ہے بلکہ یوں کہنا ذیادہ مناسب ہوگا کہ شیعان ِ علی (ع) کے عقیدہ میں قرآن مجید کے علاوہ کوئی ایسی کتاب نہیں جو کہ اول سے آخر تک لاریب اور بےعیب ہو۔

لہٰذا شیعہ علماء کی جانب سے لکھی گئی احادیث کی کتابوں میں موجود کسی حدیث کو شیعان ِ علی (ع) پر اُس وقت تک حجت اور دلیل کے اعتبار سے پیش نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ شیعہ شخص اس حدیث کے حدیث واقعی ہونے کا قائل نہ ہو۔

ہمارے ان مطالب کی تائید و تصدیق کے لئے یہ کافی ہے کہ شیخ محمد یعقوب کلینی (المتوفی 1329ھ) نے کتاب "الکافی" سولہ ہزار دو سو (16200) احادیث جمع کیں۔ کتاب کافی میں موجود ان حدیثوں کو علماء علم رجال و حدیث کی اصطلاح میں پانچ اقسام میں تقسیم کیا ہے یعنی صحیح ، موثق ، قوی ، حسن اور ضعیف۔ واضح امر ہے کہ جب الکافی جیسی معتبر اور احکام ِ شرعی کے لئے منبع اور سرچشمہ کی حیثیت رکھنے والی مرکزی کتاب کے متعلق علماء اس نظریے کے قائل ہیں تو دیگر کتابوں کی وضعیت خود بخود معلوم ہوجاتی ہیے۔

دوسرا نکتہ: شیعہ کتاب میں موجود حدیث کو مصنف کا عقیدہ قرار نہیں دیا جاسکتا

اگر کسی مصنف کی کتابِ حدیث میں تحریف ِ قرآن کو ثابت کرنے والی حدیث موجود ہوں تو فقط اس اعتبار سے اس مصنف کے متعلق یہ نظریہ قائم کرنا کہ وہ تحریف ِ قرآن کا قائل تھا درست نہیں ۔ اور اگر اسی طرح ہر مصنف کے عقیدہ کو مشخص کرنا شروع کردیا گیا تو مسئلہ انتہائی مشکل ہوجائگا۔ کیونکہ حدیث کی کتابوں میں ایسی احادیث بھی تو ہیں جو کہ ایک دوسرے سے متناقض ہیں یعنی ایک حدیث کا مضمون دوسری حدیث کے مضمون کے ساتھ بالکل بھی قابل ِ جمع نہیں ہے۔ شیعہ علماء کی کتب ِ احادیث میں اس قسم کی احادیث کا موجود ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ کتاب میں موجود حدیث کو اس کے مصنف کا عقیدہ قرار دینا درست نہیں۔

تیسرا نکتہ: ایک فرد کے نظریہ کو اس فرقہ کے تمام لوگوں کا نظریہ بیان کرنا ناانصافی ہے

اگر کسی مذہب و مسلک کا معتقد شخص ایک نظریہ اختیار کرتا ہے تو اس نظریے کو پورے مسلک کی طرف منسوب کردینا کسی اعتبار سے بھی درست نہیں ہیں۔ بلخصوص جب اس مسلک کے معتبر علماء ایک شخص کے نظریہ ِ شخصی کی واضح مخالفت کریں تو پھر بھی اس کے نظریے کو ایک مسلک کا نظریہ قرار دینا تعصب کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ دنیا ِ علم میں آپ کو ایسی کئ کتابیں مل جائینگی جن میں مذکور نظریات فقط مصنف کی شخصی رائے ہوتے ہیں ان کے پورے مسلک کے عقیدہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

اسی طرح شیخ نوری طبرسی (المتوفی 1320 ھ ) نے اگر تحریف ِ قرآن کا نظریہ اختیار کیا بھی ہو تو بھی اس نظریے کو شیخ نوری کی ذاتی رائے تو قرار دیا جاسکتا ہے لیکن اس نظریے کو تمام شیعان ِ علی (ع) کے جانب منسوب کرنا سراسر ظلم ہوگا۔

کون نہیں جانتا کے ابن تیمیہ کی کتابوں میں موجود خرافات اباطیل کو اہل سنت کے محققین شدت سے رد کرتے ہیں اس شدید تردید کے بعد اگر ابن تیمیہ کے عقائد کو تمام اہل سنت کا عقیدہ کہا جائے تو کیسا رہے گا ؟

ان تمام حقائق اور واضح دلیلوں کے بعد بھی اگر کوئی شخص ایک فرد واحد کی رائے کو پورے شیعہ مسلک اور مذہب کا عقیدہ کہتا ہے تو ایسا شخص تعصب اور نفسانی خواہشات کی موجوں کے تھپیڑے کھاتا ہوا حق سے کوسوں دور ایک مذہب کو بدنام کرنے کا مجرم ہے۔

تحریف ِ قرآن سے متعلق روایات کے بارے میں شیعہ علماء کا نظریہ

معروف شیعہ علماء و محققین نے ایسی روایات کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے جن سے تحریف ِ قرآن کا شبہ پیدا ہوتا ہو اور انہوں نے اس بات پر بلاشک و شبہ اقرار کیا ہے کہ موجودہ قرآن ہی اصل قرآن ہے جو کہ کسی بھی قسم کی کمی و زیادتی سے پاک ہے۔

تحریف ِ قرآن سے متعلق شیعہ کتب ِ حدیث میں موجود دو اقسام کی روایات

اول :۔ اس قسم کی احادیث کی اکثریت ضعیف ، مرسل اور مقطوع ہونے کی وجہ سے حجیت سے سا قط ہیں۔

دوم :۔ بعض ایسی احادیث بھی موجود ہیں جن کی سند میں موجود افراد معتبر ہیں لہٰذا اس قسم کی احادیث کی سند کے بارے میں تو سوال نہیں کیا جاسکتا البتہ ان احادیث کی تاویل و توجیہ کرنا ضروری ہے جیسا کہ اس قسم کی احادیث کے بارے میں علماء نے یہ فرمایا ہے کہ ان حدیثوں میں بعض تفسیر ِ قرآن و تاویل اور بعض سبب ِ نزول و قرئت اور کچھ تحریف ِ معنی سے متعلق ہیں۔ اور اگر ضعیف ، مرسل اور مقطوع احادیث کے متعلق بھی اس قسم کی تاویل و توجیہ اختیار کی جائے تو ان احادیث کے متعلق بھی اعتبار پیدا ہوسکتا ہے ۔ لیکن ضعیف احادیث میں توجیہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کا ضعیف ہونا ہی ان کے اعتبار کو ساقط کرنے کے لئے کافی ہے۔

ان معتبر اور سند کے اعتبار سے صحیح احادیث میں بعض احادیث ایسی بھی ہیں جو کہ تحریف ِ قرآن کو ثابت کرنے میں اس قدر ظاہر اور صریح ہیں کہ ان میں کسی قسم کی تاویل و توجیہ بھی نہیں کی جاسکتی۔ اس قسم کی احادیث کے بارے میں علماء نے واضح نظریہ اختیار کیا ہے کہ یہ منسوب اور گڑھی ہوئی احادیث ہیں لہٰذا انہیں ترک کردینا ہی مناسب ہے اور اپنے اس نظریے کو بیان کر نے کے لئے علماء نے درج ذیل دلیلیں بھی ذکر کی ہیں:
مستحکم ادلہ اور متواتر نقلوں سے ثابت ہے کہ قرآن مجید رسول اللہ (ص) کے دور میں ہی جمع ہوچکا تھا اور تحریف ِ قرآن کو ثابت کرنے والی یہ احادیث اس حکم ِ ضروری کی مخالف ہیں ۔ ان احادیث کا اس حکم ِ ضروری کے مخالف ہونا ہی دلیل ہے کہ یہ احادیث گڑھی گئی ہیں۔
یہ احادیث قرآن کریم کی اس آیت ِ کریمہ کے مخالف ہیں 'ﮨﻢ ﻧﮯ ﮨﯽ ﺍﺱ ﻗﺮﺁﻥ ﻛﻮ ﻧﺎﺯﻝ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﮨﯽ ﺍﺱ ﻛﮯ ﻣﺤﺎﻓﻆ ﮨﯿﮟ' اور جو روایت قرآن کریم کے مخالف ہے وہ دور پھینک دینے کے ہی قابل ہے۔
تحریف ِقرآن کو ثابت کرنے والی یہ احادیث تعداد کے اعتبار سے بہت کم ہیں جبکہ قرآن ِ مفید کو تحریف سے محفوظ ثابت کرنے والی احادیث متواتر اور مشہور ہیں اور اس کے علاوہ مقابل میں آنے والی یہ احادیث دلالت اور سند کے اعتبار سے بھی (تحریف قرآن کو ثابت کرنے والی) حدیثوں سے قوی ہیں۔
قرآن مجید میں تحریف کو ثابت کرنے والی احادیث فقط حفید ظن ہیں جبکہ قرآن مجید کی قرآنیت کو یقینی اور قطعی احادیث سے ثابت کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا جن آیتوں کے متعلق یہ احادیث قرآن کا جز ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں ان آیات کی قرآنیت ان احادیث سے ثابت نہیں ہو سکتی اور ظنی احادیث پر شیعہ علماء کس طرح اعتبار کر سکتے ہیں جبکہ بعض شیعہ علماء نے یہ نظریہ دیا ہے کہ خبر ِ واحد دلیل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور اگر ہم اس کی حجیت کے قائل بھی ہوں تو خبر ِواحد صرف اسی صورت میں دلیل ہے جب مقام ِ عمل میں مفید ہو خصوصاً عقائد کے باب میں خبر ِ واحد پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ عقیدہ تو علم و یقین کی بنیادوں پر استوار ہوتا ہے۔


چند مشہور کتابیں جن میں ناصبیوں نے شیعہ پر عقیدہ ِ تحریف ِ قرآن رکھنے کا بہتان باندھا ہے

اردو پڑھنے لکھنے والے ناصبیوں کی جانب سے لکھی جانے والی چند مشہور کتابیں:
۔ الشیعہ ولقرآن ، مولف: احسان الٰہی ظہیر
کیا ہمارا قرآن ایک ہے ؟ مولف: حبیب الرحمان کاندھلوی
متفقہ فیصلہ، ،مولف: منظور نعمانی (خاص نطفہ ِ شیطانی)
تنیہ المائرین ، مولف: عبداشکور
کیا شیعہ مسلمان ہیں؟ ، مولف: قاری اظہر ندیم
اور دیگر چھوٹے بڑے کتابچہ اور ویب سائٹس

محترم قارئین ! نواصب نے اپنی کتب اور پامفلٹس میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ شیعہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ قرآن میں کمی و ذیادتی واقع ہوئی ہے جبکہ ہم شیعان ِ علی (ع) خیرالبریہ یہ کہتے ہیں کہ یہ قطعاً ہمارا عقیدہ نہیں بلکہ یہ عقیدہ تو چند صحابہ و تابعین کا تھا اور ان صحابہ کے پجاریوں نے انصاف کے تقاضوں کو نظرانداز کرتے ہوئے شیعوں کو بدنام کرنے کی مذموم مگر ناکام کوشش کی ہے۔

چونکہ سب کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنا اور اپنے عقیدہ کا دفاع کرے لہٰذا ہمارے پاس قلم اُٹھانے اور اپنے پاک مذہب کو نواصب کے ناپاک حملوں سے محفوظ رکھنے کے سوا اور کوٰی چارہ نہ تھا تاکہ ہماری خاموشی کو ہماری کمزوری و مجبوری نہ سمجھا جائے۔ ہم یہ ثابت کرینگے اور مطالبہ کرینگے کہ اگر تحریف ِ قرآن کے بارے میں روایت کرنا یا اس پر یقین رکھنا کفر ہے تو اہل سنت کی کتابیں اس قسم کی احادیث سے بھری پڑی ہیں جہاں صحابہ ِ کرام نے بے خوف و خطر اس قسم کے دعوے کئے ہیں تو ان کو بھی نواصب کی جانب سے کافر قرار دیا جائے تاکہ انصاف کا تقاضہ پورا ہوسکے۔

شیعہ مذہب کا قرآن ِمجید کے متعلق اصل عقیدہ

ہم شیعہ کھلم کھلا یہ کہتے ہیں کہ صحابہ کے پجاریوں کی جانب سے شیعان ِ علی (ع) کو کافر کہنا اور ان کے اصل عقیدہ کو نظرانداز کرنا کھلی نا انصافی ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کو حاظر ناظر جان کر اور اُسی کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ موجودہ قرآن ہی اصل قرآن ہے جو کہ ہر قسم کہ کمی و ذیادتی سے پاک ہے اور ہم اسی قرآن پر یقین رکھتے ہیں جس پر اہل سنت کا بھی ایمان ہے اور صحابہ کے پُجاریوں کی جانب سے تحریف ِ قرآن کا عقیدہ رکھنے کا الزام اور کچھ نہیں بلکہ سراسر سفید جھوٹ ہے۔

اور اگر اب بھی کوئی ناصبی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ شیعہ تحریف ِ قرآن کے قائل ہیں اور ہماری شہادت کو رد کرتا ہے تو وہ خود سب سے بڑا گمراہ اور مشرک ہے کیونکہ کسی کے دل کا حال صرف اللہ ہی جان سکتا ہے۔
 
باب 3: قرآن میں تحریف کے متعلق شیعہ روایات کا تجزیہ


اس قسم کے روایات کو نقل کرنے کے بعد ہم شیعہ علماء کا ان روایات کے متعلق تجزیہ پیش کرینگے اور ثابت کرینگے کہ قرآن میں تحریف کو ثابت کر نے کے لئے اس قسم کی روایات کافی نہیں۔ شیعہ علماء کی جانب سے جن احادیث کے متعلق توجیہ اور تاویل اور تردید کو ملاحظہ کرنے کے بعد اس قسم کی دیگر احادیث کے متعلق فیصلہ کرنا آسان ہوجائےگا ۔ قرآن مجید میں تحریف کو ثابت کرنے والی احادیث کے مختلف گروہ ہیں۔

پہلا گروہ

ایسی احادیث جن میں لفظ " تحریف " باقاعدہ استعمال ہوا ہو۔

پہلی روایت:

 علی بن سوید سے نقل ہوا ہے کہ جب امام موسیٰ کاظم (ع) زندان میں تھے تو میں نے ان کی خدمت میں ایک خط لکھا۔ امام (ع) نے اس کا جواب دیا اس جواب میں ایک جملہ یہ بھی تحریر فرمایا:انہیں کتاب ِاللہ پر امین قرار دیا گیا لیکن انہوں نے اس میں تحریف و تبدیلی کردی

دوسری روایت:

ابن شہرآشوب نے 'مناقب' میں حضرت امام حُسین (ع) کا روز ِ عاشور کا خطبہ نقل کیا ہے جس میں امام (ع) نے فرمایا:

 بیشک تمہارا شمار میرے نانا کی امت کے سرکش و طاغوت ، حدود ِ الٰہی کو پھلانگنے ، کتاب ِ خدا کو دور پھینکنے اور شیطانی الہام سے بولنے والوں میں ہوتا ہے اور یقیناً تم انہی لوگوں میں سے ہو جن کے چہرے گناہوں سے سیاہ ہوچکے ہیں اور جو کتاب ِ الٰہی میں تحریف کرنے کا بھیانک جرم کر چکے ہو

جواب:

ان روایات میں تحریف سے مراد یہ نہیں کہ قرآن کا کوئی حصہ کم کیا گیا ہو۔ بلکہ ان دو روایتوں میں تحریف سے مراد ہے کہ آیتوں کو اپنے معانی سے پھیر کر دوسرے معانی کرنا اور آیتوں کے اصل مقاصد اور مطالب کو چھوڑ کر کسی دلیل کے بغیر باطل اور فاسد توجیہات کرنا ہے۔ جیسا کہ امام باقر (ع) کا سعد کو لکھا گیا خط اس بات پر شاہد ہے جس میں امام (ع) نے واضح الفاظ میں تحریر کیا:

وکان بن مبذھم الکتاب و ان اقاموا حروفہ و حرفوا حدودہ فھم یروونہ ولا یر عونہ
الکافی ، ج 8 ص 53

یعنی میرے جد بزرگوار امام حُسین (ع) نے جن افراد کے متعلق یہ فرمایا کہ وہ محرف قرآن ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ یہ لوگ قرآن مجید کے الفاظ و کلمات کو تو محفوظ کئے ہوئے ہیں اس کے معانی میں باطل اور فاسد تاویلات و توجیہات کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ علامہ الخوئی نے اپنی کتاب البیان، ص 229 میں پہلی روایت کے متعلق لکھا ہے کہ:

المراد بالتحريف حمل الآيات على غير معانيها
تحریف سے مراد آیت کو اس کے اصل معنی کے برخلاف تشریح کرنا ہے

ویسے بھی پہلی روایت کو شیخ بھبودی نے اپنی کتاب 'صحیح الکافی' میں ضعیف قرار دیا ہے۔ جبکہ دوسری روایت بغیر کسی سند کے موجود ہے لہٰذا کسی اہبیت کی حامل نہیں، لیکن پھر بھی ہم اس روایت کو دوبارہ اپنے مخالفین کی طرف پیش کرتے ہیں کیونکہ یہ روایت ان کی کتاب تاریخ ابن عساکر، ج 14 ص 41 میں بھی موجود ہے۔

دوسرا گروہ

دوسرا گروہ ان احادیث کا ہے جن میں ذکر کیا گیا ہے کہ قرآن مجید میں آئمہ اہلیبت (ع) کے اسماء گرامی موجود تھے جو کہ بعد میں حذف کردئے گئے۔

پہلی روایت:

کتاب الکافی میں امام باقر (ع) سے نقل کیا گیا ہے کہ سورہ بقرہ کی آیت 23 اس طرح نازل ہوئی تھی:

وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فی علی فَأْتُواْ بِسُورَةٍ
الکافی ، ج 1 ص 417 حدیث 26

دوسری روایت:

اس گروہ کی ایک اور روایت نقل کرتے ہیں جس میں ابو بصیر نے امام جعفر صادق (ع) سے سورہ نمبر 31 آیت 71 کے نزول کے متعلق فرمایا:

وَمَن يُطِعْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فی ولایت علی ولامۃ بعدہ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا
الکافی، ج 1 ص 414

تیسری روایت:

مخل نے امام صادق (ع) سے نقل کیا ہے کہ سورہ نساء کی آیت 47 ان الفاظ میں رسول اللہ (ص) پرنازل ہوئی:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ آمِنُواْ بِمَا نَزَّلْنَا فی علی نور امینا

جواب:

یہ اور ان جیسی دیگر روایات کا غیر معتبر ہونے میں شیخ مجلسی کا واضح بیان کافی ہے ۔ شیخ مجلسی نے کتاب "مراۃ العقول" میں واضح الفاظ میں فرمایا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہیں۔لہٰذا اعتماد اور اعتبار سے ساقط ہیں۔ (مراۃ العقول، ج 5 ص 14۔29)۔

اور محدث کاشانی نے بھی ان روایات کو غیر صحیح قرار دیا ہے (دیکھئے: الفافی، ج 2 ص 273) لہٰذا اب ان روایات یں سے ہر ایک کی جداگانہ سند ملاحضہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

شیخ بہائی فرماتے ہیں:

 یہ بات جو عام افراد میں مشہور ہے کہ قرآن مجید کی بعض آیتوں سے علی (ع) کا اسم ِ گرامی حذف کردیا گیا ہے ، شیعہ علماء کے نزدیک اعتبار سے ساقط ہے یعنی معتبر نہیں ہے
آلاء الرحمٰن ، جلد 1 صفحہ 26

اور اگر بالفرض محال ان روایات کو تسلیم کر بھی لیا جائے تو پھر بھی قابلِ تاویل ہیں اور وہ اس طرح کی جن روایات میں وارد ہوا ہے کہ جبرائیل حضرت علی (ع) کا اسم سمیت آیت لے کر آیا یا پھر آیت اسی طرح رسول اللہ (ص) پر نازل ہوئی ، اس سے مراد یہ ہے کہ آیت کے معنی میں اسم ِ علی مراد نہ تھا اور نہ ہی یہ کہ آیت حضرت علی (ع) کے اسم کے ساتھ نازل ہوئی ہے اور بعد میں اسے خذف کردیا گیا بلکہ یہ قابل ِ تاویل و تفسیر ہیں جس طرح کے اس قسم کی بعض روایات حضرت علی (ع) کے متعلق سُنی احادیث میں بھی وارد ہیں اور جو کہ اگلے ابواب میں نقل کی جائنگی۔

محقق خوئی (رح) فرماتے ہیں:

 قرآن مجید کے بعض حصوں کی تفسیر بھی خداوند تعالیٰ کی طرف سے بصورتِ وحی رسول اللہ (ص) پر نازل ہوئی ہے لیکن یہ تفسیر قرآن مجید کا حصہ نہیں ہے۔ لہٰذا جن روایات میں یہ وارد ہوا کہ قرآن مجید کے بعض حصوں میں آئمہ اہلبیت (ع) کے نام موجود تھے ان روایات کو تفسیر کے معنی پر حمل کیا جائیگا۔
اور اگر روایت کے الفاظ و عبارت اس حمل کی اجازت نہ دیں تو ان روایات کو طرح و ترک کئے بغیر چارہ ہی نہیں ہے کیونکہ یہ روایات قرآن مجید اور سنت کے مخالف ہیں جن میں ثابت کیا گیا ہے کہ قرآن مجید تحریف سے منزرہ ہے
البیان فی تفسیر القرآن، ص 230

اگر اس قسم کی روایات کو تفسیر پر حمل نہ کیا جائے تو پھر یہ روایات صحیحیہ ابو بصیر کے ساتھ معارض ہونے کے اعتبار سے بھی حجت اور اعتبار سے بھی ساقط ہیں۔ ابو بصیر نے الکافی میں امام جعفر صادق (ع) سے نقل کیا ہے:

 میں (ابو بصیر) نے امام جعفر صادق( ع) سے 'اطعو االہ و اطعو رسول و الی الامر منکم ' (سورہ نساء آیت 59) کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ آیت حضرت علی (ع) اور حسنین (ع) کی عظمت و حق میں نازل ہوئی ہے ۔ میں نے عرض کی کہ لوگوں کا اعتراض ہے کہ حضرت علی (ع) اور دیگر اہل بیت کا نام قرآن مجید میں ذکر کیوں نہیں ہوا؟حضرت امام جعفر صادق (ع) نے جواب دیا: اس قسم کا اعتراض کرنے والوں کو جواب دو کہ اللہ کی جانب سے رسول اللہ (ص) پر نماز ِ پنجگانہ تو نازل کی گئی لیکن تم لوگوں کے لئے خدا نے یہ کیوں نہیں نازل کیا کہ نماز چار رکعتی ہے یا تین رکعتی ؟جب قرآن مجید اس سلسلے میں خاموش رہا تو رسول اللہ (ص) نے نماز کی رکعتوں کے بارے میں تفسیر و وضاحت فرمائی
الکافی، ج 1 ص 286 حدیث 1

یہ روایت ان تمام روایات کی تفسیر و وضاحت کررہی ہے جن میں یہ وارد ہوا ہے کہ آئمہ معصومین (ع) کے نام قرآن مجید میں موجود تھے۔ اس روایت سے واضح معلوم ہوگیا ہے کہ قرآن میں آئمہ (ع) کے ناموں کا ہونے سے مراد یہ ہے کہ جس طرح رسول اللہ (ص) نے نماز کی تفسیر میں رکعتیں بیان فرمائیں اس طرح آیت کے مصداق بھی تعین فرمائے۔

اس وضاحت کے بعد روشن ہوجاتا ہے کہ اس قسم کی روایات سے کیا مراد ہے۔ اور اس قسم کی روایات کو حجت اور اعتبار سے ساقط کرنے کے لئے یہ دلیل بھی دی جاسکتی ہے کہ وہ افراد اور بزرگ اصحاب جنہوں نے حضرت ابو بکر کی بیعت کرنے سے انکار کردیا تھا انہوں نے ابو بکر کو خلافت کے لئے نااہل اور حضرت علی (ع) کو اہل ثابت کرنے کے لئے اس قسم کی کسی دلیل کا سہارا نہیں لیا کہ حضرت علی (ع) کا اسم قرآن میں موجود ہے ۔ اگر خلافت کے اعتبار سے حضرت علی (ع) کا اسم قرآن کی کسی آیت میں موجود ہوتا تو حضرت ابو بکر کی بیعت نہ کرنے والے کبھی بھی اس دلیل کو ابو بکر کے خلاف قائم کرنے میں کوتاہی نہ کرتے۔

دوسرے گروہ کی مذید دو روایتیں


پہلی روایت:

الکافی میں اصنع بن نباتہ سے روایت ہے کہ حضرت امیر المومنین (ع) نے فرمایا کہ قرآن مجید کا ایک حصہ ہم اہل بیت اور ہمارے دوستوں کے متعلق ہے اور ایک حصہ واقعات و رسومات کے متعلق ہے اور ایک حصہ فرائض و احکام کے متعلق ہے۔

دوسری روایت:

تفسیر العیاشی میں امام صادق (ع) سے منقول ہے:

 اگر قرآن مجید کو اس طرح تلاوت کیا جاتا جس طرح نازل ہوا تھا تو اس میں ہمارے نام موجود ہوتے
تفسیر العیاشی ، ص 13 حدیث 4

جواب:

علامہ مجلسی (رح) نے مذکورہ دو احادیث میں سے پہلی کی بابت فرمایا ے کہ یہ مجہول ہے یعنی اس کی سند میں وارد بعض افراد کی صداقت و وثاقت اور ضعف معلوم نہیں ہے۔

دوسری حدیث کو عیاشی نے مرسل نقل کیا ہے سند حدیث میں امام (ع) تک تمام واسطوں کا تذکرہ نہیں ہے ۔

پس حدیث ِ اول مجہول اور دوم مرسل ہونے کی بنا پر دلیل بننے سے محروم ہیں اور اگر فرض بھی کرلیا جائے کہ عیاشی نے جس روایت کو نقل کیا ہے وہ معتبر ہیں پھر بھی اس کی تاویل کی جائیگی اور وہ اس طرح کہ آئمہ (ع) کے نام قرآن مجید میں ذکر ہونے کا جو تذکرہ ہے وہ اس وجہ سے کہ آئمہ (ع) کے نام تفسیر کے اعتبار سے قرآن میں موجود تھے نہ یہ کہ وہ قرآن کا حصہ تھے ۔

یا اس روایت کی تاویل یوں کی جائے گی کہ امام جعفر صادق (ع) فرما رہے ہیں کہ اہل باطل کے فاسد عقیدتوں کی ملاوٹ کے بغیر اوہام اور شبہات کی گندگیوں سے منزہ ہو کر اسی انداز میں قرآن مجید کی تفسیر کی جاتی جس طرح خدا نے اس کی تفسیر نازل کی تھی تو ہمارے نام تفسیر کے طور پر قرآن میں موجود ہوتے۔

تیسرا گروہ

یہ گروہ ان احادیث کا ہے جن سے گمان پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں کمی و زیادتی کے اعتبار سے تحریف ہوئی ہے۔

پہلی روایت:

 امام باقر (ع) نے فرمایا اگر کتاب اللہ میں کمی و زیادتی نہ کی جاتی تو ہم اہل ِ بیت کا حق کسی صاحب ِ عقل و خرد سے مخفی و پنہاں نہ ہوتا اور جب قائم آل ِ محمد قیام فرماتے تو ان کی معصوم زبان سے نکلنے والے ہر کلمہ کی قرآن تائید و تصدیق کرتا۔
تفسیر العیاشی، ص 13 حدیث 6

دوسری روایت:

 حضرت امام باقر (ع) نے فرمایا: خدا نے جس طرح قرآن کو نازل فرمایا اسے سوائے علی (ع) اور ان کے بعد گیارہ اماموں کے کوئی شخص جمع و حفظ نہیں کر سکتا۔ہاں اگر کوئی شخص ان کے علاوہ یہ دعویٰ کرے کہ اس نے تمام قرآن کو بالکل اسی طرح جمع کیا جس طرح خدا نے نازل کیا ہے تو اس شخص سے بڑا کازب اور جھوٹا کوئی نہیں ہے۔
1۔ الکافی، ج 1 ص 227 حدیث 1
2۔ بصائر الدرجات، ص 213 حدیث 2

تیسری روایت:

 حضرت امام باقر (ع) نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ (ص) کے حقیقی جانشینوں کے علاوہ کوئی اور شخص یہ دعویٰ کرنے کی جرات نہیں کر سکتا کہ اس کے پاس پورا قرآن ظاہری اور باطنی معانی کے ساتھ موجود ہے۔
1۔ الکافی، ج 1 ص 13 حدیث 4
2۔ بصائر الدرجات ، ص 213 حدیث 1

جواب:

احادیث کے اس گروہ سے بھی ثابت نہیں ہوتا کہ قرآن مجید میں تحریف واقع ہوئی ہے۔ چونکہ پہلی حدیث تو مرسلہ ہے اور حدیث ِ مرسلہ اعتبار سے ساقط ہے اور پھر یہ حدیث قرآن و سنت کے مخالف ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانان ِعالم کے اتفاق و اجماع کے بھی مخالف ہے کیونکہ تمام مسلمانوں کا اجماع موجود ہے کہ قرآن مجید میں کسی قسم کی زیادتی واقع نہیں ہوئی جبکہ یہ حدیث قرآن مجید میں زیادتی کو ثابت کر رہی ہے ، قرآن مجید میں زیادتی کے واقع نہ ہونے پر بزرگ اور معتبر شیعہ علماء کی طرف سے اجماع کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے جن میں سے سید رضی ، شیخ طوسی سرِ فہرست ہیں۔ اس حدیث میں کمی کے واقع ہونے کا جو تذکرہ کیا گیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ قرآن مجید کے معانی ، تاویل اور باطن کو سمجھنے میں کمی واقع ہوئی ہے اس کمی سے مراد یہ نہیں کہ قرآن مجید کی آیات، سورتوں اور کلمات میں کمی واقع ہوئی ہے۔

اور اس حدیث میں جملہ استعمال ہوا ہے کہ "لوقد قام قائمنا فنطق صدق القرآن " ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ امام مہدی (ع) قرآن کی حقیقی تفسیر اور معانی کی وضاحت اس انداز سے فرمائنگے کہ کسی قسم کا غبار باقی نہ رہے گا اور ہر صاحب ِ عقل اور خرد یہ درک کرے گا اور قبول کرےگا کہ قرآن مجید حضرت امام مہدی (ع) کی گفتار کی تصدیق کررہا ہے ۔ پس حدیث ِ اول کو ہم اگر صحیح اور معتبر تسلیم بھی کرلیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ لوگوں نے قرآن مجید کے معانی میں تبدیلی و تغیر واقع کر کے وہ معانی اور تفسیر مراد لی ہے جو کہ قرآن کا مقصد نہ تھا اور اسی وجہ سے آل ِ محمد (ع) کو ان کے حق سے محروم رکھا گیا۔

اس جملہ "لو قد قام۔۔۔" کے زیل میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ یقیناً قائم َ آل ِ محمد (ع) کی تصدیق ہمارے ہاں رائج قرآن ہی کرے گا اور اگر اس میں تحریف واقع ہو تو اسے امام ِ زمانہ کی تصدیق نہیں کرنی چاہئے جبکہ یہی قرآن تصدیق کرے گا پس اس سے یہ کشف ہوتا ہے کہ اس قرآن میں تحریف واقع نہیں ہوئی۔

اس گروہ کی دوسری روایت سے بھی تحریف کو ثابت نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس حدیث کے راویوں میں ایک شخص عمرو ابن ابی مقدام موجود ہے اور ابن عضائری نے واضح الفاط میں اس شخص کو ضعیف قرار دیا ہے۔ دیکھئے:
1۔ مجمع الرجال، ج 4 ص 257
2۔ رجال ابن داود، ص 281۔ 516

تیسری روایت تو ضعف کے اعلیٰ درجہ پر ہے کیونکہ اس روایت کے سلسلہ سند میں ایک شخص مخل بن جمیل اسدی ہے جس کے متعلق علماء رجال نے اپنے نظریات کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے کہ یہ شخص ضعیف اور بے بنیاد باتوں کو حدیث کا نام دیکر نقل کرنے والا ایک غالی ہے اور اس کی طرف غالی افراد کی طرف سے کثرت سے حدیثیں منسوب کی گئی ہیں۔
1۔ مجمع الرجال، ج 4 ص 257 اور ج 7 ص 139
2۔ رجال ابن داود، ص 281

ان دو احادیث کو اگر معتبر بھی تسلیم کرلیا جائے تو ان کی ایسی تاویل و توجیہ کی جاسکتی ہے جو کہ ان احادیث کے الفاظ کے مناسب بھی ہے اور اس سے تحریف ِ قرآن کا اثبات بھی نہیں ہوتا۔ جیسا کہ سید طباطبائی (رح) نے فرمایا ہے :

 حدیث کے اس جملے ' ان عندہ جمیع القرآن کلہ ظاہرہ و باطنہ غیر الاوصیاء اگر چہ اسی بات کا وہم و گمان پیدا ہوتا ہے کہ قرآن میں تحریف واقع ہوئی ہے لیکن اگر وقعت ِ نظر سے اس جملے میں وارد الفاظ ' ظاہرہ و باطنہ' کو ملاحضہ کیا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ قرآن کے ظاہری و باطنی معانی کو اوصیاء ِ پیغمبر کے علاوہ کوئی نہیں جانتا اور اوصیاء ِ پیغمبر کے علاوہ کوئی اور شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میں تمام قرآن کا عالم ہوں
التحقیق فی نفی التحریف، ص 620

سید طبا طبائی نے ان دو احادیث کی جو توجیہ کی ہے اس کے صحیح ہونے پر شاہد یہ ہے کہ سید علی ابن معصوم مدنی نے ان دو احادیث کو اُن احادیث کے زیل میں نقل کیا ہے جن سے انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ علی (ع) اور ان کے بعد آنے والے آئمہ (ع) تمام قرآن کا علم رکھتے ہیں اور اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ اس مطلب کے اثبات پر شیعہ و سُنی کتابوں میں موجود احادیث تواتر تک پہنچی ہوئی ہیں۔ (دیکھئے: شرح صحیفیہ سجادیہ ، ص 401)

ان دو روایات کے متعلق یہ توجیہ بھی کی جاسکتے ہے کہ ان دو احادیث میں قرآن مجید میں زیادتی واقع ہونے کا جو تذکرہ ہے اس سے مراد تفسیر ِ قرآن کی وہ زیادتی ہے جو کہ وما ینطق عن الھوی کے مصداق رسول اللہ (ص) کے زبان سے جاری ہو کر مصحف ِ امیر المومنین (ع) میں محفوظ ہوئی۔ اس زیادتی سے مراد تفسیر ِ قرآن کی وہ زیادتی ہے جو کہ خدا تعالیٰ کی جانب سے قرآن کی وضاحت میں نازل ہوئی۔ یہ دو حدیثیں اس مفصل تفسیر کے متعلق کہہ رہی ہیں کہ ا س کو اوصیاٰ پیغمبر کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔

چوتھا گروہ

احادیث کا گروہ ان روایات کا ہے جن کا مضمون یہ ہے کہ قرآن مجید میں کچھ عورتوں اور مردوں کے نام لکھے تھے جو کہ حذف کر دئے گئے۔

پہلی روایت:

 حضرت امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا کہ قرآن میں گزشتہ واقعات اور آئندہ رونما ہونے والے حالات و حادثات کا تذکرہ موجود ہے اور اس قرآن میں کچھ مردوں کے نام بھی موجود تھے جن کو قرآن سے نکال دیا گیا ہے اور ایک نام تو بےشمار سورتوں میں قرآن کے اندر ذکر ہوا جس کی نبی کے حقیقی جانشینوں کے علاوہ کسی کو معرفت نہیں ہے
تفسیر العیاشی، ج 1 ص 12 حدیث 10

دوسری روایت:

 بزنطی کا کہنا ہے کہ امام رضا (ع) نے مجھے ایک قرآن دیا اور فرمایا تم اس میں نظر نہ کرنا لیکن میں نے اس قرآن کو کھولا اور سورہ بنہ کی پہلی آیت کی تلاوت کی (لم یکن الذی کفرو۔۔۔) میں نے اس میں قریش کے 70 مردوں کے نام ولدیت سمیت مذکور پائے۔ امام نے فرمایا مجھے قرآن واپس دیدو
الکافی، ج 2 ص613 حدیث 16

تیسری روایت:

 امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا کہ سورہ احزاب میں قریش اور غیر قریش کے مردوں اور عورتوں کے عیب اور رسوائی والی باتیں موجود تھیں۔ اے فرزند ِ سنان یہ تنہا وہ سورہ ہے جو کہ قریش کی عورتوں کی برائیوں کو ظاہر اور آشکار کرتا تھا اور سورہ بقرہ سے بھی طولانی تھا لیکن اس سورہ میں کمی اور تحریف کی گئی
1۔ ثواب الاعمال ، ص 100
2۔ بہار الانوار، ج 92 ص 50

جواب:

سب سے پہلے توہ یہ واضح کردیا جائے کہ ایسی روایات جن کی مطابق قرآن میں منافقین کے نام موجود تھے، صرف شیعہ کتابوں میں نہیں بلکہ سنی کتابوں میں بھی ملتی ہیں۔ اہل ِسنت کی مشہورتفسیر بغوی، ج 4 ص 68 میں ہم پڑھتے ہیں:

قال عبد الله بن عباس رضي الله عنهما: أنزل الله تعالى ذكر سبعين رجلا من المنافقين بأسمائهم وأسماء آبائهم ثم نسخ ذكر الأسماء رحمة للمؤمنين، لئلا يعير بعضهم بعضا، لأن أولادهم كانوا مؤمنين
ابن عباس کا قول ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن میں ستر منافقین کے نام نازل کئے تھے لیکن پھر اللہ تعالی نے مومنین پر اپنی رحمت کی وجہ سے وہ نام منسوخ کردئے تاکہ وہ ایک دوسرے کا مزاق نہ اڑائیں چونکہ ان منافقین کی اولادیں مومن تھیں

اور چونکہ یہ مانا جاتا ہے کہ مولا علی نے جو مصحف تیار کیا تھا اس میں منسوخ آیات بھی شامل تھیں، لہٰذا ہمیں ایسی روایت سے پریشان نہیں ہونا چاہئے جن کے مطابق مولا علی کے بعد کے امام ان ناموں سے واقف تھے۔

یہ روایات جن میں مختلف انداز سے مذکور ہے کہ قرآن مجید میں مردوں اور عورتوں کے نام موجود تھے (لیکن اب موجود نہیں) اصل میں قابل ِ اعتبار نہیں ہیں۔ چونکہ اس قسم کی احادیث مرسل، مرفوع اور ضعیف انداز سے حدیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں اور حدیث کی یہ تینوں اقسام حجیت اور اعتبار سے ساقط ہیں اور اگر ان احادیث کو قبول بھی کرلیا جائے تو ان کے معنی یہ ہیں کہ تفسیر کے طور پرقرآن مجید میں کچھ عورتوں اور مردوں کے نام مذکور تھے جو کہ اب موجود نہیں ہیں چونکہ ہمارے پاس وہ تفسیر نہیں ہے ان روایات سے قطعاً یہ مراد نہیں ہے کہ وہ نام اللہ کی طرف سے قرآن کا حصہ بن کرنازل ہوئے تھے اور اب موجود نہیں۔

پہلی حدیث شیخ صفار قمی اور شیخ عیاشی کی احادیث سے اخذ کی گئی ہے اور جو کہ ابرہیم بن عمر سے مروی ہے اور اور اس شخص کے متعلق تضاد ہے کہ آیا وہ ضعیف تھا یا موثق (تنقیح المقال، ج 1 ص 28)۔

دوسری حدیث جو کہ شیخ کلینی (رح) نے بزنطی سے نقل کی شیخ مجلسی (رح) نے اسے مرسل قرار دیا ہے اور شارح کافی نے اس کے مرفوع ہونے کا اعتراف کیا ہے نیز شیخ کشی نے بھی شارح کافی سے یو ہی نقل کیا ہے۔ (رجال الکشی ، ص 492)۔

نیز محدث کاشانی اس کے متعلق یوں فرماتے ہیں:

 شائد جو اسماء اس مصحف میں لکھے پائے گئے ہیں وہ کفار و مشرکین کی تفسیر کے عنوان سے ذکر ہوئے ہوں اور وحی کے ذریعے معلوم ہوئے ہوں نہ یہ کہ وہ واقعاً جز ء قرآن ہوں نیز اس قسم کی وہ روایت جو آئمہ سے منقول ہو اُس سے یہی مراد ہے
الوافی، ج 2 ص 273

تسیری حدیث اس حقیقت کے متضاد ہے کہ سورہ احزاب رسول اللہ (ص) کی حیات میں ہی جمع کرلیا گیا تھا ( دیکھئے ، مجمع البیان، تفسیر در المنثور، ج 5 ص 179)۔ اس کے علاوہ ہم ان لوگوں سے پوچھنا چاہیں گے جو اس قسم کی حدیث پر یقین رکھتے ہوں کہ آیا سورہ احزاب کی تمام آیات کھو گئی تھیں؟ ایسا کیسے ممکن ہے کہ اتنی زیادہ تعداد میں آیات قرآن میں لکھے جانے سے رہ گئ ہوں یا انہیں نہ لکھا گیا ہو اور مسلمانوں کو اس کا علم ہھی نہ ہوا؟ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب کبھی بھی آیت کا نزول ہوتا رسول اللہ (ص) صحابہ کو حفظ کرواتے اور لکھواتے اور مسلمانوں میں آیات پھیل جایا کرتیں تھیں۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ سب کے سب مسلمان ایک ساتھ اُن آیات کو بھول گئے ہوں؟

اس قسم کی احادیث کی نسبت معتبر شیعہ علماء نے عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے جیسا کہ سید الخوئی (رح) اور فیض کاشانی (رح) کی عبارتیں اس پر شاہد ہیں۔ بلکہ رٰئیس المحدثیین شیخ صدوق (رح) نے اگرچہ اس قسم کی ایک حدیث اپنی کتاب "الاعتقادات" میں واضح الفاظ میں تصریح کی ہے کہ قرآن مجید میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوئی۔ شیخ صدوق (رح) کا اس قسم کی روایت کو نقل کرنا اور پھر کتاب العتقادات" میں یہ تصریح کرنا اس بات کی شاہد ہے کہ علماء اپنی کتابوں میں بعض احادیث ایسی بھی نقل کردیتے ہیں جن کے متعلق صحیح اور معتبر ہونے کا عقیدہ نہیں رکھتے۔

پانچواں گروہ

تحریف ِ قرآن کو ثابت کرنے والی احادیث کا یہ گروہ ان احادیث کا ہے جن میں قرآن کی بعض قراتوں کے آئمہ معصومین (ع) سے منسوب کیا گیا ہے۔

اس قسم کی احادیث میں ایک روایت یہ ہے کہ ایک شخص نے سورہ انعام کی 33 آیت کو حضرت امیر المومنین (ع) کے سامنے اس طرح تلاوت کیا:

قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ فَإِنَّهُمْ لاَ يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللّهِ يَجْحَدُونَ

موجودہ قرآن میں یہ آیت اسی طرح سے ہے۔

جناب ِامیر(ع) نے اس شخص کو کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ کفار و مشرکین نے پوری شدت کے ساتھ حضرت پیغمبر کی تکذیب کی لیکن آیت میں "یکذبونکہ" میں تشدید کے ساتھ نہیں ہے بلکہ بغیر تشدید کے ہے۔ یعنی یکزّبونک کی جگہ یکزبونک ہے یعنی یہ لوگ کسی باطل جذبے کے ساتھ آپ کا حق نہیں جھٹلا سکتے۔
الکافی، ج 8 ص 200۔241

ایک اور حدیث ہے جس میں محمد بن سلیمان نے بعض اصحاب سے امام ابوالحسن (ع) سے نقل کیا ہے کہ:

 ہم نے امام کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم آپ پر فدا ہوں۔ ہم قرآن میں ایسی آیت سنتے ہیں جو کہ ہم نے ابھی تک جو قرآن سُنا اس میں وہ آیت نہیں نیز آپ جس عمدہ انداز میں قرات کرتے ہیں ہم اس طرح قرات بھی نہیں کر سکتے کیا ہم گناہگار ہیں؟ تو امام (ع) نے جواب دیا : نہیں تم گناہگار نہیں ہو البتہ تم قرآن کو ایسے پڑھو جس طرح تمہیں تعلیم دی گئی ہے اور پھر عنقریب ایک شخص تمہیں تعلیم دینے اور سکھانے کے لئے آئےگا

اس حدیث کو بھی شیخ مجلسی نے کتاب "مراۃ العقول" میں ضعیف قرار دیا ہے اور محدث کاشانی نے کتاب وافی میں اس کی یوں تاویل کی ہے کہ ان آیات سے مراد ہے کہ وحی کے طور پر اتری ہیں مگر تفسیر اور مقصد کو واضح کرنے کی غرض سے نہ کہ وہ حقیقتاً قرآن کا جز تھیں تاکہ یہ کہا جائے کہ اب قرآن میں چونکہ وہ نہیں ہیں لہٰذا قرآن میں کمی واقع ہوئی۔
 
باب 4: قرآن میں زیادتی کے متعلق سنی روایات


اس باب میں ہم اہل ِسنت کی کتابوں سے معتبر و صحیح روایات پیش کرینگے جو کو واضح طور پر اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قرآن مجید میں تحریف واقع ہوئی ہے۔ شیعہ و اہل سنت اس قسم کی روایات کو تسلیم نہیں کرتے اور تاویل و توجیہ پر محمول کرتے ہیں لیکن یہ باب اُن نجس ناصبیوں کے لئے ہے جو کہ اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ شیعان ِ علی (ع) کافر ہیں صرف اس وجہ سے کے ان کی کتب میں بعض روایات ہیں جو تحریف ِ قرآن پر دلالت کرتی ہیں۔ اگر ایسی روایات ہونا کسی کو کافر بنادیتا ہے تو اس قسم کی روایات ناصبیوں کی اُن کتابوں میں بھی ہیں جو صحیح ترین سمجھی جاتیں ہیں۔

جناب ابن عباس کی تحقیق کے مطابق اس قرآن میں 50 آیات زیادہ ہیں

امام ِاہل سنت حافظ جلالالدین سیوطی نے حضرت ابن عباس (ر) سے روایت نقل کی ہے کہ:

 قرآن میں آیات کی تعداد 6616 ہے
الاتقان فی علوم القرآن ، ج 1 ص 84

ذرا دیکھئے کہ ناصبی قرآن کے ساتھ کس طرح کھیلتے ہیں۔ جناب ابن عباس (ر) نے ایک نظریہ دیا، پھر ناصبیوں کے سردار ابن کثیر نے ایک نظریہ پیش کیا جبکہ آج کے دور کے ناصبی علماء کسی اور ہی خواب میں زندہ ہیں۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ موجودہ قرآن 6666 آیات ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ پیش کردہ سُنی حوالہ کے مطابق حضرت ابن عباس (ر) قرآن کی 50 آیات کے منکر تھے ؟

ناصبیوں کے چہیتے امام ابن کثیر کے مطابق 6000 آیات معتبر اور باقی مشکوک ہیں

ہم نے ان معتبر سُنی کُتب پر انحصارکیا ہے

1۔ تفسیر ابن کثیر، ج 1 ص 7
2۔ تفسیر قرطبی، ج 1 ص 65

تفسیر ابن کثیر کی عبارت:

 قرآن کی کل آیات 6000 ہیں جبکہ باقی آیات میں اختلاف ہے اور ان کے بارے میں کئی آراء ہیں ۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ 6204 آیات ہیں

وہ لوگ جنہوں نے شیعہ دشمنی کو اپنا فرض بنا لیا ہے انہیں پہلے اُن کی اپنی کتب کے متعلق وضاحت دینی چاہئے ۔ سُنی کتب میں ہم کہیں تو یہ پڑھتے ہیں کہ "معضتین" اور "سم اللہ الرحمان الرحیم" قرآن کا حصہ نہیں یعنی اہل سنت نے انہیں اپنے قرآن میں شامل کر کے زیادتی کی ہے اور کہیں یہ لکھا ہے کہ ایک پورا سورہ جس کی تعداد سورہ بقرہ کی آیات کے برابر تھی کھو گیا ہے اور کہیں لکھا ہے کہ قرآن کی 6000 آیات معتبر اور باقی مشکوک ہیں۔ اگر کسی مسلک کی کتاب میں ایسی احادیث کا ہونا کفر ہے جن سے قرآن میں تحریف ہونا ثابت ہوتا ہو تو ناصبی حضرات کا اپنے علماء کے بارے میں فتویٰ کیا ہے ؟

حیرت انگیز حنفی و مالکی عقیدہ:"بسم اللہ الرحمان الرحیم" قرآن کا حصہ نہیں ہے

ہم نے ان معتبر سُنی کتب پر انحصارکیا ہے

1۔ تفسیر مظہری، ج 1 ص 3 ؛ قاضی ثنا اللہ پانی پتی
2۔ تفسیر قرطبی، ج 1 ص 92 ؛ مقدمہ تفسیر
3۔ تفسیر فتح القدیر، ج 1 ص 7 ؛امام شوکانی
4۔ تفسیر خازن، ج 1 ص 12 ؛ مقدمہ
5۔ تفسیرابن کثیر، ج 1 ص 20
6۔ تفسیر احکام القران الجصاص

تفسیر ابن کثیر کی عبارت ملاحظہ ہو:

 مالک اور ابو حنیفہ اور ان کے پیروکار کہتے ہیں کہ بسم اللہ نہ ہی سورہ فاتحہ کی آیت ہے اور نہ ہی اور کسی سورہ کی

یہ حوالہ تفسیرابن کثیر کے آن لائن انگریزی ایڈیشن میں بھی پڑھا جاسکتا ہے
 http://tafsir.com/default.asp?sid=1&tid=208

تفسیرخازن کی عبارت:

 امام ابو حنیفہ ، امام مالک اور امام اوزاعی کہتے ہیں کہ بسم اللہ نہ ہی سورہ فاتحہ کی آیت ہے اور نہ ہی اور کسی سورہ کی

اگر امام ابوحنیفہ کے نزدیک "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" قرآن کا حصہ نہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ سپاہ صحابہ میں شامل تمام ناصبی جو کہ حنفی دیوبند مسلک کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ، انہوں نے "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" کو اپنے قرآن میں 114 جگہ لکھ کر قرآن میں واضح زیادتی کا ارتکاب کیا ہے اور اپنے عام سُنی پیروکاروں کو دھوکا دیا ہے جو کہ "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" کو قرآن کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اگر قرآن میں کمی یا زیادتی کرنا کفر ہے تو سپاہ ِیزید کے نواصب کا امام ابو حنیفہ کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ اس حوالہ نے تو کچھ یوں پیچیدگی پیش کردی ہے کہ اب یا تو ابو حنیفہ کافر جن کی نگاہ میں "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" قرآن کا حصہ نہیں (یعنی جو قرآن آج مسلمانوں کے پاس ہے اس میں زیادتی کی گئی ہے) یا پھر تمام سُنی حضرات کافر ہوئے جو کہ اس کو قرآن کا جز تسلیم کرتے ہیں (حالانکہ ان کے امام کی نظر میں ایسا نہیں)۔ فیصلہ منافرت پسند سپاہ یزید و دیگر نواصب پرہے ، ہم شیعہ حضرات کے نزدیک تو سب ہی کو اپنا نظریہ پیش کرنے اور اس پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے اور کسی کو دوسرے مسلک پر کیچڑ اچھالنے کا حق حاصل نہیں!

الحمداللہ شیعان ِعلی (ع) موجودہ قرآن پر مکمل ایمان رکھتے ہیں بالکل اُسی طرح جس طرح اصل اہل سنت حضرات رکھتے ہیں جبکہ یہ صرف یزیدی ٹولہ ہے جو کہ مسلمانوں کے درمیان قرآن میں تحریف کے موضوع کو مسئلہ بنا کر توہین ِقرآن کا مرتکب ہوتا ہے جس کا مسلمانوں کو نقصان اور فائدہ دشمانان ِاسلام بخوبی حاصل کرتے ہیں۔

سپاہ یزید کو چیلنج کہ یہ ثابت کردیں کہ امام ابوحنیفہ و امام مالک بسم اللہ کو قرآن کا حصہ تسلیم کرتے تھے

ہم ان معتبر سُنی کتابوں سے نقل کرہے ہیں:

1۔ نور الانوار، ص 9
2۔ خر الاقمار، ص 9
3۔ تفسیر کبیر، ج 1 ص 151 ؛ امام فخرالدین راضی
4۔ تفسیر مدارک، ج 1 ص 13
5۔ تفسیر کشاف، ج 1 ص 1 ؛ علامہ زمخشری
6۔ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، ج 1 ص 12

تفسیر کبیر کی عبارت:

 امام ابو حنیفہ کی نظر میں بسم اللہ قرآن کی آیت نہیں

اہل سنت کے ایک اور امام یعنی امام شافعی کے مطابق "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" قرآن کا حصہ ہے اور ہم یہ جانتے کہ قرآن کے ایک لفظ کا بھی رد کرنے والا کافر ہوتا ہے تو کیا اس کا یہ مطلب نہیں ہوا کہ شافعی مسلک کی تعلیمات کے مطابق تمام حنفی بشمول امام ابو حنیفہ کافر ٹھہرے؟ اب ہم پر تنقید کرنے والوں کے لئے پیش کردہ دو متضاد عقائد میں سے کسی ایک کو درست اور دوسرے کو غلط کہنا مشکل کام ہے شائد اسی کشمکش میں مبتلا ہوئے لوگوں نے اس معاملہ میں کچھ ڈھیل دکھائی جو کہ ہم کتاب نور الانوار میں پڑھتے ہیں:

 جو بسم اللہ کو قرآن کا حصہ نہ مانے اسے کافر نہیں کہنا چاہئے جبکہ رد شک پر ہو۔ اس معاملہ میں امام مالک کے نزدیک اختلاف ہے کہ وہ اس کو قرآن کا حصہ نہیں سمجھتے تھے

مخالفین کا عقیدہ: بسم اللہ تو بس قرآن میں ثواب حاصل کرنے کی غرض سے لکھی گئ تھی

علامہ زمخشری اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:

بسم اَللَّهِ الرَّحمَنِ اَلرَّحِيمِ قراء المدينة والبصرة والشأم وفقهاؤها على أن التسمية ليست بآية من الفاتحة ولا من غيرها من السور وإنما كتبت للفصل والتبرك بالابتداء بها كما بدئ بذكرها في كل أمر في بال وهو مذهب أبي حنيفة رحمه اللّه ومن تابعه ولذلك لا يجهر بها عندهم في الصلاة‏.‏

(ترجمہ) مدینہ ، بصرہ اور شام کے فقہاء اور قاریوں کے مطابق "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" نہ ہی سورۃ فاتحہ کا حصہ ہے نہ ہی قرآن کا۔ یہ قرآن میں سورتوں کے درمیاں فرق کرنے اور اس سے ابتداء کر تے ہوئے ثواب حاصل کرنے کی غرض سے لکھا گیا تھا جیسا کے ہر عمل سے پہلے اسے پڑھا جاتا ہے۔ اور اسے قرآن کا حصہ نہ تسلیم کرنا ابو حنیفہ اور ان کے پیروکاروں کا عقیدہ تھا اور اسی وجہ سے اُن کے یہاں نماز میں اسے بلند آواز میں نہیں پڑھا جاتا
تفسیر کشاف ، ج 1 ص1؛ مقدمہ سورۃ فاتحہ

یاد رہے کہ امام شافعی کی نظر میں "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" قراآن کی آیات میں سے ہے ۔ اسی کے متعلق علامہ زمخشری آگے لکھتے ہیں:

 وقراء مكة والكوفة وفقهاؤهما على أنها اية من الفاتحة ومن كل سورة وعليه الشافعي وأصحابه رحمهم الله ولذلك يجهرون بها‏.‏

(ترجمہ): اور مکہ اور کوفہ کے قاریوں کی نزدیک یہ سورہ فاتحہ اور ہر سورہ کی ایک آیت ہے اور یہی امام شافعی اور ان کی پیروکاروں کا عقیدہ ہے اسی لئے وہ اسے باآواز ِ بلند پڑھتے ہیں
تفسیر کشاف ، ج 1 ص1؛ مقدمہ سورہ فاتحہ

یہ دونوں عبارات سلفی وہابیوں کی ویب سائٹ پر موجود تفسیر کشاف میں بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ قارئین کی سہولت کے لئے ہم اس حوالہ کا براہ راست لنک بھی دے رہے ہیں۔
 http://www.al-eman.com/Islamlib/viewchp.asp?BID=244&CID=2#s2

امام ابو حنیفہ اور امام مالک کے مطابق قرآن میں 114 جگہ "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" کو لکھ کر قرآن میں تحریف یعنی زیادتی کی گئی ہے جبکہ شافعی مسلک کی تعلیمات کے مطابق ابو حنیفہ اور مالک قرآن کی 114 آیات کے منکر تھے۔ اب سپاہ یزید کے انتہا پسند ناصبی ہمیں بتانا پسند کرینگے کہ ان دو عقائد کے لوگوں میں سے صحیح کون تھا ؟ یا پھر یوں کہں کہ ان دونوں میں سے کافر کون تھا اور کون نہیں؟ یاد رہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک ہی صحیح ہوسکتا ہے اور ایک کافر کیونکہ خود سپاہ یزید والے شیعہ خیرالبریہ کے لئے یہی چیختے آئے ہیں کہ قرآن میں زیادتی یا کمی کا عقیدہ رکھنے والا کافر ہے تو اب یہاں تو اُن کے دو امام ہیں جو کہ 114 آیات کے منکر ہیں۔ فیصلہ یزیدی سپاہ پر۔

الحمداللہ شیعان ِعلی (ع) موجودہ قرآن پر مکمل ایمان رکھتے ہیں بالکل اُسی طرح جس طرح اصل اہل سنت حضرات رکھتے ہیں جبکہ یہ صرف یزیدی ٹولہ ہے جو کہ مسلمانوں کے درمیان قرآن میں تحریف کے مئسلہ کو اُٹھا کر توہین ِ قرآن کا مرتکب ہوتا ہے جس کا مسلمانوں کو نقصان اور فائدہ دشمانان ِ اسلام بخوبی حاصل کرتے ہیں۔

وہ جو قرآن میں کمی یا زیادتی کرے وہ کافر ہے

ہم اہل سنت کی معتبر کتاب جامع صغیر، ج 2 ص 32 (از جلال الدین سیوطی) میں پڑھتے ہیں :

 رسول اللہ (ص) کے مطابق چھ قسم کے لوگوں پر ان کی، اللہ کی اور باقی نبیوں کی لعنت ہے:
1۔ وہ جو قرآن میں زیادتی کرے
2۔ وہ جو تقدیر کو رد کرے ۔۔۔۔۔

معزز قارئین! یہاں یزید ِ پلید کی حامی جماعت سپاہ صحابہ اور ان جیسے دیگر نواصب کے تین اماموں کے درمیاں اختلاف ہے اور اگر ہم سپاہ صحابہ کی ہی تکفیری زبان استعمال کریں تو کوئی ایک کافر و لعنتی ہو سکتا ہے ۔ یا تو امام شافعی کافر و لعنتی ہوئے کیونکہ انہوں نے ایک عبارت کو 114 مرتبہ قرآن میں لکھ کر زیادتی کی جبکہ وہ قرآن کا حصہ ہی نہ تھا یا پھر ابو حنیفہ و مالک ہوئے کیونکہ انہوں نے قرآن کی 114 آیات کا انکار کیا۔ فیصلہ سپاہ یزید پر ہے کیونکہ یہ ان کا پسندیدہ ترین کھیل ہے جبکہ ہم شیعہ حضرات کے نزدیک دوسرے مسلک پر کفر کے فتویٰ لگانا کوئی معقول فعل نہیں!

نوٹ: 114 اس وجہ سے کہ بسم اللہ سورہ توبہ میں تو نہیں لیکن سورہ نمل میں دو مرتبہ موجود ہے۔

حضرت عثمان کا قرآن کے متعلق اپنی لاعلمی کا اقرار

ہم مندرجہ ذیل سُنی کتب میں پڑھتے ہیں:

1۔ تفسیر غرائب القرآن، ج 2 ص 57
2۔ تفسیر کبیر، ج 4 ص 294
3۔ تفسیر ابن کثیر، ج 3 ص 331
4۔ تفسیر مظہری، ج 4 ص 32
5۔ تفسیر معالم التنزیل، ج 3 ص 410
6۔ تفسیر خازن، ج 3 ص 46
7۔ تفسیر روح المعانی، ج 9 ص 41
8۔ صحیح ترمذی، ج 2 ص 368 ، کتاب التفسیر

ترمذی:

 رسول اللہ (ص) انتقال کر گئے لیکن ہمیں یہ نہیں بتایا کہ سورہ براءت سورہ انفعال کا حصہ ہے کہ نہیں

امام مالک فرماتے ہیں کہ سورہ براءت (یعنی سورہ توبہ) میں بسم اللہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ جب سورہ براءت کا پہلا حصہ کھو گیا تو اس کا بسم اللہ بھی اس کے ساتھ کھو گیا جب کہ یہاں اہل سنت کے خلیفہ سوم فرما رہے ہیں کہ انہیں یہی نہیں معلوم تھا کہ سورہ براءت کس سورہ کا حصہ ہے۔ اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان نے قرآن کی تالیف کرتے وقت سورہ براءت کو بس اپنے قیاس کی بنا پر ایک جگہ رکھ دیا جبکہ اُن کو اس کے درست مقام کا علم ہی نہ تھا۔ جب سپاہ یزید کے عقائد کی کتابیں قرآن میں شکوک و شبہات سے بھری ہوئی ہیں تو انہیں کس نے حق دیا کے وہ اپنے گھر کو درست کرنے کے بجائے دوسروں پر اپنے اذہان کی پلیدگی تھوپیں ؟

صحابی عبداللہ ابن مسعود کے عقیدہ میں سورہ فاتحہ قرآن کا حصہ نہیں

ہم مندرجہ ذیل سُنی کتابوں میں پڑھتے ہیں:

1۔ تفسیر قرطبی ، ج 1 ص 15 اور ج 19 ص 151
2۔ تفسیر درالمنثور، ج 1 ص 2
3۔ تفسیر کبیر ، ص 196
4۔ الاتقان فی علوم القرآن، ج 1 ص 80

تفسیر قرطبی کی عبارت:

 جب ابن مسعود سے یہ دریافت کیا گیا کہ وہ سورہ فاتحہ کو قرآن میں کیوں نہیں لکھتے تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر انہوں نے اسے قرآن میں لکھا تو انہیں ہر سورہ کے ساتھ لکھنا پڑے گا

اہلِ سنت کے امام حافظ ابن حجر عسقلانی صحیح بخاری کی شرح "فتح الباری" میں لکھتے ہیں:

 مسلمانوں میں سورہ الفاتحہ اور معوذتین کے قرآن کا حصہ ہونے پر اجماع ہے اور جو کوئی اسے رد کرے وہ کافر ہے
فتح الباری، ج 8 ص 743 اور ج 9 ص 51

صحابی عبداللہ ابن مسعود کا قرآن کی ایک اہم سورہ الفاتحہ کو اپنے مصحف یعنی اپنی قرآن کی کاپی میں سے خارج کرنا ثابت ہے اور ساتھ ہی یہ امر بھی کہ قرآن کے ایک لفظ کو رد کرنے والا کافر ہے جبکہ صحابی عبد اللہ ابن مسعود قرآن کے اہم سورہ کے منکر تھے۔ سپاہ یزید کے تکفیری عناصر جو شیعہ علماء پر تحریف ِ قرآن کے عقیدہ رکھنے کا الزام دھرتے ہوئے کافر کہتے آئے ہیں ذرا سوچیں کے اُنہی کی نگاہ میں ایک صحابی کا رتبہ ہر عام مسلمان سے بلند ہے تو جس عمل کے لئے وہ ایک عام شیعہ عالم کو کافر ٹھہرا تے ہیں بالکل اُسی عمل کا ارتکاب اگر ایک صحابی کرے تو اُس کے بارے میں سپاہ صحابہ کا کیا کہنا ہے ؟ فیصلہ سپاہ صحابہ پر۔

سپاہ صحابہ کے لئے ایک اور خوراک: علما ِاہل سنت کی گواہی کہ ابن مسعود سورہ فاتحہ کے منکر تھے

ہم اہل ِسنت کی مندجہ ذیل معتبر کتب سے نقل کر رہے ہیں:

1۔ اتقان فی علوم القرآن، ج 1 ص 99
2۔ تفسیر ابن کثیر، ج 1 ص 9
3۔ تفسیر فتح القدیر، ج 1 ص 6
4۔ تفسیر الکبیر، ج 1 ص 219

امام فخرالدین الرازی اپنی کتاب 'تفسیر الکبیر' میں لکھتے ہیں:

نقل في الكتب القديمة أن ابن مسعود كان ينكر كون سورة الفاتحة من القرآن وكان ينكر كون المعوذتين من القرآن

قدیم کتابوں میں رقم ہے کہ ابن مسعود فاتحہ اور معوذتین کو قرآن کا حصہ ماننے سے انکار کرتے تھے

ہم انصاف کے طلبگار ہیں! ہم شیعہ خیرالبریہ سپاہ صحابہ اور وہابی مسلک میں موجود نواصب کی جانب سے اس وجہ سے کافر کہے جاتے ہیں کہ ہماری احادیث کی کتابوں میں بعض احادیث ہیں جن سے تحریف ِ قرآن کا گمان ہوتا ہے لیکن جب ان کے اپنے امام "بسم اللہ رحمان الرحیم" کو قرآن کا حصہ نہ مانتے ہوئے 114 آیات کا انکار کریں اور صحابی ِ رسول (ص) قرآن کی ایک اہم سورہ الفاتحہ کا انکار کریں تو وہ ان لوگوں کے چہیتے ہی رہتے ہیں۔ واہ رے واہ منافقت ! تو نے بھی کیا سہی جگہ ڈیرہ ڈالا!

سپاہ صحابہ کےعقیدہ ِتحریف ِقرآن کا مزید انکشاف! عبداللہ ابن مسعود معوذتین کے بھی منکر تھے

معوذتین قرآن کے آخری دو سورتیں یعنی سورہ والناس اور سورہ فلق کو کہتے ہیں اور صحابی عبد اللہ ابن مسعود ان دو سورتوں کا قرآن کا حصہ ہونے کے بھی منکر تھے۔ اس کا ثبوت مندرجہ ذیل معتبر سُنی کتابوں سے:

1۔ صحیح بخاری (اردو) ، ج 2 ص 1088 کتاب التفسیر
2۔ فتح الباری، ج 8 ص 743 ، کتاب التفسیر
3 تفسیر دُرالمنثور، ج 6 ص 41 6
4۔ تفسیر ابن کثیر، ج 4 ص 571
5۔ تفسیر قرطبی، ج 2 ص 251
6۔ تفسیر روح المعانی، ج 1 ص 279
7۔ شرح موافق، ص 679

صحیح بخاری کی روایت ملاحضہ ہو:

 زر بن حبیش سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے ابی بن کعب سے پوچھا: اے ابوالمنذر (یہ ابی بن کعب کی کنیت ہے) تمہارے بھائی عبد اللہ ابن مسعود (ر) ایسا کہتے ہیں (کہ معوذتین قرآن میں داخل نہیں ہیں) انہوں نے کہا میں نے آنحضرت (ص) سے پوچھا انہوں نے فرمایا (جبرائیل کی زبان پر) یوں کہا گیا ایسا کہہ میں نے کہا تو ہم وہی کہتے ہیں جو آنحضرت (ص) کہتے تھے
 صحیح بخاری ، کتاب التفسیر، ج 2 ص 1088 حدیث 2080 (مکتبہ رحمانیہ لاہور)

ابن حجر عسقلانی کتاب فتح الباری میں لکھتے ہیں:

 ابن مسعود معوذتین کو اپنے مصحف میں لکھتے اور مٹادیتے تھے اور کہتے کہ یہ قرآن میں سے نہیں ہے

محترم قارئین! سورہ فاتحہ قرآن شروعات جبکہ سورہ والناس قرآن کا اختتام ہے اور ہمیں معلوم ہوا کہ سپاہ صحابہ اور انکے اماموں کے نظر میں قرآن کی شروعات بھی مشکوک ہے اور قرآن کا اختتام بھی۔ یزید ِ پلید کے ہمنوائوں کو اپنی صحیح کتابیں کیوں نظر نہیں آتیں اور کیوں وہ بس مسلسل شیعان ِعلی (ع) کے خلاف تکفیر کرتے رہتے ہیں؟

امام قرطبی اپنی تفسیر کی جلد 1 صفحہ 53 پر لکھتے ہیں:

جو کوئی معوذتین کو قرآن کا حصہ نہ مانیں وہ کافر ہے

سپاہ صحابہ جن کا منشور یہ تھا کہ تمام صحابہ عادل ہیں اور سب کا احترام لازمی ہے (چاہے وہ کچھ بھی کریں) اور اُن میں سے کسی کی بھی پیروی کی جائے تو فلاح پائی جاسکتی ہے، اور صحابی عبداللہ ابن مسعود کا معوذتین کو رد کرنا ناصبیت کے گلے میں پھنسی وہ ہڈی ہے جس کو نکالنے کی جتنی کوشش ان لوگوں نے یزیدی ہسپتال کے سرجنوں سے کروائی وہ اُتنی ہی اندر جاتی گئی۔

صحابی عبد اللہ ابن مسعود نے اپنے مصحف میں سورہ فاتحہ اور معوذتین شامل نہیں کی تھی

علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی معروف کتاب "الاتقان فی علوم القرآن" میں صحابی عبد اللہ ابن مسعود کے مصحف (قرآن) میں موجود سورتوں کی ترتیب نقل کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے مصحف میں سورہ فاتحہ اور معوذتین (یا معوذتان) شامل نہیں تھے۔ ابن اشتح سے روایت ہے:

 عبداللہ ابن مسعود کے مصحف کی ترتیب یوں تھی:
الاطوال، البقرہ، النساء، آلِ عمران، ۔۔۔۔۔ الکوثر، کُل یا ایھاالکافرون، تبت، قل ھو اللہ ھواحد، اور، الم نشرح، اور اس میں الحمد اور معوذتان نہیں تھیں
الاتقان فی علوم القرآن، ج 1 ص 173 (اردو ایڈیشن، ادارہ اسلامیہ لاہور)

آج سپاہ یزید جسے ناصبی حضرات گلی کوچوں میں شیعہ کافر شیعہ کافر کی رٹ لگائے ملتے ہیں صرف اس لئے کہ شیعہ کتب میں بعض احادیث سے تحریف ِ قرآن کا گمان ہو سکتا ہے لیکن اُس شخص کے متعلق اس یزیدی سپاہ کی کیا رائے ہے جو اپنے قرآن سے سورہ الحمد اور معوذتین کو خارج کردے؟

ابن مسعود کا معوذتین کا منکر ہونا صحیح روایات سے ثابت ہے

1۔ فتح الباری، ج 8 ص 74
2۔ اتقان فی علوم القرآن، ج 1 ص 212

ان دونوں کتابوں کے مطابق حضرت عبد اللہ ابن مسعود کا معوذتین کا رد کرنا "صحیح" روایات سے ثابت ہے۔ یہاں ہم علامہ جلال الدین کا نظریہ پیش کرتے ہیں جو اپنی کتاب اتقان (اردو ایدیشن، ادارہ ِ اسلامیہ لاہور) میں تحریر کرتے ہیں:

 عبد اللہ ابن احمد اپنی کتاب 'زیارت المسند' اور طبرانی اور ابن مرجح نے اعمش، ابی اسحاق، عبدالرحمٰن بن یزید نخعی سے روایت کی ہے: عبد اللہ ابن مسعود معوذتین کو مصحف سے مٹاتے اور کہتے کہ یہ قرآن میں سے نہیں ہے"۔ اور بزار اور تبرانی نے اسی راوی سے روایت کی ہے: "عبداللہ ابن مسعود معوذتین کو مصحف میں لکھتے اور مٹاتے اور کہتے کہ رسول اللہ (ص) نے ان سورتوں کو صرف تعویز کے لئے استعمال کرنے کا حکم دیا تھا اور ابن مسعود نے یہ سورتیں نہیں لکھیں"۔ اس روایت کے تمام اسناد صحیح ہیں

تو صحابی عبد اللہ ابن مسعود کی تعلیمات کے مطابق حضرت عثمان نے موجودہ قرآن کی تالیف کرتے وقت سورہ فاتحہ اور ان دو سورتوں کو قرآن میں لکھ کرجو کہ قرآن کا حصہ "نہیں" تھے قرآن میں زیادتی کی ہے جبکہ باقی صحابہ کے عقیدہ کے مطابق صحابی عبداللہ ابن مسعود نے سورہ فاتحہ اور معوذتین کو قرآن سے نکال کر جو کہ قرآن کا حصہ تھے قرآن میں کمی کی ہے ۔ اب ان دونوں میں سے کافر کون ہے اس کا فیصلہ سپاہ صحابہ اور وہابی و سلفی تحریک کے مُلا پر ہے لیکن دونوں میں سی کوئی ایک ہی درست ہو سکتا ہے۔ اور اگر تحریف ِ قرآن کا عندیہ دینے والے صحابہ کے یہ دونوں گروہ صحیح ہیں تو پھر شیعہ جو کہ قرآن کے کامل ہونے کی شہادت دیتے ہیں وہ کافر کس اصول کے تحت ہو گئے؟

اگر کوئی ناصبی پریشان ہوجائے اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بہانہ بنا بھی دے کہ یہ روایت معتبر نہیں تو ان کا اپنے امام جلال الدین سیوطی کے متعلق کیا فتویٰ ہے جو تحریف کو ثابت کرنے والی اس آیت کو صحیح تسلیم کرتے تھے؟

صحابہ کا عقیدہ کہ موجودہ قرآن کی سورہ ولیل میں زیادتی کی گئی ہے اور اس پر امام بخاری کی تصدیق

1۔ صحیح بخاری (اردو)، ج 2 ص 1068 کتاب التفسیر
2۔ تفسیر دُد المنثور، ج 6 ص 358، سورہ والیل

صحیح بخاری کی روایت ملاحظہ ہو:

 ابراہیم نخعی سے روایت ہے انہوں نے کہا عبد اللہ ابن مسعود (ر) کے شاگرد (شام کے ملک میں) ابو الدرداء صحابی کے پاس گئے ، ابو الدرداء ڈھونڈ کر ان سے ملے اور ان سے پوچھا عبد اللہ ابن مسعود کی طرح تم میں کون سا شخص قرآن پڑھتا ہے۔ انہوں نے کہا ہم سب اسی طرح پڑھتے ہیں ۔ ابو الدرداء نے کہا کس کو زیادہ یاد ہے ؟۔ انہوں نے علقمہ کی طرف اشارہ کیا۔ ابو الدرداء نے علقمہ سے پوچھا اچھا حضرت عبدللہ ابن مسعود سورہ واللیل کو کس طرح پڑھتے تھے۔ علقمہ نے کہا یوں پڑھتے تھے (والذكر والأنثى‏) ۔ ابو الدرداء کہنے لگے میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ (ص) کو اسی طرح پڑھتے سُنا ہے۔ مگر یہ شام کے ملک والے چاہتے ہیں کہ میں یوں پڑھوں (وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى) ۔ میں تو خدا کی قسم کبھی اس طرح نہیں پڑھنے کا
 صحیح بخاری، کتاب التفسیر، ج 2 ص 1068 حدیث 2049 (مکتبہ رحمانیہ لاہور)

عبداللہ ابن مسعود اور ان کے صحابہ کے برخلاف آج تمام مسلمان سورہ الیل کی اس آیت کو اس طرح پرھتے ہیں "وما خلق والذكر والأنثى" جبکہ علقمہ اور صحابی ابو الدرداء کے مطابق یہ آیت اس طرح ہونی چاہئے تھی " والذكر والأنثى" اور پھر یہ بھی یاد رہے کہ صحابی ابو الدرداء کی گواہی کے مطابق رسول اللہ (ص) نے بھی یہ آیت " والذكر والأنثى" کے الفاظ کے ساتھ ہی پڑھی تھی جس کا مطلب تو یہ ہوا کہ موجودہ قرآن میں " وما خلق" کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ اب یہاں اگر ہم سپاہ ِیزید کی زبان استعمال کریں تو آیا وہ صحابہ کافر جن کے عقیدہ کے مطابق "وما خلق" قرآن کا حصہ نہیں اور انہوں نے رسول اللہ (ص) سے جھوٹ منسوب کیا (اور یہ ایک الگ گناہ) یا پھر سب مسلمان کافرجو کہ صحابہ اور رسول اللہ (ص) کے برخلاف آج ان الفاط کو قرآن کا حصہ سمجھ کر پڑھتے ہیں ؟ فیصلہ پھر نواصب پر۔

اور ناصبی پالیسی کو استعمال کرتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ امام بخاری نے اپنی 'صحیح' احادیث کی کتاب میں اس روایت کو شامل کیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بھی قرآن میں تحریف کے قائل تھے۔ یہ دیکھ کر نواصب کہیں شیعہ علماء پر یہی الزام نہ دھریں کیونکہ کسی شیعہ عالم نے دعوٰی نہیں کیا اور نہ ہی کسی شیعہ نے کے ہمارے مذہب کی کتابوں میں جو کچھ لکھا ہے وہ سو فیصد 'صحیح' ہے جبکہ امام بخاری نے کئی ہزار احادیث پر عبور حاصل کیا لیکن اپنی کتاب میں صرف وہی احادیث شامل کیں جو "صحیح" کے درجے کو پہنچیں اور یہی وجہ ہے کہ اہل ِ سنت صحیح بخاری کو قرآن کے بعد صحیح تریں کتاب مانتے ہیں جبکہ ہم شیعان ِعلی (ع) کے عقیدہ کے مطابق قرآن کے علاوہ کوئی کتاب سو فیصد صحیح نہیں۔

صحابی ابی بن کعب کے مصحف میں وہ لفظ نہیں تھا جو موجودہ قرآن میں شامل ہے

سورہ انساء کی آیت نمبر 101 ہے:

‏ليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة إن خفتم أن يفتنكم الذين كفروا‏‏

علامہ جلال الدین سیوطی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:

 ابی بن کعب اس آیت میں 'إن خفتم' نہیں پڑھتے تھے جبکہ مصحف ِعثمان میں یہ اس طرح ہے ‏{‏إن خفتم أن يفتنكم الذين كفروا‏} ‏‏

تفسیر در المنثور انٹر نیٹ پر بھی دستیاب ہے اور قارئین کی سہولت کے لئے اس حوالہ کے لنک درج ذیل ہے
 http://www.al-eman.com/Islamlib/viewchp.asp?BID=248&CID=117#s4

اس روایت سے واضح ہے کہ صحابی ابی بن کعب کی نگاہ میں 'إن خفتم' قرآن کا حصہ نہیں یعنی حضرت عثمان اور ان کے ساتھیوں نے موجودہ قرآن میں زیادتی کی ۔ اب سپاہ یزید کی زبان میں یا تو صحابی ابی بن کعب کافر کہ وہ اُن الفاظ کو رد کرتے تھے جو کہ قرآن کا حصہ ہیں یا پھر حضرت عثمان اور اُن کی وجہ سے سب مسلمان کافر جو کے ایسے الفاظ کو قرآن کا حصہ مانتے ہیں جو کہ دراصل صحابی ابی بن کعب کے مطابق قرآن کا حصہ ہیں ہی نہیں۔ فیصلہ ناصبی عدالت میں۔

اس باب کے آخر میں ہم سپاہ یزید اوران کی دیگر ناصبی برادری جو کے شیعہ دشمن عقیدہ رکھتے ہیں یہ کہنا چاہیں گے کہ تحریف ِ قرآن کو ثابت کرنے والی روایات کی موجودگی کی بنا پر شیعہ کافر شیعہ کافر چیخنے سے قبل پہلے وہ اپنی کتابیں ٹٹولیں جو کہ صحیح کا درجہ رکھتی ہیں اور پہلے قرآن پر اپنا تو ایمان ثابت کریں اور جب وہ اُن تمام صحابہ و تابعین جنہوں نے تحریف ِقرآن کو ثابت کرنے والی احادیث روایت کیں بشمول اُن علماء کے جنہوں نے ان روایات کو نقل کیا اور صحیح کا درجہ دیا، کافر قرار نہیں دیتے تب تک انہیں شیعوں پر اپنی نجس انگلیاں اُٹھانے کا کوئی حق نہیں۔

الحمداللہ شیعان ِعلی (ع) موجودہ قرآن پر مکمل ایمان رکھتے ہیں بالکل اُسی طرح جس طرح اصل اہل سنت حضرات رکھتے ہیں جبکہ یہ صرف یزیدی ٹولہ ہے جو کہ مسلمانوں کے درمیان قرآن میں تحریف کے مئسلہ کو اُٹھا کر توہین ِ قرآن کا مرتکب ہوتا ہے جس کا مسلمانوں کو نقصان اور فائدہ دشمانان ِاسلام کو حاصل ہوتا ہے۔
 
باب 5: قرآن میں کمی کے متعلق سنی روایات


ضروری وضاحت: اس باب میں نواصب کی جانب سے "نسخ" کا بہانہ تسلیم نہیں کیا جائے گا

اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ نواصب شیعوں پر تو تحریف ِ قرآن کا عقیدہ ان کی چند روایات سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب شیعہ حضرات ان نواصب کو ان کی مستند کتابوں سے یکے بعد دیگرے حوالے پیش کرتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ناصبی حضرات اور ان کے اجداد قرآن میں چند الفاط و آیات پڑھا کرتے تھے جو اب قرآن میں موجود نہیں تو یہ لوگ فوراً یہ بہانہ کرتے ہیں کہ یہ الفاظ اللہ تعا لیٰ نے منسوخ کردئے ہیں لہٰذا اب قرآن میں شامل نہیں۔ یہ بہانہ وہ اپنے جاہل پیروکاروں کو بہلانے کے لئے تو استعمال کر سکتے ہیں لیکن یہاں ان نواصب کا سامنا شیعان ِ حیدر ِ کرار سے ہے جو اپنی عقل کو کسی مدرسہ کے مُلا کے حوالے نہیں کردیتے۔ اگر نواصب کا ہماری کسی بھی پیش کردہ آیت کو منسوخ کہنے کا پروگرام ہے تو وہ بیشک کر سکتے ہیں لیکن اس کے لئے انہیں متواتر و صحیح احادیث پیش کرنی ہونگی یا کسی صحابی سے صحیح روایت بیان کرنی ہوگی جس سے معلوم ہو کہ ہماری پیش کردہ آیت منسوخ ہو گئ ہے اور محض ذاتی آراء تسلیم نہیں کی جائینگی چاہے وہ بہت بڑا عالم ِ دین ہی کیوں نہ ہو کیونکہ یہ صرف ہمارا ہی چیلنج نہیں ہے بلکہ خود سُنی مسللک میں نسخ کو ثابت کرنے کا ایک اصول ہے۔ علامہ جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں:

 انما يرجع في النسخ الى نقل صريح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم اوعن صحابي يقول اية كذا۔۔۔ نسخت كذا‏.‏ ولا يعتمد في النسخ قول عوام المفسرين بل ولا اجتهاد المجتهدين من غير نقل صحيح ولا معارضة بينة لا النسخ يتضمن رفع حكم اثبات حكم تقرر في عهده صلى الله عليه وسلم والمعتمد فيه النقل والتاريخ دون الراي والاجتهاد‏.‏

سوائے صریح حدیث کے جو رسول اللہ (ص) سے منقول ہو یا پھر ثقہ صحابی سے جس پر ناسخ ِ آیت موجود ہو نسخ کو قبول نہیں کیا جائے گا۔۔۔ تنسیخ ِ آیت میں عام مفسروں کے قول بلکہ مجتہدوں کے محض اجتہاد کو بھی کوئی اعتبار نہیں ہوسکتا جب کے صحیح حدیث سے تنسیخ ِ آیت نہ ثابت ہوجائے جس کے معارض کوئی بینہ اور برہان موجود نہ ہو۔ کیونکہ نسخ کسی (قرآنی) حکم کے ازالے یا اثبات پر شامل ہے جو عہد ِ پیغمبر (ص) میں مقرر ہوچکا ہو اس لئے کسی آیت کو منسوخ قرار دینے کے لئے حدیث اور تاریخ کی ضرورت ہے نہ کہ کسی کی رائے اور اجتہاد کی
اتقان فی علوم القرآن، ج 2 ص 63 نوع 47

اور پھر ہمارے مخالفین کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اہل ِسنت کے چار مکتبہ فکر میں سے دو کے بانی آئمہ یعنی امام شافعی اور امام احمد کے مطابق نسخ تو قرآن میں کبھی ہوا ہی نہیں ہے۔ سنی عالم ِدین علامہ سیف الدین العامدی اپنی کتاب 'الاحکام فی اصول الاحکام' میں تحریر کرتے ہیں:

قطع الشافعي وأكثر أصحابه وأكثر أهل الظاهر بامتناع نسخ الكتاب بالسنة المتواترة وإليه ذهب أحمد بن حنبل في إحدى الروايتين عنه

شافعی اور ان کے اکثر صحابہ اور اہل ِطاہر کی اکثریت کا عقیدہ ہے کہ کتاب (یعنی قرآن) میں نسخ متواتر احادیث سے نہیں ہوسکتا۔ یہی بات امام احمد حنبل نے اپنے سے روایت کردہ دو میں سے ایک روایت میں کہی ہے۔

امام شافعی کے اس عقیدہ کی امام فخرلادین الرازی نے اپنی کتاب 'المحصول' ج 3 ص 348 میں بھی تصدیق کی ہے۔

نسخ الكتاب بالسنة المتواترة جائز وواقع ، وقال الشافعي رضي الله عنه لم يقع

متواتر احادیث سے قرآن میں نسخ ہوسکتا ہے اور ایسا ہو بھی چکا ہے لیکن شافعی (رضی اللہ تعالی عنہ) کا قول ہے کہ ایسا نہیں ہوا

بہرکیف، نسخ سے متعلق ان سنی عقائد و اصول کو ذہن میں رکھتے ہوئے آئیے ہم نواصب کے مسلک کی چند روایات پیش کرتے ہیں جن سے ایک عام آدمی کو تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں کمی کردی گئ ہے اور وہ آیات و الفاط جو کہ صحابہ اپنے زمانے میں قرآن میں پڑھا کرتے تھے آج ہمیں قرآن میں نہیں ملتے۔

پیش ِخدمت ہے سپاہ ِصحابہ اور وہابیوں کا 40 پاروں والا قرآن

اس سلسلے میں ہم نے مندرجہ ذیل مستند سُنی کتابوں پر انحصار کیا ہے:

1۔ فتح الباری شرح صحیح بخاری، ج 9 ص 95 ؛ امام ابن حجر عسقلانی
2۔ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، ج 9 ص 345 ؛ علامہ بدروالدین آئینی
3۔ ارشاد الساری شرح صحیح بخاری، ج 7 ص 482 ؛ علامہ شہابالدین قستلانی

فتح الباری کی روایت ملاحضہ ہو:

 قال أقل ما يجزئ من القراءة في كل يوم وليلة جزء من أربعين جزءا من القرآن
کم سے کم مقدار میں قرآن کا پڑھنا کافی ہے وہ یہ ہے کہ ہر دن و رات 40 پاروں میں سے 1 پارہ پڑھا جائے

یہ روایت وہابی حضرات کی پسندیدہ ویب سائٹ پر موجود کتاب فتح الباری میں بھی باآسانی پڑھی جاسکتی ہے
 http://www.al-eman.com/hadeeth/viewchp.asp?BID=12&CID=439#s6

ہم جانتے ہیں کہ آج ہم تمام مسلمانوں کے پاس موجود قرآن 30 پاروں میں تقسیم ہے لیکن آج ہمیں اس بات کا انکشاف بھی ہوا کہ سپاہ صحابہ اور دیگر نواصب کے عقیدہ کے مطابق موجودہ قرآن میں سے پورے 10 پاروں کی کمی ہے۔ لہٰذا اب نواصب چند کمزور شیعہ روایات کو بنیاد بنا کر ہم پر تحریف ِ قرآن کا عقیدہ تھوپنے سے پہلے اپنے عقیدہ کی وضاحت کریں۔

سُنی علماء کا عقیدہ کہ موجودہ قرآن سے کچھ الفاظ کھو گئے

سب سے پہلے ہم علامہ جلال الدین سیوطی کے اُن الفاظ کو نقل کرنا چاہینگے جو انہوں نے اپنی معروف تفسیر در المنثور کے مقدمہ میں تحریر کئے:

 حمد اُس اللہ کی جس نے مجھے توفیق دی کی میں اس عظیم کتاب کی تفسیر اُن ذرائع سے لکھوں جو مجھ تک اعلیٰ اسناد سے پہنچی ہیں

پھر سورہ احزاب کے مقدمہ میں علامہ صاحب نے امام سفیان ثوری کا ایک عظیم قول انہی کے شاگرد امام عبدالرزاق سنعانی (المتوفی 211 ھ)کی زبانی نقل کرتے ہیں::

 خرج عبد الرزاق عن الثوري قال‏:‏ بلغنا ان ناسا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم كانوا يقرأون القرآن أصيبوا يوم مسيلمة، فذهبت حروف من القرآن‏.‏
عبد الرزاق نے ثوری سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: مجھ تک بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ (ص) کے اُن صحابہ میں سے جو قاری ِ قرآن تھے مسلمہ کے روز قتل ہوگئے اور اُن کے قتل کے ساتھ قرآن سے الفاظ کھو گئے

خاندان یزید کی گمراہ اولاد یعنی تنگ نظر وہابی و سلفی اور سپاہ یزید کا شدت پسند ٹولہ جوشیعہ خیرالبریہ کے خلاف ہمیشہ اپنی ذہن کا گند اُگلتے دکھائی دیتے ہیں اور شیعوں پر اس لئے کفر کا فتویٰ صادر کرتے ہیں کہ کچھ شیعہ کتابوں میں بعض احادیث ہیں جن سے تحریف ِ قرآن کا شبہ ہوتا ہے وہ لوگ ذرا اپنے چہیتے اماموں کی روایات کی جانب اپنی نظریں دوڑائیں اور اگر اُن میں غلطی سے کوئی شرم باقی رہ گئی ہو تو وہ وہی فتوٰی جو وہ شیعوں کے خلاف دیتے ہیں اپنے اُن اماموں کے خلاف دے کر انصاف کا تقاضہ پورا کریں جنہوں نے اپنی کتب میں تحریف ِ قرآن کو ثابت کرنے والی روایات نقل کیں۔ ویسے ہمیں امید تو نہیں کہ سپاہ یزید منافقت کا دامن ترک کرتے ہوئے انصاف سے کام لے گی لیکن پھر بھی ہم فیصلہ اُن پر ہی چھوڑتے ہیں۔


صحابی عبداللہ ابن عمر کا عقیدہ کہ قرآن کا بیشتر حصہ کھو گیا

خلیفہ دوم کے گھر کے چشم و چراغ، یزید کے اہم ترین حامی اور سپاہ صحابہ اور وہابی و سلفی حضرات کی معتبر شخصیت جناب عبد اللہ ابن عمر نے اپنا عقیدہ ِ تحریف ِ قرآن بیان کر کے دشمنان ِ شیعہ کے مذہب میں چار چاند لگا دیئے۔ حوالہ:

1۔ تفسیر در المنثور، ج 1 ص 106
2۔ الاتقان، ج 2 ص 64 (اردو ایڈیشن)
3۔ تفسیر روح المعانی، ج 1 ص 25
4۔ فضائل قرآن، ج 2ص 135

سنی مسلک کے پہلے ادوار کے جید علماء میں سے ایک علامہ قاسم بن سلام (المتوفی 222 ھ)اپنی کتاب فضائل قرآن میں نقل کرتے ہیں:

حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، عن أيوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال : « لا يقولن أحدكم قد أخذت القرآن كله وما يدريه ما كله ؟ قد ذهب منه قرآن كثير ، ولكن ليقل : قد أخذت منه ما ظهر منه

ابن عمر (ر) نے کہا کہ بیشک تم لوگوں میں سے کوئی یہ بات کہے گا کہ میں نے تمام قرآن اخذ کرلیا ہے ۔ بجایکہ اُسے یہ بات معلوم ہی نہیں کہ تمام قرآن کتنا تھا۔ کیونکہ قرآن میں سے بہت سا حصہ جاتا رہا ہے

سپاہ یزید و دیگر ناصبی برادری یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ شیعہ تحریف کے قائل ہیں جبکہ ہمارا ایمان ہے کہ قرآن مکمل ہے ۔ لیکن یہاں صحابی عبداللہ ابن عمر کا فرمان ہے کہ قرآن کا بہت سا حصہ کھو گیا اب یا تو ابن عمر جھوٹ بول رہے تھے یا پھر سپاہ یزید والے معمول کے مطابق اس معاملے میں بھی جھوٹ بک رہے ہیں ؟ اُن کی نظر میں صحابہ تو جھوٹ بول نہیں سکتے وہ بھی اس مشہور گھرانے کا صحابی، تو پھر نتیجہ یہ ہوا کہ سپاہ یزید اور ان کی پوری ناصبی برادری جھوٹی ٹھہری اور ان کا تحریف ِ قرآن کا عقیدہ عیاں ہوا۔

سپاہ یزید کی جانب سے ابن عمر کے بیان کے دفاع میں وضاحتیں

نواصب عبد اللہ ابن عمر کے اس دلیرانہ بیان سے پریشان ہو کر چند ایک بہانوں تک پہنچتے ہیں تاکہ وہ تحریف ِ قرآن کے عقیدہ کے کھُلنے والی عمرو عیّار کی زنبیل کو بند کرسکیں۔ ان کی جانب سے جو وضاحتیں عام طور سے پیش کی جاتیں ہیں وہ یہ ہیں:

پہلی وضاحت: روایت معتبر نہیں

یہ نواصب کا پہلا حربہ ہے ۔

ہمارا جواب:

ناصبی حضرات کے اس بہانے کو مٹی میں ملانے کے لئے ہم اس روایت میں موجود راویوں کے متعلق امام ذھبی اور امام ابن حجرعسقلانی کی آراء درج کرہے ہیں جس کے بعد یہ ثابت ہوجائےگا کہ یہ روایت کسی بھی صورت میں صحیح کے درجے سے کم نہیں۔ اسماعیل بن ابراہم کے متعلق ذھبی کہتے ہیں کہ وہ حجت ہیں (الکاشف، ج 1 ص 242) جبکہ ابن حجر نے اسے ثقہ قرار دیا ہے (تقریب التھذیب، ج 1 ص 90)۔ ایوب السختیانی کے متعلق ذھبی کہتے ہیں کہ وہ امام حافظ اور سید العلماء ہیں (سیراعلام النبلا، ج 6 ص 15) جبکہ ابن حجر نے انہیں 'ثقہ ثبت حجت' قرار دیا ہے (تقریب التھذیب، ج 1 ص 117)۔ نافع کے متعلق ذھبی نے کہا ہے کہ وہ تابعین کے امام ہیں (الکاشف، ج 2 ص 315) جبکہ ابن حجر نے'ثقہ ثبت' قرار دیا ہے (تقریب التھذیب، ج 2 ص 231)۔

اور پھر یہ روایت امام جلال الدین سیوطی نے بھی اپنی کتابوں میں نقل کی ہے اور ہم یاد دلا تے چلیں کہ سیوطی نے اپنی کتاب تفسیر در المنثور کے مقدمہ میں تحریر کیا ہے:

 حمد اُس اللہ کی جس نے مجھے توفیق دی کی میں اس عظیم کتاب کی تفسیر اُن ذرائع سے لکھوں جو مجھ تک اعلیٰ اسناد سے پہنچی ہیں

دوسری وضاحت: روایت میں لفظ ذھب استعمال ہوا ہے جسکا مطلب نسخ کے ہیں ناکہ کھو جانے کے

دوسرا اور سب سے ذیادہ استعمال ہونے والا بہانہ جو سپاہ یزید کے مُلاوں نے اپنے پیروکاروں کو سکھایا ہے وہ یہ کہ لفظ ذھب جو اس روایت میں استعمال ہوا ہے اس کے معنی نسخ کے ہیں کھو جانے کے نہیں لہٰذا صحابی عبد اللہ ابن عمر کا بیان نسخ شدہ آیات کے متعلق تھا اور اس سے تحریف کا امکان بالکل بھی ظاہر نہیں۔

ہمارا پہلا جواب: سپاہ یزید کو چیلنج کو وہ ذھب کے معنی نسخ ثابت کردیں

سپاہ صحابہ والوں کو چیلنج ہے کہ اگر انہوں نے اپنی مائوں کا دودھ پیا ہے نہ کہ جھنگوی فیکٹری کی بوتل کا تو وہ کسی معتبر لغت سے اپنے دعویٰ کو ثابت کریں کہ لفظ ذھب کے معنی نسخ کے ہیں۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ ان کی شرانگیز تنظیم کے وہ تمام مشکوک الولادت لیڈران جو اب اس دنیا میں نہیں اگر قبر کے عذاب سے بھی اُٹھ کر آجائیں تو بھی وہ یہ ثابت نہیں کر سکتے۔ ہاں اگر وہ اپنے گھر کی لغت استعمال کررہے ہیں جو کہ نسل در نسل ان کے ساتھ آرہی ہے جس کے مطابق تبرہ کا مطلب گالیاں دینا ، تقیہ کی مطلب منافقت ، نکاح المتعہ کا مطلب زنا کاری اور شیعہ کا مطلب کافر ہے تو جاہلوں کا تو علاج ہمارے پاس نہیں انہیں احمقوں کی جنت ہی مبارک ہو۔

ہمارا دوسرا جواب: خلیفہ دوم حضرت عمر نے ذھب کے معنی نسخ سمجھنے والوں کی تردید کردی ہے

صحیح بخاری کی مشہور روایت ہے:

روایت ہے زید بن ثابت سے، انہوں نے کہا جب یمامہ کی لڑائی میں (جو مسلیمہ کذاب سے ہوئی تھی) مسلمان مارے گئے (سات سو صحابہ شہید ہوئے ) تو ابو بکر صدیق (ر) نے مجھے کہلوا بھیجا ، میں گیا تو دیکھا حضرت عمر بھی وہاں بیٹھے ہیں ، ابو بکر صدیق نے کہا کہ عمر میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یمامہ کی لڑائی میں قرآن کے قاری بہت مارے گئے ہیں ڈرتا ہوں ایسا نہ ہو کہ اسی طرح لڑائیوں میں قاری مارے جائیں اور بہت سا قرآن ہاتھ سے جاتا رہے تو مناسب سمجھتا ہوں آپ قرآن کو اکھٹا کرنے کا حکم دے دیجئے ۔۔۔
صحیح بخاری (اردو)، ج 2 ص 1091 کتاب التفسیر، (مکتبہ رحمانیہ لاہور)

یہی روایت صحیح بخاری کے انگریزی ترجمہ میں بھی پڑھی جاسکتی ہے:

Abu Bakr As-Siddiq sent for me when the people! of Yamama had been killed (i.e., a number of the Prophet's Companions who fought against Musailama). (I went to him) and found 'Umar bin Al-Khattab sitting with him. Abu Bakr then said (to me), "Umar has come to me and said: "Casualties were heavy among the Qurra' of the! Qur'an (i.e. those who knew the Quran by heart) on the day of the Battle of Yalmama, and I am afraid that more heavy casualties may take place among the Qurra' on other battlefields, whereby a large part of the Qur'an may be lost .Therefore I suggest, you…”

جو عربی لفظ حضرت عمر نے 'کھو جانے' یا 'ہاتھ سے جاتا رہنے' کے لئے استعمال کیا ہے وہ 'ذھب' ہی ہے۔ اس حدیث کو انٹرنیٹ پر موجود عربی صحیح بخاری میں بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ لنک درج ہے۔
 صحیح بخاری ، (انگریزی)، حدیث 5037

جو لوگ یہ بہانہ بناتے ہیں کہ ذھب کے معنی نسخ کے ہیں وہ بیٹے کے بیان کو پڑھنے سے قبل باپ کے بیان پر غور کریں جو کہ خلیفہ دوم بھی ہیں۔ اگر ذھب کے معنی نسخ ہیں تو حضرت عمر کے بیان کا مطلب کچھ یوں بنتا ہے:

 ۔۔۔ڈرتا ہوں ایسا نہ ہو کہ اسی طرح لڑائیوں میں قاری مارے جائیں اور بہت سا قرآن منسوخ ہوتا رہے۔۔۔

جو کہ سراسر غلط ہے کیونکہ جنگ یمامہ حضرت ابو بکر کے دور ِ حکمرانی میں لڑی گئی اور قرآن کا نسخ رسول کے زمانے میں ہوتا ہے۔ کیا نواصب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ حضرت ابو بکر کو اگلا رسول مانتے ہیں ؟


حضرت عائشہ و عمر کا آیت ِرجم میں عقیدہ رکھنا اور لوگوں کے کہنے سُننے کے ڈر سے تقیہ کرنا

یہاں سب سے پہلے ہم ایک بات واضح کردیں کہ آیت ِرجم کے معاملے میں ہم اپنے مخالفین کو تھوڑی چھوٹ دیتے ہیں اور مخالفین کا یہ عقیدہ کہ آیت ِرجم منسوخ ہوچکی ہے کچھ دیر کے لئے مان بھی لیتے ہیں۔ لیکن پھر ہماری بحث کا مقصد و محور صرف اور صرف ان صحابہ کے عقائد ہیں جنہوں نے آیت ِرجم کو کسی موقع پر منسوخ نہیں کہا بلکہ کتاب کا حصہ ہی تسلیم کیا۔

1۔ صحیح بخاری (اردو)، ج 3 ص 759، کتاب المحاربین
2۔ صحیح بخاری (اردو)، ج 3 ص 914 ، کتاب الاحکام
3۔ تفسیر در المنثور، ج 5 ص 880
4۔ اتقان فی علوم القرآن، ج 2 ص 32
5۔ تفسیر ابن کثیر، ج 3 ص 61 سورہ نور
5۔ سنن ابن ماجہ، باب رضاع الکبیر، حدیث 2020

سنن ابن ماجہ میں ہم حضرت عائشہ کے یہ الفاظ پڑھتے ہیں:

جب آیت ِرجم اور آیت ِرضاعت نازل ہوئیں تو انہیں ایک کاغذ پر لکھ لیا گیا اور میرے تکیہ کے نیچے رکھ دیا گیا۔ رسول اللہ کی وفات کے بعد ایک بکرے نے وہ کاغذ کھا لیا جبکہ ہم سوگ میں مصروف تھے

آیت ِرجم کے بکری کے کھاجانے یعنی اس طرح کھو جانے سے صرف عائشہ ہی نہیں حضرت عمر بھی پریشان تھے۔ صحیح بخاری (اردو)، ج 3 ص 759، کتاب المحاربین (مکتبہ رحمانیہ لاہور؛ مترجم علامہ وحید ازماں ) میں بیان کردہ حدیث میں حضرت عمر کے الفاط ملاحظہ ہوں:

 ۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے حضر ت محمد (ص) کو سچا پیغمبر بنا کر بھیجا، ان پر قرآن اتارا ۔اسی قرآن میں رجم کی آیت بھی اللہ نے اتاری، ہم نے اس کو پڑھا ، اس کا مطلب سمجھا اس کو یاد رکھا ، آنحضرت (ص) نے اس پر عمل کیا ، زنا کرنے والے کو رجم کیا اور ہم لوگ بھی آپ (ص) کی وفات کے بعد زانی کو رجم کرتے رہے ۔ اب میں ڈرتا ہوں کہیں ایک مدت گزر جائے اور کوئی کہنے والا یوں کہے کہ خدا کی قسم رجم کی آیت تو ہم اللہ کی کتاب میں نہیں پاتے اور اللہ کا ایک فرض جو اس نے اتارا اسے ترک کر کے گمراہ ہوجائے ، دیکھو ہوشیار رہو ، جو شخص مرد ہو یا عورت محصن ہو کر زنا کرے اس میں اللہ کی کتاب میں رجم برحق ہے ۔۔۔۔
 صحیح بخاری (اردو)، ج 3 ص 759، کتاب المحاربین (مکتبہ رحمانیہ لاہور)

سپاہ صحابہ اور دیگر ناصبی برادری حضرت عمر کے آیت ِرجم کے قرآن میں ہونے کا پُرزور دلائل کو غور سے دیکھیں بلکہ یہ کہہ کر تو انہوں نے کیس ہی ختم کردیا "اللہ کی کتاب میں رجم برحق ہے" ۔ ظاہر ہے کہ ایسی کوئی آیت اللہ کی کتاب میں ہمیں نہیں ملتی، جس کا مطلب یہ ہوا کہ عمر صاحب کا اپنے زمانہ ِ خلافت تک یہ عقیدہ تھا کہ آیت ِرجم قرآن کا حصہ ہے۔

بات صرف یہیں تک ہوتی تو نواصب حضرت عمر کے بیان کے دفاع میں کوئی نہ کوئی بہانہ بنا سکتے تھے لیکن حضرت عمر نے اپنے ہاتھوں سے آیت ِ رجم کو قرآن میں لکھنے کی خواہش ظاہر کر کے نواصب کی جانب سے ایسی کسی کوشش کو تباہ کردیا۔ صحیح بخاری میں ہم پڑھتے ہیں کہ حضرت عمر نے فرمایا:

حضرت عمر (ر) نے کہا لوگ یوں نہ کہیں کہ عمر (ر) نے اللہ کی کتاب میں اپنی طرف سے بڑھا دیا تو میں رجم کی آیت مصحف اپنے ہاتھ سے لکھ دیتا
 صحیح بخاری (اردو)، ج 3 ص 914 ، کتاب الاحکام، (مکتبہ رحمانیہ لاہور)

علامہ جلال الدین سیوطی سورہ احزاب کے مقدمہ میں نقل کرتے ہیں:

 عبد الرزاق نے اپنی مصنف میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ عمر ابن خطاب نے ایک شخص کو جمعہ کی نماز کے لئے لوگوں کو اکھٹا کرنے کا حکم دیا پھر وہ زیر ِمنبر ہوئے اور اللہ کی حمد کی اور فرمایا: اے لوگوں! آیت ِ رجم کے متعلق نہ ڈرو کیونکہ یہ ایک آیت ہے جو اللہ کی کتاب میں نازل ہوئی اور ہم نے اسے پڑھا لیکن یہ محمد (ص) کے جانے کے ساتھ جانے والی آیات کے ساتھ کھو گئی اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ رسول اللہ (ص) نے رجم کیا، ابو بکر نے رجم کیا، میں نے رجم کیا اور اس قوم میں سے لوگ آئینگے جو رجم کی مخالفت کرینگے

تفسیر در المنثور کا یہ حوالہ اس ویب سائٹ پر بھی پڑھا جاسکتا ہے:
 تفسیر در المنثور

تبصرہ:

یہ روایت حضرت عمر کے قرآن میں کمی (تحریف) کے عقیدہ کو بھی بیان کرتی ہے جو اُس آیت کو قرآن کا حصہ سمجھتے تھے لیکن در حقیقت وہ آیت قرآن میں شامل نہیں تھی اور وہ تو بس لوگوں کے ڈر سے یعنی تقیہ کرتے ہوئے اپنے خواب کی تعبیر نہ کر سکے۔ اس کو سمجھنے کے لئے ایک چھوٹی سی مثال پیش ِ خدمت ہے۔

"اگر آج ایک شخص عوام میں اعلان کرے کے ایک آیت ہے جو قرآن میں نازل ہوئی تھی جو اب قرآن میں نہیں اور اگر مجھے سپاہ صحابہ کے دہشت گردوں کا خوف نہ ہوتا تو میں اسے اپنے ہاتھ سے قرآن میں لکھ دیتا۔ تو سپاہ صحابہ جیسے نواصب چیختے چلاتے سڑکوں پر آجاتے کہ یہ شخص تحریف ِ قرآن کا عقیدہ رکھتا ہے یعنی یہ ایک عبارت کو قرآن کی آیت مانتا ہے جو کہ قرآن میں نہیں لکھی ہوئی اور یہ صرف ہماری تنظیم کے ڈر سے اسے قرآن میں لکھنے سے قاصر ہے تاہم دل میں اس کا عقیدہ بدستور موجود ہے لہٰذا یہ کافر ہے"

اس مثال کے بعد حضرت عمر کا کیس سپاہ یزید کے حوالے اور ساتھ میں امام بخاری کا بھی جنہوں نے اس روایت کو اپنی صحیح کتاب میں شامل کیا۔

نواصب کی جانب سے اپنے عقیدہ کے دفاع میں کمزور وضاحتیں

جی ہاں۔ نواصب ایک اور مرتبہ پریشانی میں مبتلا ہوئے جھنگوی مدارس ایک مرتبہ پھر بچوں سے بھر گئے جو اُن کی محبت میں گرفتار مُلاوں سے حضرت عمر اور صحابی اُبی بن کعب کے دفاع کے سلسلے میں مشورے لینے آئے ہیں۔ لیکن مُلا کو جب کوئی اور بہانا نہ سوجھا تو وہی اپنا نسل در نسل سے آزمودہ نسخ کا بہانا بچوں کوبیان کر کے روانہ کردیا لیکن ہمیں افسوس ہے کہ ان بچوں کو اپنے منافرت پسند مُلائوں کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہونا پڑےگا کیونکہ نسخ کا بہانہ ہمارے ان جوابات کی بنا پر یہاں کار آمد نہیں ہے:

جواب نمبر1:

نسخ صرف رسول اللہ (ص) کے زمانہ میں ہوسکتا ہے جبکہ جو مستند سُنی حوالہ جات ہم نے نقل کئے وہ شاہد ہیں کہ حضرت عمر نے قرآن میں آیت رجم لکھنے کا پروگرام رسول اللہ (ص) کے انتقال کے کئی عرصہ بعد بنایا تھا۔ لہٰذا یہ بہانہ اُس وقت تک کارآمد نہیں جب تک کہ نواصب حضرت عمر کو رسول نہ تسلیم کرتے ہوں۔

یاد رہے آیت ِرجم کے متعلق ہم ہی فرض کرکے چل رہے ہیں کہ یہ منسوخ ہوگئ لیکن اصل مقصد جناب ِعمر کا عقیدہ ہے۔

جواب نمبر2:

کتاب الاتقان، ج 1 ص 73 میں ہم پڑھتے ہیں کہ جب حضرت ابو بکر کے زمانے میں قرآن کے جمع کے وقت حضرت عمر آیت رجم کو لائے تاکہ صحابی زید بن ثابت اُسے قرآن میں شامل کریں تو زید نے اس بنا پر حضرت عمر کی خواہش کو رد کردیا کہ اُس بات کے صرف حضرت عمر ہی گواہ تھے جبکہ زید بن حارث صرف انہی آیات کو جمع کررہے تھے جن کے بارے میں دو گواہان شہادت دیں کہ یہ آیات قرآن کا حصہ ہیں۔

اگر آیت رجم حضرت عمر کے عقیدہ کے مطابق منسوخ ہوگئی ہوتی تو وہ زید بن ثابت کے پاس اُس آیت لے کر نہ آتے۔

جواب نمبر3:

اہل سنت کے امام ابوبکر رازی کا تبصرہ جو کہ علامہ جلال الدین سیوطی کا بھی تصدیق شدہ ہے نواصب کے اس بہانے کو اُجاڑ کے رکھ دیتا ہے۔ ہم تفسیر الاتقان فی علوم القرآن، ج 2 ص 67 (اردو ایڈیشن ، ادارہ اسلامیہ لاہور) میں پڑھتے ہیں:

کتاب 'البرہان' میں حضرت عمر کا یہ قول بیان کرتے ہوئے کہ انہوں نے کہا تھا کہ "اگر لوگ یہ بات نہ کہتے کہ عمر نے کتاب اللہ میں زیادتی کردی ہے تو بیشک میں اُس آیت رجم کو قرآن میں لکھ دیتا" لکھا ہے: کہ اس قول کے ظاہری الفاظ سے آیت رجم کی کتابت کا جائز ہونا سمجھ میں آتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ صرف لوگوں کے کہنے سُننے کے خیال سے عمر (ر) اُس کے درج ِ مصحف کرنے سے رک گئے۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو چیز جائز ہو اُس کے منع کرنے کے لئے خارج سے کوئی چیز قائم ہوجاتی ہے ۔ پس اگر وہ جائز ہے تو لازم آتا ہے کہ ثابت بھی ہو


شیعہ دشمنوں کا عقیدہ کہ قرآن سے سورہ بقرہ جتنا طویل سورہ کھو گیا ہے اور اس پر امام مسلم اور امام حاکم کی مہر ِتصدیق


1۔ صحیح مسلم، ج 1 ص 894 کتاب الزکٰوت، حدیث 2419 ، مکتبہ رحمانیہ لاہور
2۔ جامع اصول، ج 3 ص 53 ، باب 2 حصہ 2 حدیث 972
3۔ مستدرک الحاکم، ج 2 ص 224 ،کتاب التفسیر
4۔ المحاضرات، ج 3 ص 433
5۔ تفسیر روح المعانی، ج 2 س 25
6۔ مجمع الزوائد، ج 7 ص 140
7۔ تفسیر در المنثور، ج 1 ص 105

صحیح مسلم کی روایت ملاحظہ ہو:

 حضرت ابولاسواد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ابو موسیٰ اشعری (رضہ) کو اہلِ بصرہ کے قرا کی طرف بھیجا گیا۔ آپ ان کے پاس پہنچے تو تین سو قاریوں نے قرآن پڑھا۔ تو آپ نے فرمایا کے تم اہل ِ بصرہ کے سب لوگوں سے افضل ہو اور ان کے قاری ہو تو تم ان کو قرآن پڑھائو اور بہت مدت تک تم تلاوت ِ قرآن سے غافل نہ ہوا کرو ورنہ تمہارے دل اسی طرح سخت ہوجاینگے جس طرح تم سے پہلے لوگوں کے ہوگئے تھے اور ہم ایک سورہ پڑھتے تھے جو لمبائی میں اور سخت و عداوت میں سورہ براءت کے برابر تھی۔ پھر میں سوائے اس آیت کے سب بھول گیا کہ:
'اگر ابن ِ آدم کے لئے مال کے دو میدان ہوں تو بھی وہ تیسرا میدان طلب کرے گا اور ابن ِ آدم کا پیٹ سوائے مٹی کے کوئی نہیں بھر سکتا'۔۔۔
 صحیح مسلم، ج 1 ص 894 کتاب الزکٰوت، حدیث 2419 ، مکتبہ رحمانیہ لاہور

کتاب جامع الاصول میں صحابی اُبی بن کعب سے آیت کے متعلق روایت ہے کہ یہ رسول اللہ (ص) پر نازل ہوئی تھی جبکہ المحاضرات کی عبارت ملاحظہ ہو:

 عبد اللہ ابن مسعود نے اپنے مصحف میں اس آیت کو لکھا تھا:
'اگر ابن ِ آدم کے لئے مال کے دو میدان ہوں تو بھی وہ تیسرا میدان طلب کرے گا اور ابن ِ آدم کا پیٹ سوائے مٹی کے کوئی نہیں بھر سکتا

امام حاکم نے اپنی کتاب مستدرک میں اسی روایت کو نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ معتبر حدیث ہے۔ امام ذھبی نے بھی مستدرک پر اپنے تبصرہ میں اس حدیث کو معتبر کہا ہے۔

یہ روایات ابو موسیٰ ، اُبی بن کعب اور عبد اللہ ابن مسعود جیسے صحابہ کے عقیدہ کو بیان کررہی ہیں یعنی یہ اشخاص اس آیت کو قرآن کا حصہ تسلیم کرتے تھے اور یہ کہ وہ آیت اب قرآن میں شامل نہیں۔ یہی نہیں بلکہ ایک مکمل سورہ جو کہ سورہ بقرہ کے برابر تھا اب قرآن میں نہیں۔

اگر عقیدہ ِ تحریف ِ قرآن رکھنا کفر ہے تو سپاہ یزید کا ان اشخاص کے بارے میں اور پھر اُن علماء کے بارے میں جنہوں اس روایت کو اپنی معتبر کتب میں شامل کیا اور اسے صحیح کا درجہ دیا فتویٰ کیا ہے؟

اگر ناصبی حضرات یہاں بھی نسخ کا بہانہ بنانے کا پروگرام کئے بیٹھے ہیں تو نسخ ثابت کرنے کے لئے کسی بڑے سے بڑے مجتہد کی ذاتی رائے کارگر نہیں بلکہ اس مخصوص آیت کو منسوخ ثابت کرنے کے لئے متواتر یا صحیح حدیث کی ضرورت ہے یا پھر کسی صحابی سے ہی اس آیت کی منسوخی کا قول نقل کیا جائے اور یہ صرف ہمارا نواصبیوں کو چیلنج ہی نہیں بلکہ خود ان کے مسلک میں نسخ کو ثابت کرنے کا ایک اصول ہے جیسا کہ ہم نے اس باب کے شروع ہی میں بیان کیا ہے۔

صحابی عبداللہ ابن مسعود کی شہادت اور امام ِاہلسنت ابن مردویہ کی تصدیق کہ سورہ مائدہ میں علی (ع) کا نام موجود تھا

سورہ مائدہ کی آیت 67 ہے:

 الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۔۔۔

(ترجمہ): ﺍﮮ ﺭﺳﻮﻝ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﯾﺠﯿﺌﮯ ﺟﻮ ﻛﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﺁﭖ ﻛﯽ ﻃﺮﻑ ﺁﭖ ﻛﮯ ﺭﺏ ﻛﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﻧﺎﺯﻝ ﻛﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮧ ﻛﯿﺎ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ اللہ ا ایک پیغام بھی نہیں پہنچایا۔۔۔

ہم مند رجہ ذیل معتبر سُنی حوالوں سے نقل کررہے ہیں جن کے مطابق صحابی عبد اللہ ابن مسعود اس آیت میں علی (ع) کا نام بھی پڑھا کرتے تھے:

1۔ تفسیر در المنثور، ج 2 ص 297 ، سورہ مائدہ
2۔ تفسیر روح المعانی، ج 2 ص 193
3۔ تفسیر فتح القدیر، ج 2 ص 57
4۔ تفسیر مظہری، ج 3 ص 353 (اردو ایڈیشن، دارالاشاعت کراچی)

علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی اپنی معروف تفسیر مظہری میں امام ابن مردویہ سے نقل کرتے ہیں:

 ابن مردویہ نے حضرت ابن مسعود کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (ص) کے زمانے میں ہم یہ آیت اس طرح پڑھتے تھے:
ﺍﮮ ﺭﺳﻮﻝ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﯾﺠﯿﺌﮯ ﺟﻮ ﻛﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﺁﭖ ﻛﯽ ﻃﺮﻑ ﺁﭖ ﻛﮯ ﺭﺏ ﻛﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﻧﺎﺯﻝ ﻛﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ یعنی علی مومننین کے مولا ہیں اگر آپ نے ایسا نہ کیا۔۔۔۔

یہاں ہم یاد دلا تے جائیں کہ سُنی روایات کے مطابق رسول اللہ (ص) نے جن لوگوں سے قرآن سیکھنے کا حکم دیا تھا صحابی عبد اللہ ابن مسعود انہی میں سے ایک ہیں۔ صحیح بخاری کی روایت ہے:

 ابراہیم نخعی سے انہوں نے مسروق سے انہوں نے کہا عبداللہ بن عمر بن عاص نے عبد اللہ ابن مسعود (ر) کا ذکر کیا ، کہنے لگے میں ان سے اس روز سے برابر محبت کرتا ہوں جب سے میں نے رسول اللہ (ص) سے یہ سُنا کہ قرآن چار آدمیوں سے سیکھو عبد اللہ ابن مسعود اور سالم ابی حذیفہ اور معاز بن جبل اور ابی بن کعب سے
صحیح بخاری (اردو) ج 2 ص 1097 کتاب التفسیر (مترجم علامہ وحید ازماں؛ مکتبہ رحمانیہ لاہور)

کیا نواصب رسول اللہ (ص) کے حکم پر عمل کرتے ہوئے صحابی عبد اللہ ابن مسعود کی طرح قرآن پڑھتے ہیں ؟

سپاہ یزید اور خاص طور سے وہابی و سلفی حضرات شیعوں پر یہ الزام دھرتے آئے ہیں کہ شیعہ کتب میں لکھا ہے کہ قرآن میں علی (ع) کا نام موجود تھا اور شیعہ اس عقیدہ کی بنا پر کافر ہوئے جبکہ ہم پچھلے ابواب میں واضح کر چکے ہیں کہ ایسی تمام روایات شیعہ مذہب میں صحیح نہیں سمجھی جاتیں اور انہیں تفسیر پر سمجھا جاتا ہے اور اگر نواصب اب بھی اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آتے تو اسی قسم کی روایات تو ان کی کتابوں میں بھی ہیں جہاں صحابی عبداللہ ابن مسعود گواہی دیتے ہیں کہ رسو اللہ (ص) کے زمانے وہ اس آیت کو علی (ع) کے نام کے ساتھ پڑھا کرتے تھے یعنی حضرت عثمان نے قرآن سے علی (ع) کا نام نکال کر تحریف کردی۔ تو نواصب کا ان صحابہ اور ان علماء کے خلاف فتویٰ کیا ہے؟

صحابی عبداللہ ابن مسعود کی شہادت اور ائمہ ِاہلسنت کی تصدیق کے سورہ احزاب میں بھی علی (ع) کا نام موجود تھا


سورہ احزاب کی آیت نمبر 25 ہے:

 ۔۔۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ وَكَانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًا
(ترجمہ):۔۔۔ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺟﻨﮓ ﻣﯿﮟ للہ ﺗﻌﺎلیٰ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﻣﻮﻣﻨﻮﮞ ﻛﻮ کاﻓﯽ ﮨﻮﮔﯿﺎ

ہم مذکورہ آیت کی تفسیر مندرجہ ذیل سُنی تفاسیر سے نقل کرہے ہیں:

1۔ تفسیر در المنثور، ج 5 ص 192 ؛ سورہ احزاب آیت 25
2۔ تفسیر روح المعانی، ص 157 سورہ احزاب آیت 25
3۔ معارج النبوۃ، ذکر غزوہ خندق

علامہ جلال الدین سیوطی نقل کرتے ہیں:

 ابن ابی حاتم ، ابن مردویہ اور ابن عساکر نے عبد اللہ ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ: ' ہم اس آیت کو اس طرح پڑھتے تھے:' ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺟﻨﮓ ﻣﯿﮟ للہ ﺗﻌﺎلٰی ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﻣﻮﻣﻨﻮﮞ ﻛﻮ کاﻓﯽ ﮨﻮﮔﯿﺎ علی ابن ابی طالب کے ذریعے'۔۔۔

شیعہ ان روایات کے ہوتے ہوئے بھی تحریف کے قائل نہیں اور یہ صرف نجس نواصب ہی ہیں جو شیعوں پر الزام دھرتے ہیں کہ شیعہ عقیدہ کے مطابق علی (ع) کا نام قرآن میں موجود تھا لہٰذا وہ کافر ہیں۔ ہم یزیدی مدرسہ کا یہی فتویٰ انہی کے یہاں لوٹا رہے ہیں کہ اس قسم کی روایات تو اُن کو بلند مرتبہ علماء نے صحابہ سے نقل کی ہیں۔ اسی بنا پر بعض شیعہ حضرات کہتے ہیں کہ اگر شیعہ کافر تو سب کافر۔ لیکن چوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی کو حق حاصل نہیں کہ وہ اسلام کا ٹھیکیدار بن کر دوسروں پر کفر کا فتویٰ جاری کرے لہٰذا دوسروں کو کافر کہنے والے اس کھیل میں ہمیں کوئی دلچسپی نہیں۔


تفسیر ثعلبی میں ابن مسعود کی گواہی کہ سورہ آل ِعمران میں الفاظ 'آل محمد' موجود تھے۔ نواصب نے تفسیر کی کتاب میں ہی تحریف کردی


سورہ آل ِعمران کی آیت نمبر 33 میں ہم پڑھتے ہیں:

إِنَّ اللّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ

بیشک اﷲ نے آدم کو اور نوح کو اور آل ِابراہیم کو اور آل ِعمران کو سب جہان والوں پر منتخب فرما لیا۔

امام ِاہل ِسنت علامہ ابو سحاق ثعلبی کی کتاب 'الکشف البیان فی تفسیر القرآن' جو کہ 'تفسیر ثعلبی' کے نام سے مشہور ہے، سورہ آل ِعمران کی آیت نمبر 3 میں یہ روایت موجود تھی:

الآمش نے ابی وائل سے روایت کی ہے کہ عبداللہ ابن مسعود کے مصحف میں میں نے پٰڑھا:
'بیشک اﷲ نے آدم کو اور نوح کو اور آل ِابراہیم کو اور آل ِعمران کو ور آل ِعمران کو ور آل ِمحمد کو سب جہان والوں پر منتخب فرما لیا۔'

بے شک اللهنے آدم کو اور نوح کو اور ابراھیم کی اولاد کو اور عمران کی اولاد کو سارے جہان سے پسند کیاہے

لیکن دشمنان ِاولاد ِمحمد یہ کہاں برداشت کرسکتے تھے لہٰذا ان بےشرموں نے تفسیر ثعلبی میں ہی تحریف کرڈالی اور اور اب اس کتاب میں یہ روایت تو موجود ہے لیکن اس میں لفظ ' اولاد ِ محمد' موجود نہیں۔ لیکن مناقب ِ اولاد ِ محمد ہیں، بدنسلوں کے چھپانے سے کہاں چھپتے۔ مذہب ِاہل سنت کے ایک اور امام علامہ بھقی نے اپنی کتاب 'لباب الانساب' ج 1 ص 10 میں تفسیر ثعلبی کے حوالے سے ہی یہ روایت نقل کی ہوئی ہے جس کی وجہ سے نواصب اب یہ دعویِ نہیں کرسکتے کہ الفاظ ' اولاد ِ محمد' تفسیر ثعلبی میں تھے ہی نہیں۔ امام بھقی کے الفاظ پیش ِخدمت ہیں:

وذكر الثعلبي في تفسيره عن الأعمش عن أبي وائل أنه قال: قرأت في مصحف عبد الله بن مسعود وآل إبراهيم وآل عمران وآل محمد على العالمين

ثعلبی نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا ہے الآمش سے انہوں نے ابی وائل سے کہ عبداللہ ابن مسعود کے مصحف میں میں نے پٰڑھا:
'بیشک اﷲ نے آدم کو اور نوح کو اور آل ِابراہیم کو اور آل ِعمران کو ور آل ِعمران کو ور آل ِمحمد کو سب جہان والوں پر منتخب فرما لیا۔'

امام ابوحیان اندلسی نے بھی اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:

وقرأ عبد الله : وآل محمد على العالمين
عبداللہ اس کی قرات یوں کرتے تھے: ' اور آل ِمحمد کو تمام عالمین میں'۔
تفسیر بحرالمحیط، ج 2 ص 203


سپاہ یزید کا تحریف ِقرآن کا عقیدہ جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے اخذ کیا گیا

1۔ صحیح مسلم، ج 1 ص 272 ، کتاب الایمان ، حدیث 508، مکتبہ رحمانیہ لاہور
2۔ صحیح بخاری
3۔ فتح الباری، ج 8 ص 506

صحیح مسلم کی عبارت ملاحضہ ہو:

 حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت ِ کریمہ نازل ہوئی: " اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو اور اپنی قوم کے مخلص لوگوں کو بھی ڈرائیں" تو رسول اللہ (ص) کوہ ِ صفا پر چڑھے اور بلند آواز کے ساتھ فرمایا: سنو! آگاہ ہوجائو! لوگوں نے کہا کہ یہ کون آواز لگا رہا ہے ۔۔۔
 صحیح مسلم، ج 1 ص 272 ، کتاب الایمان ، حدیث 508، مکتبہ رحمانیہ لاہور

تو معلوم ہوا کہ حضرت ابن عباس (ر) کے عقیدہ کے مطابق اس روایت میں جو آیت بیان کی ہے وہ تو دراصل یوں ہونی چاہئے:

وأنذر عشيرتك الأقربين‏ ورهطك منهم المخلصين

نواصب ذرا قرآن اُٹھا کر دیکھیں اور ہمیں سورہ نمبر 26 آیت نمبر 214 پڑھ کر بتائیں کہ اس آیت میں "وأنذر عشيرتك الأقربين" ‏( اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو) تو موجود ہے لیکن "ورهطك منهم المخلصين" (اور اپنی قوم کے مخلص لوگوں کو ) کہاں ہے؟ صحیح بخاری کی یہ صحیح روایت قرآن میں تحریف کی جانب اشارہ نہیں کررہی تو اور کیا کررہی ہے؟

اگر ناصبی یہاں بھی نسخ کا بہانا بنانے کا پروگرام کئے بیٹھے ہیں تو نسخ ثابت کرنے کے لئے خیالی پلائو کی یا کسی بڑے سے بڑے ملا کی ذاتی رائے کی ضرورت نہیں بلکہ اس مخصوص آیت کو منسوخ ثابت کرنے کے لئے متواتر یا صحیح حدیث کی ضرورت ہے یا پھر کسی صحابی سے ہی اس آیت کی منسوخی کا قول نقل کیا جائے اور یہ صرف ہمارا نواصب کو چیلنج ہی نہیں بلکہ خود ان کے مسلک میں نسخ کو ثابت کرنے کا ایک اصول ہے جیسا کہ ہم نے اس باب کے شروع ہی میں بیان کیا ہے۔ بعض نواصب یہاں کہتے ہیں کہ ابن عباس (ر) کے بیان کردہ الفاظ یعنی "ورهطك منهم المخلصين" قرآن کا حصہ نہیں بلکہ تفسیری نوٹ تھے۔ بس! شیعہ کتابوں میں بھی اسی طرح تفسیری نوٹ ہیں۔

سپاہ یزید کا عقیدہ کہ رسول اللہ (ص) اور صحابہ جس طرح سورہ طلاق کو پڑھا کرتے تھے اب وہ اس طرح نہیں؛ سورہ طلاق میں کمی کردی گئی

مسلمان آج سورہ طلاق کی آیت نمبر 1 کو ان الفاظ کے ساتھ پڑھتے ہی:

يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن لعدتهن‏

لیکن جب ہم مذہب ِ سپاہ صحابہ اور وہابی و سلفی حضرات کے مذہب کی معتبر کتابیں پڑھتے ہیں تو ہمیں ان کے اس عقیدہ کا انکشاف ہوتا ہے کہ سورہ طلاق میں تحریف کردی گئی اور رسول اللہ (ص) اور صحابہ ِ کرام اس آیت کو اس طرح پڑھتے تھے۔

يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن في قبل عدتهن‏‏

علامہ جلال الدین سیوطی نے اہلِ ِسنت کے اُن اماموں سے جو اس مذہب کی بنیاد ہیں نقل کیا ہے:

 مالک، الشافعی، عبدالرزاق نے اپنی مصنف میں، احمد، عبد بن حامد، بخاری، مسلم، ابو دائود، ترمزی ، نسائی ، ابن ماجہ، ابن جریر، ابن منذر، ابو یعلیٰ ، ابن مردویہ اور بہقی نے اپنی سنن میں ابن عمر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو اس کے ایام میں طلاق دیدی اور رسول اللہ (ص) کو جب اس کے متعلق بتایا گیا تو وہ بہت غصہ ہوئے اور فرمایا: اُس سے کہو کہ اپنی بیوی کے پاس جائے اور اس کے ایام کے آخر تک اپنے پاس رکھے اور پھر اگر وہ چاہے تو اسے چھو نے سے قبل طلاق دے سکتا ہے کیونکہ یہی عدت ہے جس کا حکم اللہ نے دیا ہے کہ کس طرح عورت کو طلاق دی جائے اور پھر رسول اللہ (ص) نے تلاوت کی:
يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن في قبل عدتهن‏‏
تفسیر درالمنثور ، تفسیر سورہ طلاق، آیت نمبر 1

اس کے علاوہ علامہ جلال الدین سیوطی نے صحابی ابن عمر اور ابن عباس (ر) کا اس آیت کو اسی طرح سے پڑھنا بھی نقل کیا ہے۔ ہم تفسیر در المنثور کے اس حوالے کا انٹر نیٹ لنک بھی قارئین کی سہولت کے لئے پیش کر رہے ہیں۔
 http://www.al-eman.com/Islamlib/viewchp.asp?BID=248&CID=511#s2

تبصرہ:

کیا نواصب ہمیں بتانا پسند کرینگے کہ جس طرح صحابہ اور رسول اللہ (ص) اس آیت کو بڑھا کرتے تھے آج یہ اس طرح کیوں نہیں ؟ اس مرتبہ تو صحابہ کو ساتھ ساتھ رسول اللہ (ص) کی بھی گواہی شامل ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ قرآن وہ نہیں جو رسول اللہ (ص) اور صحابہ پڑھا کرتے تھے۔ تو سپاہ صحابہ والے اس مرتبہ کسے کفر کے فویٰ کا نشانہ بنا رہے ہیں؟ یزیدی سپاہ اور کچھ دیگر نواصب یہ بھی شور مچاتے آئے ہیں کہ شیعہ لوگ اپنے اُن تمام علماء کو کافر اور لعنتی قرار دیں جنہوں نے تحریف کو ثابت کرنے والی روایات نقل کی ہیں۔ اب چونکہ گزارش آپ کی جانب سے ہوئی ہے لہٰذا پہل بھی آپ کی جانب سے ہونی چاہئے تاکہ منافقت کا اندیشہ نہ رہے۔ مذکورہ بالا روایت اہل ِسنت کی صحاح ستہ سے ماخوز ہے لہٰذا ہم سپاہ یزید اور دیگر نواصب کی جانب سے ان کی 6 مستند کتابوں کے مصنفین کے خلاف فتویٰ کا انتظار کرینگے۔


وہابی و سلفی تحریک کی معتبر ترین کتاب صحیح بخاری سے قرآن میں کمی کا ایک اور ثبوت

ہم سورہ کہف کی آیت نمبر79 اور 80 میں پڑھتے ہیں:

79:۔۔۔ مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا
80: وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ۔۔۔

صحیح بخاری (اردو) ، کتاب ِ تفسیر، ج 2 ص 914۔ 917 ، حدیث 1833( تفسیر سورہ کہف) میں ایک طویل روایت نقل ہے جس کے آخر میں ہم پڑھتے ہیں۔

۔۔۔قال سعيد بن جبير فكان ابن عباس يقرأ وكان أمامهم ملك يأخذ كل سفينة صالحة غصباوكان يقرأ وأما الغلام فكان كافرا وكان أبواه مؤمنين‏.‏‏‏‏

سعید بن جبیر نے کہا کہ ابن عباس یوں پڑھتے : "وكان أمامهم ملك يأخذ كل سفينة صالحة غصبا" اور یوں پڑھتے " وأما الغلام فكان كافرا وكان أبواه مؤمنين "
 صحیح بخاری (اردو) ، کتاب ِ تفسیر، ج 2 ص 917 ، حدیث 1833 (مکتبہ رحمانیہ لاہور)

یہ حدیث انٹرنیٹ پر موجود صحیح بخاری میں بھی پڑھی جاسکتی ہے۔
 صحیح بخاری، (عربی)، حدیث 4772

نواصب کو کھلا چیلنج ہے کہ صحیح بخاری کی اس روایت میں صحابی ابن عباس (ر) کا سورہ کہف کی آیات 79 اور 80 میں پڑھے گئے الفاظ موجودہ قرآن میں دکھا دیں یعنی آیت 79 میں لفظ "صالحة" اور آیت 80 میں لفظ "كافرا"۔ نواصب کی مشکلات میں مزید اضافہ یوں کئے دیتے ہیں کہ ایک اور صحابی ابی بن کعب بھی ان دو آیات کو اسی طرح ہی پڑھتے تھے جیسا کہ ابن عباس سے مروی ہے ، ثبوت کے طور پر ملاحظہ کریں تفسیر قرطبی، ج 11 ص 22 اور التمھید، ج 4 ص 278۔

حق نواز جھنگوی اور اعظم طارق جیسے ناصبی مُلا جنہوں نے اپنی زندگی مسلمانوں کو آپس میں لڑوانے اور تکفیر کرتے ہوئے گزاردی اور پھر آرام سے اپنے دادا یزید کے سائے میں یعنی جہنم کی جانب روانہ ہوگئے، کیا وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے مذہب کی کتابوں میں یہ اور ان جیسی دیگر صحیح روایات نظرانداز کردیں جو کہ تحریف ِ قرآن کو ثابت کرتی ہیں جبکہ شیعہ روایات چاہے وہ ضعیف بھی ہوں ان کی بناد پر اپنے پیرکاروں کو شیعہ کافر شیعہ کافر کی رٹ لگانا سکھا تے رہے؟ کیوں ان ملائوں نے جیسے شیعہ علماء کے خلاف فتوے اگلے اسی طرح امام بخاری و دیگر کے خلاف اپنی شرانگیز زبانوں سے فتاوی نہیں اُگلے؟ نواصب کا یہ دوہرہ معیار کب تک چلتا رہے گا؟


نواصب کے مطابق حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ کا موجودہ قرآن پر ایمان نہ تھا

ہم سورہ بقرہ کی آیت نمبر 238 میں پڑھتے ہیں:

حافظوا على الصلوات والصلوة الوسطى وقوموا لله قانتين‏

اہل ِسنت کی معتبر کتابوں سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جناب ِ عائشہ اور دیگر امہات المومنین اس آیت میں مزید کچھ الفاظ پڑھا کرتی تھیں جو کہ اب موجود نہیں۔

1۔ صحیح مسلم، ج 1 ص 566۔ 567 حدیث 1427 مکتبہ رحمانیہ لاہور
2۔ المصاحف، ص 194 ؛ مولف: ابی بکرسجستانی
3 تفسیر در المنثور، ج ا ص 302 ، سورہ بقرہ آیت 230
4۔ تفسیر طبری ، ج 3 ص 348
5۔ فتح الباری، ج 8 ص 197

صحیح مسلم کی روایت ملاحظہ ہو:

 حضرت ابو یونس حضرت عائشہ صدیقہ کے غلام فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت عائشہ نے حکم فرمایا کہ میں ان کے لئے قرآن لکھوں اور فرماتی ہیں کہ جب تو اس آیت پر پہنچے تو مجھے بتانا:
"حافظوا على الصلوات والصلوة الوسطى وقوموا لله قانتين"۔
تو جب میں اس آیت پر پہنچا تو آپ کو میں نے بتایا؛ تو انہوں نے فرمایا کہ اس آیت کو اس طرح لکھو:
‏"حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر‏ وقوموا لله قانتين"۔
عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی (ص) سے اس آیت کو اسی طریقے سے سنا ہے
 صحیح مسلم، ج 1 ص 566۔ 567 حدیث 1427 مکتبہ رحمانیہ لاہور

نوٹ : موجودہ قرآن میں اس آیت میں الفاظ "وصلاة العصر" موجود نہیں ۔

علامہ جلال الدین سیوطی نے بالکل ایسی ہی روایت خلیفہ ِ دوم کی بیٹی جناب ِ حفصہ اور علامہ ابو بکر سجستانی نے ام المومنین حضرت ام سلمہ (ر) کے متعلق نقل کی ہے۔

یہاں نواصب اپنا نسخ کا بہانہ کسی صیح و متواترہ احادیث کے بغیر پیش نہ کریں کیونکہ اہل سنت کی کتابوں میں صحابہ نے ایسی روایات نقل کی ہیں جن میں کوئی آیت بیان کی اور پھر بتایا کہ یہ منسوخ ہو چکی ہے لیکن یہاں تو تین تین امہات المومنین اپنے اپنے مصحف جو انہوں نے رسول اللہ (ص) کے انتقال کے بعد ہی لکھوائے، سورہ بقرہ کی آیت میں ایک مخصوص جملہ لکھوایا۔ نسخ رسول اللہ (ص) کے زمانے میں ہوتا ہے ان کی بعد نہیں بشرط کے نواصب محمد (ص) کے بعد کسی اور کو اپنا رسول نہ مانتے ہوں اور پھر تینوں امہات المونین کی گواہی کہ انہوں نے یہ آیت رسول اللہ (ص) سے اسی طرح ہی سنی تھی ایسی کسی بہانہ کو پارہ پارہ کردیتی ہے۔

اگر ناصبی اب بھی نسخ کا بہانہ بنانے کا پروگرام کئے بیٹھے ہیں تو نسخ ثابت کرنے کے لئے کسی بڑے سے بڑے عالم ِ دین کی ذاتی رائے کارگر نہیں بلکہ اس مخصوص آیت کو منسوخ ثابت کرنے کے لئے متواتر یا صحیح حدیث کی ضرورت ہے یا پھر کم از کم کسی صحابی سے ہی اس مخصوص آیت کی منسوخی کا قول نقل کیا جائے اور یہ صرف ہمارا ناصبی برادری کو چیلنج ہی نہیں بلکہ یہ خود ان کے مسلک میں نسخ کو ثابت کرنے کا ایک اصول ہے جیسا کہ ہم نے اس باب کے شروع ہی میں بیان کیا ہے۔

سپاہ یزید جو کہ یہ دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ شیعہ امہات المومنین کی توہین کرتے ہیں ذرا اپنی صحیح کتب کو تو دیکھیں جہاں امہات المومنین کے متعلق تحریف ِ قرآن کا عقیدہ رکھنے کا بیان ہے کیا یہ علماء حضرات قابلِ مذمت نہیں؟ یا معاویہ بن ھندہ کی جانب سے کوئی قانون ہے کہ جس کے تحت ناصبی مُلا اپنی کتب میں امہات المومنین کے غسل کی منظرکشی، اُن کے حیض کے حالات اور اُن پر تحریف ِ قرآن کا عقیدہ رکھنے کو اپنی معتبر کتابوں میں بیان کریں لیکن وہ علماء پھر بھی قا بل ِتحسین ہیں لیکن اگر شیعہ انہی کتابوں کو ناصبیوں کے آگے رکھیں تو کہا جاتا ہے کہ شیعہ امہات المومنین کی توہین کے مرتکب ہورہے ہیں؟ اب ہمیں نہیں معلوم کہ یہ منافقت کیا پیدائشی ناصبیوں کے خون میں آتی ہے یا یہ صرف جھنگوی مدارس کا اثر ہے!

حضرت ِعائشہ کا واضح عقیدہ کے حضرت عثمان نے قرآن میں کمی کردی


1۔ تفسیر الاتقان، ج 2 ص 65 (اردو ایڈیشن)
2۔ تفسیر در المنثور، ج 5 ص 220
3۔المصاحف، ص 95 ، ذکر مصحف ِعائشہ

امام جلال الدین سیوطی اتقان میں نقل کرتے ہیں:

 حمیدہ بنت ابی یونس نے کہا: میرے باپ نے جس کی عمر اسی 80 سال کی تھی، مجھ کو بی بی عائشہ (ر) کے مصحف سے پڑھ کے سُنایا:
إن الله وملائكته يصلون على النبي يا أيها الذين آمنوا صلوا عليه وسلموا تسليما‏ والذين يصفون الصفوف الأول‏۔
راویہ نے کہا: یہ آیت عثمان (ر) کے مصحف میں تبدیلی کرنے سے قبل یوں ہی تھی

تو ہمیں معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ کا مصحف ایک اور جگہ موجودہ قرآن سے مختلف تھا اور ان کے مصحف میں قرآن کی مشہور ترین آیت جس انداز سے تھی آج ہمارے پاس موجود نہیں۔ سپاہ صحابہ کو چیلنج کہ اگر انہوں نے جھنگوی دودھ فیکٹری کی بوتل کا نہیں بلکہ اپنی مائوں کا دودھ پیا ہے تو وہ ہمیں اس آیت میں وہ الفاظ یعنی "والذين يصفون الصفوف الأول" دکھا دیں جو کہ جناب ِ عائشہ کے مصحف میں موجود تھے۔

اس کے علاوہ اہل سنت کی کتابوں میں موجود یہ الفاط حضرت عثمان کے ایمان کو نہایت مشکل میں ڈال دیتے ہیں کہ " یہ آیت عثمان (ر) کے مصحف میں تبدیلی کرنے سے قبل یوں ہی تھی"۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ سپاہ صحابہ و دیگر نواصب برادری شیعوں پر انگلیاں اُٹھانے سے قبل قرآن پر اپنا ایمان ثابت کریں اور اُن شخصیات کے خلاف فتوے جاری کریں جنہوں نے ایسی روایات اپنی کتب میں نقل کیں جن سے قرآن میں تحریف کا معلوم ہوتا ہے۔

اس قسم کی روایات شیعہ کتب میں بھی موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ یا آئمہ قرآنی آیات میں کچھ ایسے الفاظ بھی پڑھتے تھے جو کہ آج موجود نہیں لیکن انہیں تفسیری نوٹ کی طرح سمجھا جاتا ہے یعنی آج بھی قرآن کے شیعہ و سُنی ترجمہ میں آپکو کچھ الفاط ملینگے جو کہ بریکٹس () میں لکھے ہوئے ہوتے ہیں حالانکہ وہ قرآن کا حصہ نہیں ہوتے لیکن معنی کو سمجھنے کےلئے شامل کئے جاتے ہیں۔ شیعہ کتب میں موجود ایسی روایات کو اسی طرح سمجھا جاتا ہے کہ وہ تفسیری نوٹ تھے نہ کہ قرآن کا حصہ لیکن سر سے پاوں تک شیعہ دشمنی میں ڈوبے ہوئے بد نیت لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ تفسیری نوٹ نہیں بلکہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ یہ قرآن کا حصہ ہیں۔

اگر ایسا ہی ہے تو ان کا اپنی کتابوں کے متعلق کیا کہنا ہے جن میں اس قسم کی روایات بھری پڑی ہیں؟ اگر یہ لوگ شیعہ عقیدہ کو رد کرتے ہوئے اُن کے تفسیری نوٹ ہونے کا انکار کرتے ہیں تو کسی ناصبی کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی کتابوں میں موجود ایسی روایات کے لئے تفسیری نوٹ کا جواز بیان کریں۔ اسلام میں قانون سب کے لئے برابر ہے۔
 
باب 6: قرآن میں تبدیلی اور غلطیوں کے متعلق ُسنی روایات

شیعہ قرآن کے کامل ہونے کے معتقد ہیں لیکن نواصب یہ دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ شیعہ قرآن میں غلطیوں اور تحریف کے ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں (نعوذوباللہ) جبکہ ان نواصب کی اپنی کتابیں اس قسم کی باتوں سے بھری ہوئیں ہیں۔ اس باب میں ہم ایسے ہی شواہد پر روشنی ڈالینگے اور یہی وہ باب ہے جو نواصب کو سب سے زیادہ پریشان کرنے والا ہے کیونکہ یہاں تو منسوخی کے بہانے کی بھی کوئی خاص گنجائش نہیں ۔

ناصبیت کی پلیدگی کی انتہا: نواصب کا عقیدہ کے رسول اللہ نے خود قرآن میں تحریف کردی (نعوذباللہ)

تحریف ِقرآن کے متعلق تمام شیعہ سنی حوالاجات ایک طرف اور یہ ناصبی عقیدہ ایک طرف جو کہ واقعہ غرانیق کے نام سے مشہور ہے۔ ہم یہاں شیعہ حضرات کو یہ مشورہ بھی دیتے چلیں کہ اگر کوئی ناصبی آپ پر تحریفِ قرآن کے معتقد ہونے کا الزام دھرے تو ناصبیوں کے مکرہ عقائد میں سے یہی ایک وہ عقیدہ ہے جو آپ ناصبی کے نجس چہرہ پر رسد کرسکتے ہیں جو کہ ان سنی کتابوں میں درج ہے:

1۔ تفسیر در المنثور، ج 4 ص 367 سورہ حج آیت
2۔ تفسیر مظہری ، ج 8 ص 94
3۔ منہاج السنت ، ج 2 ص 409
4۔ فتح الباری، ج 2 ص 54

امام جلال الدین سیوطی اپنی تفسیر میں نقل کرتے ہیں:

البزار ، طبرانی اور ابن مردویہ اور ابن ضیاء نے تمام ثقہ راویوں کے ذریعے سعید بن جبیر سے نقل کیا ہے کہ ابن عباس نے کہا رسول اللہ نے سورہ نجم کی آیت کو اس طرح پڑھ ڈالا:

'کیا تم لات اور عزیٰ پرغور کیا اور ایک اور تیسری منات پر؟ یہ وہ بت ہیں جن کی شفاعت درکار ہوتی ہے'

رسول اللہ سے یہ سن کر مشرکین خوش ہوگئے اور کہنے لگے کہ ہمارے بتوں کا تذکرہ بھی قرآن میں آیا ہے۔ پھر جبرائیل آئے اور رسول اللہ سے کہا: 'اُس وحی اور قرآن کی تلاوت کریں جو کہ میں لایا تھا'۔ لیکن رسول اللہ نے ایک مرتبہ پھر وہی تلاوت کردی:

'کیا تم لات اور عزیٰ پرغور کیا اور ایک اور تیسری منات پر؟ یہ وہ بت ہیں جن کی شفاعت درکار ہوتی ہے'

جبرائیل نے کہا: 'میں یہ الفاظ لے کر نہیں آیا تھا ، یہ تو شیطان کی طرف سے ہیں'۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی:

'اور آپ سے پہلے ہم نے کوئی نبی کوئی رسول ایسا نہیں بھیجا جس کو یہ واقعہ پیش نہ آیا ہو کہ جب اس نے پڑھا تو شیطان نے اس کے پڑھنے میں شبہ ڈالا پھر اللہ اس کے ڈالے ہوئے شبہ کو دور کردیتا ہے پھر اللہ اپنی آیات کو مضبوط کردیتا ہے اور اللہ خوب جاننے والا اور خوب حکمت والا ہے' [س 22 آیت 52]

معزز قارئین! یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ مخالفین اپنی کتابوں میں درج اس واقعہ سے انکار کرنا شروع کردیا ہے لیکن ایسے لوگوں کو مزید ذلیل کرنے کے لئے امام جلال الدین سیوطی کے ابتدائی الفاظ ہی کافی ہیں جہاں انہوں نے لکھا ہے کہ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ اور پھر صرف یہی ایک سند نہیں بلکہ امام جلال الدین سیوطی نے سند اور معتبر اسناد سے اسی واقعہ کو نقل کیا ہے مثئلا ً:

ابن جریر ، ابن منذر ، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے سعید بن جبیر سے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ ۔۔۔۔

ابن جریر ، ابن منذر ، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابی العالیہ سے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ ۔۔۔۔

عبد ابن حمید اور ابن جریر سے ابن یونس کی طریق سے ابن شھاب سے روایت کی ہے کہ ۔۔۔۔ اس کی سند مرسل صحیح ہے

صرف یہی نہیں بلکہ سپاہ ِصحابہ کی پسندیدہ تفاسیر میں سے ایک یعنی قاضی ثناءاللہ پانی پتی کی تفسیر مظہری میں امام ابن حجرعسقلانی کا قول نقل کرکے قصہ ہی تمام کردیا۔ وہ لکھتے ہیں:

سعید بن جبیر کی جو روایت ہم نے اس سے قبل بزار، ابن مردویہ اورطبرانی کے حوالہ سے نقل کی وہ واقعہ متواتر اور قوی ہے۔ امام ابن حجرعسقلانی نے کہا ہے کہ روایات کی تعداد سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ میں حقیقت ہے

اور اب ہم سلفی و وھابی حضرات کے پیشواء جس نے بغض ِعلی ابن ابی طالب (ع) میں شرابور ہو کر زندگی بسر کی یعنی امام ابن تیمیہ کی گواہی اس کی مشہور کتاب منہاج السنت سے نقل کر دیتے ہیں جس کے عقیدہ کے مطابق رسول اللہ کا شیطانی آیات پڑھنا سچا واقعہ ہے:

سورہ نجم اور اس اس کی آیت یعنی "یہ وہ بت ہیں جن کی شفاعت درکار ہوتی ہے" کی تلاوت کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ سلف میں مشہور ہے کہ یہ آیت رسول اللہ نے تلاوت فرمائی اور پھر اللہ نے اسے منسوخ کردیا

معزز قارئین! اس واقعہ پر یقین رکھنے والوں سے سوال کیا جائے کہ کیا شان ِرسالت میں توہین کی کوئی گنجائش اب بھی باقی ہے۔ توہین تو ایک طرف یہ تو رسالت کے منصب پر ہی رکیک حملہ ہے۔ جب رسول اللہ (ص) ایک مرتبہ شیطان کے بہکاوے میں آکر اللہ کی کتاب میں تحریف کرسکتے ہیں (اللہ معاف کرے) تو رسول اللہ (ص) کی زبان ِ مبارک نے جو باقی قرآنی آیات بیان کی ان کی حیثیت کیا رہ گئ؟ سپاہ یزید کے تمام جاہل پیروکاروں سے مطالبہ ہے کہ وہ قرآن اور رسالت پر پہلے اپنا ایمان ثابت کریں پھر ہی انہیں حق حاصل ہوگا کہ وہ کسی دوسرے مسلمانوں پر انگلیاں اٹھا سکیں!

شیعہ مذہب میں واقعہ غرانیق کی تردید و مذمت

الحمداللہ ہم شیعان ِاہل ِبیت (ع) واقعہ غرانیق کو نہ صرف بھرپور طریقے سے رد کرتے ہیں بلکہ ہمارا اہل ِبیت کی طہارت پر ایمان ہی ایسے کسی واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کے امکان کو رد کردیتا ہے۔ اب جو رسول اللہ (ص) کو اپنے جیسا سمجھتے ہیں اس دھرم میں تو ایسی باتیں آئنگی ہی یہی ۔ اب شیعہ علماء کی جانب سے واقعہ غرانیق کے متعلق چند بیانات پیش ِخدمت ہیں۔ علامہ طباطبائی اپنی کتاب تفسیرمیزان ، ج 14 ص 399 پر لکھتے ہیں:

آنحضرت (ص) کی معصومیت کے متعلق قطعی دلائل ہی اس روایت کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں

بہا رالانوار کے حاشیہ (ج 17 ص 56) میں ربانی شیرازی لکھتے ہیں:

واقعہ غرانیق تو عامہ (یعنی سنیوں) کی جانب سے مروی شدہ افسانہ ہے اور یہ بلاشبہ جھوٹا ہے

تفسیرالامثال ، ج 10 ص 379 میں مکرکم شیرازی لکھتے ہیں:

واقعہ غرانیق جاہل دشمنوں کے جانب سے گھڑا گیا ہے

ناصبی عقیدہ : سورہ آل ِعمران میں غلطی ہے اور تحریف کردی گئی ہے

سورہ آل ِ عمران کی آیت 81 :

وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّيْنَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُواْ أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُواْ وَأَنَاْ مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ

سپاہ یزید کے آئمہ کا اس آیتِ کریمہ میں تحریف کا عقیدہ مندرجہ ذیل معتبر کتابوں سے ثابت ہے۔

1۔ تفسیر فتح القدیر، ج 1 ص 225 ، سورہ آل ِ عمران آیت 81
2۔ تفسیر روح المعانی، ج 3 ص، 205 سورہ آل ِ عمران آیت 81
3۔تفسیر قرطبی، ج 3 ص 124
4۔ تفسیر طبری ، سورہ آل ِ عمران آیت 81
5۔ تفسیر در المنثور ، ج 3 ص،47 سورہ آل ِ عمران آیت 81

تفسیر در المنثور کی عبارت :

 أخرج عبد بن حميد والفريابي وابن جرير وابن المنذر عن مجاهد في قوله ‏{‏واذ أخذ الله ميثاق النبيين لما آتيتكم من كتاب وحكمة‏}‏ قال‏:‏ هي خطأ من الكتاب‏.‏ وهي قراءة ابن مسعود ‏{‏واذ أخذ الله ميثاق الذين أوتوا الكتاب‏}‏‏.‏

ترجمہ: عبد بن حمید اور الفریابی اور ابن جریر اور ابن منذر نے مجاہد اس آیت کے بارے میں روایت کی ہے ‏"‏واذ أخذ الله ميثاق النبيين لما آتيتكم من كتاب وحكمة‏" کہ یہ کاتب کی غلطی ہے اور ابن مسعود کی قرت میں یہ آیت اس طرح ہے:
"واذ أخذ الله ميثاق الذين أوتوا الكتاب"

ذرا آیت کی دو قسموں کو دیکھا جائے جو ایک دوسرے سے کافی فرق رکھتی ہیں۔ سپاہ صحابہ و وہابی و سلفی حضرات کے اماموں کی نظر میں یہ آیت موجودہ قرآن میں کاتب کی غلطی سے اس طرح ہے جبکہ اسے دراصل یوں ہونا چاہئے تھا: "واذ أخذ الله ميثاق الذين أوتوا الكتاب"۔ اور یہ بات ذہن میں رھے کہ الفاظ کے اس رد و بدل سے آیت کا مفھوم ھی تبدیل ہورھا ھے کیونکہ موجودہ قرآن میں جس طرح یہ آیت موجود ہے اس کا ترجمہ یہ ہوتا ہے کہ 'اللہ نے انبیاء کے ذریعے وعدہ کیا' جبکہ صحابی عبداللہ ابن مسعود کے عقیدہ کے مطابق جو الفاظ اس آیت میں اصل میں موجود ہونے چاہئے ھیں ان کا مطلب بنتا ہے کہ ِ'اللہ نے لوگوں سے وعدہ کیا جن کو کتاب دی گئی'

کیا بات ہے کہ ناصبیوں کو اپنی کتابیں نظر نہیں آتیں جن میں تحریف ِ قرآن کو ثابت کرنے ولی روایات کثرت سے موجود ہیں لیکن وہ صرف شیعوں کو ہی کاٹنے دوڑتے ہیں جبکہ ان کی اپنی کتابوں میں تحریف کی روایات نقل کرنے والے صحابہ ، تابعین اور علماءکا نام آتے ہی خاموش ہوجاتے ہیں ؟

سپاہ صحابہ و وہابی عقیدہ: حضرت ابن عباس کا موجودہ قرآن پر ایمان نہ تھا، اس میں لفظی غلطی ہے

سورہ رعد کی آیت نمبر 31 میں ہم پڑھتے ہیں:

وَلَوْ أَنَّ قُرْآنًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ أَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الأَرْضُ أَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتَى بَل لِّلّهِ الأَمْرُ جَمِيعًا أَفَلَمْ يَيْأَسِ الَّذِينَ آمَنُواْ ۔ ۔ ۔

حضرت ابن عباس (ر) کی نگاہ میں لفظ "يْأَسِ" کاتب کی غلطی ہے اور اس کی جگہ "يتبين" ہونا چاہئے تھا۔

1۔ الاتقان ، ج 1 ص 238
2۔ تفسیر در امنثور ، ج 4 ص 63 ، سورہ رعد آیت 31
3۔ فتح الباری، ج 8 ص 373

تفسیر اتقان کی عبارت:

 ابن عباس نے یہ آیت اس طرح پڑھی "أفلم يتبين الذین" جس پر انہیں بتایا گیا کہ یہ دراصل "‏‏أفلم ييأس الذين" ہے ۔ ابن عباس نے جواب دیا: کاتب نے ييأس لکھا ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ کاتب یہ لکھتے وقت ہوش میں نہیں تھا

اہل سنت کے امام ابن حجر عسقلانی اپنی صحیح بخاری کی شرح "فتح الباری" میں اس روایت کو 'صحیح 'کہتے ہیں۔

ذرا ان دو الفاظ میں واضح فرق تو ملاحضہ کیجیئے ۔ یہاں تو قرات میں فرق کا بہانہ بھی نہیں کام آسکتا کیونکہ الفاظ کی دونوں قسمیں بالکل مختلف ہیں اور پھر ابن عباس (ر) کا کہنا کہ کاتب نے سوتے ہوئے یہ لفظ لکھا ہے ایسے کسی بھی بہانے کو رد کرتا ہے۔ یہاں ہم نواصب سے ایک سوال کرنا چاہیں گے:

"شیعہ و سُنی عقیدہ ہے کہ امام مہدی (ع) قیامت سے قبل تشریف لائینگے اور اللہ کا قانون رائج کرینگے۔ تو کیا وہ اس قرآن کے ساتھ حکومت کرینگے جس میں غلطیاں ہیں اور کاتب نے سوتے ہوئے غلط الفاظ لکھ ڈالے؟ اگر ہاں تو نواصب اللہ کی کتاب کو غلط کہہ رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ اللہ کے نازل شدہ درست الفاظ مسلمانوں تک پہنچے ہی نہیں۔
یا پھر امام مہدی (ع) قیامت سے قبل مسلمانوں تک اللہ کا درست کلام بیان کرینگے؟ اگر ہاں، تو نواصب آج تک یہ کیوں چیختے آئے ہیں کہ شیعہ کافر ہیں کیونکہ ان کے مطابق اصل قرآن امام مہدی (ع) لے کر آئنگے ؟ (حالانکہ یہ شیعہ عقیدہ نہیں)"۔

حضرت عمر کا موجودہ قرآن پر ایمان نہ تھا، ان کے بیان کے مطابق سورہ جمعہ میں تحریف کردی گئی

سورہ جمعہ کی آیت نمبر 9 میں ہم پڑھتے ہیں:

۔۔۔ ‏إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة فاسعوا إلى ذكر الله۔۔۔

جناب ِعمر کی نگاہ میں اس آیت کا لفظ "فاسعوا" صحیح نہیں بلکہ "فامضوا " ہے ۔

1۔ تفسیر در المنثور، ج 6 ص 219 ؛ سورہ جمعہ آیت 9
2۔ تفسیر کبیر، ج 7 ص 206
3۔فتح الباری، ج 8 ص 496

تفسیر درالمنثور کی عبارت ملاحضہ ہو:

 أخرج أبو عبيد في فضائله وسعيد بن منصور وابن أبي شيبة وابن المنذر وابن الأنباري في المصاحف عن خرشة بن الحر قال‏:‏ رأى معي عمر بن الخطاب لوحا مكتوبا فيه ‏{‏إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة فاسعوا إلى ذكر الله‏}‏ فقال‏:‏ من أملي عليك هذا‏؟‏ قلت‏:‏ أبي بن كعب‏.‏ قال‏:‏ إن أبيا أقرؤنا للمنسوخ قرأها ‏"‏فامضوا إلى ذكر الله‏‏‏.‏

ترجمہ: خرشہ بن الحر نے روایت کی: عمر بن خطاب نے میرے پاس ایک لوح دیکھی جس پر لکھا تھا "إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة فاسعوا إلى ذكر الله"۔ عمر نے دریافت کیا کہ تمہیں یہ اس طرح کس نے بیان کیا۔ میں نے کہا ابی بن کعب نے۔ عمر نے جواب دیا : ابی نے منسوخ شدہ پڑھا ہے اس کو اس طرح سے پڑھو: " فامضوا إلى ذكر الله‏"

امام ابن حجر عسقلانی نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔

اگر نواصب کی جانب سے یہ بہانہ آتا ہے کہ اس آیت میں 'فامضوا' پڑھو یا 'فاسعوا' فرق نھیں تو ھم یہاں یہ بات بھی واضح کرتے چلیں کہ اس سے بہت فرق پڑتا ھے اور آیت کا مفہوم ھی تبدیل ھوجاتا ھے کیونکہ جو لفظ اس آیت میں آج ھم پڑھتے ھیں اس سے ہمیں حکم ملتا ہے کہ جب جمعہ کی اذان سنائی دے تو 'دوڑ پڑو' یعنی لفظ 'فاسعوا' سے مراد تیز چلنے یا دوڑ لگانے کے ھیں جبکہ جو لفظ صحابہ اس آیت میں پڑھتے تھے وہ 'فامضوا' تھا جسکا مطلب بس چلنے یا جانے کے ھیں اس میں تیزی کا عنصر نھیں ۔ ان دو مختلف مفہوم کی وضاحت کے لئے ثبوت ملاحضہ ھو صحابی عبداللہ ابن مسعود کی زبانی:

عن ابن مسعود أنه كان يقرأ " فامضوا إلى ذكر الله " قال : ولو كانت فاسعوا لسعيت حتى يسقط ردائي

ابن مسعود پڑھا کرتے تھے ' فامضوا إلى ذكر الله' اور وہ کہتے تھے کہ اگر اس آیت میں لفظ 'فاسعوا' استعمال ھوا ھوتا تو میں اتنی تیزی سے چلتا کہ میری چادر گرجاتی
تفسیر در المنثور، ج 6 ص 219

یعنی ایک اور جلیل القدر صحابی کے عقیدے کے مطابق موجودہ قرآن میں لفظ 'فاسعوا' غلط ھے جبکہ اسے اصل میں 'فاسعوا' ھونا چاہئے تھا۔

سپاہ صحابہ والے خاص طور سے ان کا بانی پنڈت جھنگوی جس نے کہ منافرت اور تشدد پسندی کی بنیاد رکھی اور عمر بھر شیعوں کو گالیاں دیتا رہا اور کافر کہتا رہا اس وجہ سے کہ کچھ شیعہ علماء نے کچھ روایات نقل کیں جن سے قرآن میں تحریف کا گمان ہو سکتا ہے جبکہ ہم شیعہ خیرالبریہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا موجودہ قرآن پر پوری طرح ایمان ہے ۔ کیا وجہ ہے کہ جھنگوی کو اپنے باپ داداوں کا قرآن میں تحریف کا عقیدہ کبھی نظر نہیں آیا ؟ کبھی چوراہوں پر کھڑے ہوکر اپنے آقاوں کو گالیاں نہیں دیں ، انہیں لعنتی نہیں کہا اور ان کے خلاف ایسے عقائد رکھنے پر کفر کے فتویٰ نہیں دئیے اسی چیز کے لئے جس کے لئے شیعوں پر فتویٰ دیا جاتا ہے ؟ کیا جھنگوی اور اعظم طارق جیسوں کو ان کے آقائوں نے مالی امداد اس لئے دی کہ وہ شیعہ دشمنی میں دوہرا معیار دکھا تے ہوئے ذندگی گزار دیں؟


صحابی ابن عباس کا سنگین عقیدہ: سورہ النور میں مومنین کو اللہ سے غلطی سے تشبیح دیدی گئی ہے

سورہ النور کی آیت نمبر 35 میں ہم پڑھتے ہیں:

اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ
اللہ آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال جیسے ایک طاق ہو۔

لیکن صحابی عبداللہ ابن عباس کے نزدیک اس آیت میں ایک سنگین غلطی ہے۔ تفسیر ابن ابی حاتم، ج 8 ص 2595 میں ہم پڑھتے ہیں:

حدثنا علي بن الحسين ، ثنا نصر بن علي ، أخبرني أبي ، عن شبل بن عباد ، عن قيس بن سعد ، عن عطاء ، عن ابن عباس : ( الله نور السموات والأرض مثل نوره ) قال : هي خطأ من الكاتب ، هو أعظم من أن يكون نوره مثل نور المشكاة قال : مثل نور المؤمن كمشكاة

علی بن الحسین نے نصر بن علی سے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے شبل بن عباد سے انہوں نے قیس بن سعد سے انہوں نے عطاء سے انہوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ "اللہ آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال جیسے ایک طاق ہو" یہ کاتب کی غلطی ہے۔ اللہ اس سے بہت بلند ہے کہ اس کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہو۔ اابن عباس نے کہا کہ یہ دراصل یوں ہے: 'مومن کے نور کی مثال جیسے ایک طاق'۔

امام ابن حجر عسقلانی کی کتاب تقریب التھذیب کے مطابق، علی بن الحسین بن ابراہیم 'صدوق' اور نصر بن علی 'ثقہ ثبت' جبکہ علی بن نصر، شبل بن عباد، قیس بن سعد اور عطاء 'ثقہ' ہیں۔

سپاہ ِصحابہ کے نجس نواصب شیعوں پر تحریف ِقرآن کا الزام عائد کرکے شیعہ کافر شیعہ کافر کی رٹ لگائے رہتے ہیں ذرا بتادیں کہ صحابی عبداللہ ابن عباس جو بلاخوف و خطر قرآن میں تحریف و غلطی کا اقرار کررہے ہیں، ان کے متعلق کیا فتویِ ہے؟ کیا سپاہ ِصحابہ والوں کی فقہ میں اگر ایک انسان غلطی کرے تو اس کی سزا کچھ اور اگر وہی غلطی دوسرا انسان کرے تو کیا اسے دوسری سزا یا پھر سیدھا معاف ہی کردیا جاتا ہے؟ یہ کہاں کا انصاف ہے؟


اگر تکلیف کم نہیں ہوئی تو ناصبیوں کے لئے ایک اور خوراک ؛ حضرت عمر سورہ تین کو مختلف طرح سے پڑھتے تھے

سورہ تین کی پہلی اور دوسری آیات اس طرح ہے:

وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ
وَطُورِ سِينِينَ

عللامہ جلال الدین سیوطی حضرت عمر کا دوسری آیت میں تحریف کرنا نقل کرتے ہیں۔

 عبد بن حميد اورابن الانباری نے المصاحف میں عمرو بن ميمون سے روایت کی ہے کہ: میں نے مغرب کی نماز عمر بن خطاب کے پیچھے ادا کی اور انہوں نے پہلی رکعت میں پڑھا: ‏"والتين والزيتون وطور سينا" اور کہا کہ عبداللہ کی قرات میں اسی طرح ہے

ہمیں بھی تو معلوم ہو کہ آیا کسی ناصبی ملا کی اتنی جرات ہوئی کہ وہ منافقت اور دوہرے معیار سے باہر نکل کر اپنے خلیفہ دوم کے خلاف اُس عمل کے لئے فتویٰ دے جو کہ وہ شیعوں کے خلاف جاری کرتے آئے ہیں؟

سپاہ صحابہ کا عقیدہ کے موجودہ قرآن میں چار غلطیاں ہیں

امام ابو داود کے بیٹے ابی بکر سجستانی اپنی کتاب المصاحف میں نقل کرتے ہیں:

 سعید بن جبیر فرماتے ہیں: قرآن میں چار غلطیاں ہیں:
الصابئون، (مائدہ آیت 69) والمقيمين (انساء آیت 162) فأصدق وأكن من الصالحين‏ ‏(‏المنافقون آیت 10‏)‏ ‏إن هذان لساحران‏ ‏(‏طه آیت 63‏)‏‏.‏
المصاحف ، ص 43

جب سپاہ صحابہ کے مذہب کی کتابیں قرآن میں تحریف ثابت کرنے والی روایات سے بھری ہوئی ہیں تو وہ شیعوں کے خلاف ہی کیوں کفر کا فتویٰ جاری کرتے ہیں؟ ملعون حق نواز جھنگوی جو شیعہ علماء کے خلاف اغلاض اگلتا ہوا واصل ِ جہنم ہوا کبھی اپنے مذہب میں جھانک کر نہیں دیکھا ؟


جنابِ عائشہ کا عقیدہ کے موجودہ قرآن میں غلطیاں ہیں

سپاہ صحابہ کے تشدد پسند ناصبیوں کا عقیدہ جو انہوں نے حضرت عائشہ سے مروی روایات سے اخذ کیا ہے وہ یہ ہے کہ موجودہ قرآن کی تین (اور بعض روایات کے مطابق چار) آیات میں غلطیاں ہیں۔

1۔ تفسیر در المنثور، ج 2 ص 246 سورہ نساء
2۔ تفسیر طبری، ج 2 ص 18 سورہ نساء آیت 162
3۔ المصاحف ، ص 43
4۔ تفسیر غرائب القرآن ، ج 2 ص 17 سورہ نساء

امام جلال الدین سیوطی اپنی تفسیر میں اہلِ سنت کے نامور علماء سے نقل کرتے ہیں:

 وأخرج أبو عبيد في فضائله وسعيد بن منصور وابن أبي شيبة وابن جرير وابن أبي داود وابن المنذر عن عروة قال‏:‏ سألت عائشة عن لحن القرآن ‏(‏إن الذين آمنوا والذين هادوا والصائبون‏)‏ ‏(‏المائدة الآية 69‏)‏ ‏{‏والمقيمين الصلاة والمؤتون الزكاة‏}‏ ‏(‏إن هذان لساحران‏)‏ ‏(‏طهٰ الآية 63‏)‏‏؟‏ فقالت‏:‏ يا ابن أختي هذا عمل الكتاب أخطأوا في الكتاب‏.‏

ترجمہ: ابو عبید نے اپنی کتاب الفضائل میں، سعيد بن منصور، ابن ابی شیبہ ، ابن جریر، ابن ابی داود ، ابن منذر نے عروہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے عائشہ سے قرآن میں ان غلطیوں کے متعلق دریافت کیا: " ‏(‏إن الذين آمنوا والذين هادوا والصائبون‏)‏ ‏(سورہ ‏المائدة آیت 69‏)‏ ‏{‏والمقيمين الصلاة والمؤتون الزكاة‏}‏ (نساء آیت 162) ‏(‏إن هذان لساحران‏)‏ ‏(‏طه آیت 63‏)‏‏؟‏ عائشہ نے جوادب دیا: "اے میری بہن کے بیٹے ! یہ کاتب ِ قرآن کی غلطیوں کی وجہ سے ہے
حوالہ کا آن لائن لنک:
 http://www.al-eman.com/Islamlib/viewchp.asp?BID=248&CID=125#s2

حضرت عائشہ کے یہ بیان مندرجہ ذیل معتبر کتب ِ اہل سنت میں بھی پڑھا جا سکتا ہے۔

1۔ تفسیر اتقان، ج 1 ص 225
2۔ تفسیر در المنثور، ج 2 ص 246 سورہ مائدہ
3۔ تفسیر مظہری ، ج 6 ص 149
4۔ تفسیر قرطبی ، ج 11 ص 216
5۔ تفسیر روح المعانی، ج 1 ص 31
6۔ تفسیر معالم التنزیل، ج 4 ص 221
7۔ المحاضرات، ج 3 ص 435

اب سپاہ صحابہ کے ناصبی ملا یا تو حضرت عائشہ پر فتویٰ جاری کریں یا پھر حضرت عثمان پر کہ ان کی وجہ سے قرآن میں یہ غلطیاں موجود ہیں۔ شائد اب سپاہ صحابہ والوں کو معلوم ہوا ہو کہ ڈاکٹر اسرار احمد کو قرآن میں غلطیوں کا خیال کہاں سے آیا تھا۔ اگر آج 100 سُنی علماء بھی کھڑے ہوکر قرآن میں غلطی کی بات کریں تو بھی سپاہ یزید والے کفر کا فتویٰ جاری کرنے سے قاصر رہینگے کیونکہ ان علماء کی تحقیق بھی حضرت عا ئشہ کی اس عظیم تحقیق پر منحصر ہوگی۔

سپاہ صحابہ کی جانب سے وضاحتیں اور کمزور دفاع


وضاحت نمبر 1:

شیعہ کہتے ہیں کہ حضرت عثمان کے قرآن میں غلطیاں ہیں اور وہ اس قرآن میں یقین نہیں رکھتے جو کہ قرآن اور ایک عظیم صحابی دونوں کی توہین ہے ۔

جواب:

نواصب آنکھیں کھول کر دیکھیں کہ ہم تو صرف اُن ہی کے مذہب کی معتبر کتابوں سے نقل کررہے ہیں اور یہ ہم نہیں بلکہ جناب ِعائشہ تھیں کہ جنہوں نے مصحف ِعثمانی میں غلطیوں کا انکشاف کیا تو ہمیں کیوں اس کا ذمیدار سمجھا جائے؟۔

وضاحت نمبر 2:

مندرجہ بالا روایت ضعیف ہے اور ضعیف روایت کی کوئی اہمیت نہیں۔

جواب:

علامہ جلال الدین سیوطی کی شہادت نے ایسے تمام بہانوں کو نیست و نابود کردیا ہے۔ وہ تفسیر الاتقان ، ج 2 ص 225 میں لکھتے ہیں:

 وبعد فهذه الأجوبة لا يصلح منها شيء عن حديث عائشة أما الجواب بالتضعيف فلأن إسناده صحيح كما ترى

حضرت عائشہ کی اس روایت کے لئے یہ جواب دینا کہ اس کے اسناد ضعیف ہیں غلط بات ہے۔ اس کے اسناد صحیح ہیں

روایت نقل کرنے کے بعد امام صاحب نے یہ بھی واضح طور پر لکھ دیا ہے کہ:

هذا إسناد صحيح على شرط الشيخين

اس کی سند شیخین (یعنی امام بخاری اور امام مسلم) کی شرائط کے مطابق صحیح ہے

اور پھر علامہ کے وہ الفاظ جو انہوں نے تفسیر در المنثور کے مقدمہ میں لکھے قابل دید ہیں:

 حمد اُس اللہ کی جس نے مجھے توفیق دی کی میں اس عظیم کتاب کی تفسیر اُن ذرائع سے لکھوں جو مجھ تک اعلیٰ اسناد سے پہنچی ہیں

وضاحت نمبر 3:

صحابہ نے قرآن رسول اللہ (ص) سے حاصل کیا وہ بھی بالکل اسی طرح جس طرح نازل ہوا تھا لہٰذا یہ بہت عجیب بات ہے کہ وہ صحابہ قرآن کی کتابت میں غلطیاں کر سکتے ہیں

جواب:

یہ بے بنیاد دعویٰ ہے کیونکہ ہم معتبر ترین سُنی روایات میں پڑھتے ہیں کہ صحابہ کو سورہ بقرہ اور سورہ انفال کی صحیح جگہ تک معلوم نہ تھی۔

خود حضرت عثمان کی جانب سے اقرار کہ قرآن میں غلطیاں ہیں اسلام کے نام پر داغ چھوڑ گیا

یزید ِ پلید کی حامی جماعت سپاہ صحابہ کے مذہب کی معتبرترین کتابیں اس بات کی شاہد ہیں کہ قرآن کی تالیف کرنے والے حضرت عثمان کو خود قرآن کے مکمل لاریب ہونے کا یقیں نہ تھا بلکہ انہوں نے اقرار کیا کہ اس میں غلطیاں موجود ہیں۔

1۔ تفسیر اتقان (اردو)، ج 1 ص 192
2۔تفسیر روح المعانی، ج 1 ص 30
3۔ تفسیر قرطبی، ج 11 ص 212 سورہ طٰہٰ آیت 63
4۔ تفسیر کبیر، ج 6 ص 38
5۔ تفسیر فتح القدیر ، ج 3 ص 261
6۔ تفسیر معالم التنزیل ، ج 3 ص 361 سورہ نساء آیت 161
7۔ تفسیر در المنثور ، ج 2 ص 246 سورہ مائدہ
8۔ المحاضرات، ج 2 ص 343
9۔ تفسیر مظہری، ج 3 ص 215۔216، (اردو ایڈیشن )

ان کے علاوہ جناب ِ عثمان کا بیان کئی اور کتب ِ اہل سنت میں بھی پڑھا جاسکتا ہے مثلاً:
1۔ المصاحف ، مولف: ابن اشتہ
2۔ تفسیر الکشف ولبیان عن تفسیر القرآن ، مولف : ثعلبی
3۔ الفوز الکبیر فی اصول ِ تفسیر، مولف: شاہ ولی اللہ دہلوی

قاضی ثناء اللہ پانی پتی تفسیر مظہری میں نقل کرتے ہیں:

 بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت عائشہ (ر) اور ابان بن عثمان (ر) کا قول منقل ہے کہ اس جگہ "والمقيمون الصلاة" لکھنا چاہئے تھا۔ اس طرح سورہ مائدہ میں "‏إن الذين آمنوا والذين هادوا والصائبون‏" میں ‏‏ "الصائبون"‏‏ اور آیت "‏إن هذان لساحران" میں "هذان" کاتب کی غلطی ہے (الصائبین اور هذین ہونا چاہئے) ۔ حضرت عثمان نے بھی فرمایا تھا کہ مصحف میں کچھ (کتابت کی) غلطی ہے عرب پڑھتے وقت اپنی زبانوں پر خود اس کو ٹھیک کرلینگے عرض کیا گیا آپ اس کو بدل کیوں نہیں دیتے فرمایا یوں ہی رہنے دو اس سے کسی حلال کی حرمت اور حرام کی حلت نہیں ہوتی

علامہ جلال الدین سیوطی تفسیر اتقان میں نقل کرتے ہیں:

 عکرمہ نے کہا کہ جس وقت مصاحف لکھے جانے کے بعد حضرت عثمان کو پیش ہوئے تو انہیں کچھ الفاظ غلط پائے گئے عثمان (ر) نے کہا: ان کو نہ بدلو کیونکہ عرب کے لوگ ان کو خود ہی بدل دینگے
 تفسیر اتقان، ج 1 ص 492 (اردو ایڈیشن ، ادارہ اسلامیہ لاہور)

معزز قارئین! سپاہ صحابہ والوں کا کہنا ہے کہ حضرت ِعثمان حیا کا پیکر تھے ۔ لیکن ان کی حیا اس وقت کہاں غائب ہو گئی تھی جب انہوں نے اللہ کی کتاب کو غلط کہا اور اس کی غلطی کو جانتے ہوئے بھی اسے درست نہ کیا؟ جن غلطیوں کے لئے انہوں نے امید ظاہر کی تھی کہ عرب لوگ خود ٹھیک کرلینگے وہ تو آج تک ایسی ہی ہیں۔ اور حضرت عثمان کا یہ کہنا کہ عرب لوگ اپنی زبانوں کے مطابق غلطیوں کو ٹھیک کرلینگے ایک نہایت ہی خطرناک عمل کی امید ہے جو کہ مستقبل میں لوگ جناب ِعثمان کی بات کو بنیاد بنا کر من مانی تحریف کر سکتے تھے بلکہ کر سکتے ہیں۔ یہی بات کسی اور نے کہی ہوتی تو سپاہ صحابہ، وہابی و سلفی برادری اس کے خلاف گالیوں اور فتووں کا دروازہ کھول دیتے لیکن چونکہ گھر کو آگ لگ گئی گھر کے ہی چراغ سے لہٰذا نہ کوئی فتویٰ اور نہ کوئی مذمت، بس ایک منافقت بھری خاموشی۔ اور کیا یہ عجیب بات نہیں کہ حضرت عثمان کے پیروکار ان کا قرآن کی تالیف کرنا ایک بڑی فضیلت تسلیم کرتے ہیں جبکہ خود حضرت عثمان مصحف کو غلط کہتے ہیں۔ کیا غلط مصحف کی تالیف فضیلت ہو سکتی ہے؟

نواصب کی جانب سے حضرت عثمان کی توہین ِ قرآن کے سلسلے میں وضاحات

جناب ِعثمان کا مصحف کو غلط کہنا وہ ہڈی اور وہ کانٹا ہے کہ ناصبی گلوں میں بُری طرح جا اٹکا ہے اور باوجود یزیدی ہسپتال کے ناصبی سرجنوں کے علاج کے مذید اندر ہی دھنستا گیا ہے۔ مذکورہ روایات کے سلسلے میں نواصب کچھ وضاحتیں پیش کرتے ہیں

وضاحت نمبر 1:

شاہ ولی اللہ دہلوی کے شاگرد رشید خان اپنی کتاب ایضاح لطافت المقال میں لکھتے ہیں کہ ایسی کوئی روایت ہی نہیں ہے کہ جس میں حضرت عثمان نے کہا ہو کہ قرآن میں غلطیاں ہیں۔

جواب:

اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کے حضرت عثمان کے پیروکاروں کو ان کے اس توہین ِ قرآن سے جھٹکا لگتا ہے لہٰذا اس قسم کا بہانہ ہمارے لئے حیرانی کی بات نہیں لیکن چونکہ یہ جدید دور ہے لہذا ہم نے روایات کا اسکین پیج (عکس) اور انٹرنیٹ پر موجود وہابی ویب سائٹ سے ان روایات کا لنک پیش کردیا ہے۔

وضاحت نمبر 2:

حضرت عثمان کی قرات میں "إن هذین لساحران" تھا لہٰذا عثمان نے یہ نہیں چاہا کہ "‏إن هذان لساحران" پڑھا جائے اور اسے غلط قرار دیا۔

جواب 1:

اہل ِسنت کے مطابق سات (7) قسم کی قرات موجود تھیں لیکن کسی ایک نے بھی دوسری قراٰت کو غلط نہیں کہا لہٰذا حضرت عثمان کی جانب سے ان الفاظ کو غلط کہنا قرآن کی کھلی توہین ہے۔

جواب 2:

اگر واقعی حضرت عثمان کی نگاہ میں "إن هذین لساحران"ہی صحیح تھا نہ کہ "‏إن هذان لساحران" تو انہوں نے اسے ٹھیک کیوں نہ کرلیا یا پھر مصحف کو نذر ِ آتش کیوں نہ کردیا جس میں وہ ماہر تھے؟

دیوبندی امام انور شاہ کشمیری کا عقیدہ کہ قرآن میں لفظی تحریف کی گئی ہے

دیوبندی مذہب کے بانیوں میں سے ایک امام شیخ محمد انور شاہ کشمیری (المتوفی 1352ھ) نے دیوبندیت اور حضرت عثمان کے نام یہ اقرار کر کے چار چاند لگادئے کہ قرآن میں تحریف کردی گئی ۔ صحیح بخاری کی شرح 'فیض الباری' میں موصوف لکھتے ہیں:

 قرآن میں مغوی تحریف بھی کم نہیں ہوئی اور جو میرے نزدیک تحقیق شدہ بات ہے وہ یہ کہ اس میں لفظی تحریف بھی ہوئی ہے یا تو جان بوجھ کر ایسا کیا ہے یا مغالطہ سے
 فیض الباری شرح صحیح بخاری ، ج 3 ص 395 ، کتاب الشہادات

یہ کوئی عام شخص نہیں بلکہ اسے "امام العصر" کہا جاتا ہے۔ دیوبندی مذہب کے دوسرے اہم اکابرین نے بھی انور شاہ کشمیری کی عظمت کی تصدیق کی ہے اور ان میں مولانا اشرف علی تھانوی کا نام پیش پیش ہے۔ انٹر نیٹ پر موجود دیوبندی ویب سائٹ  http://alashrafia.com/english/anwar.htmlپر دیوبندی مذہب کے اکابرین و آئمہ کی سوانح حیات پڑھ سکتے ہیں جہاں امام انور شاہ کشمیری کے متعلق لکھا ہے:

 ایک مرتبہ مولانا اشرف علی تھانوی علامہ کشمیری کے درس میں بیٹھ گئے۔ ان کا درس سننے کے بعد مولانا تھانوی نے فرمایا:' شاہ صاحب کا ہر لفظ ایک کتاب میں تبدیل کیا جاسکتا ہے' (انوار الباری، ج 2 ص 235)۔ حضرت تھانوی نے یہ بھی فرمایا: ' میں نے حضرت شاہ صاحب سے اتنا فائدہ حاصل کیا کہ میرے دل میں ان کے لئے اتنی ہی عزت ہے جتنی میرے دوسرے اساتذہ کے لئے ہے حالانکہ میں ان کا شاگرد نہیں رہا' (انوار الباری، ج 2 ص 235)

دیوبندی مذہب کے ایک اور اکابر مولانا عبدالقادر رائپوری نے امام کشمیری کے متعلق لکھا:

 بیشک حضرت شاہ صاحب اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہیں ۔ (اکابر ِ علماء ِ دیوبند ، ص 98 )۔

سپاہ صحابہ جیسے نواصب جو کہ دیوبند مذہب کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور جو شیعہ علماء پر اس لئے کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں کہ انہوں نے اپنی کتب میں بعض روایت نقل کیں یا خود کچھ الفاظ کہے جن سے تحریف َ قرآن کے ہونے کا گمان ہوتا ہے تو ایسا تو ان کے امام العصر نے خود کیا تھا لیکن ہم نے کبھی کسی دیوبندی کے منہ سے اس شخص پر لعنت دیتے ، کفر کا فتویٰ دیتے یا گالیاں دیتے نہیں سُنا یا دیکھا۔ کیا سپاہ صحابہ والوں نے اپنے اصل یعنی یزید ِ پلید سے کو ئی اتھارٹی لیٹر لکھوا کر رکھا ہے کہ ان کے اکابر قرآن کے خلاف جو کچھ کہیں تو سب معاف اور اگر شیعہ کتاب میں کوئی ایسی روایت مل جائے جس کے شیعہ مذہب خود تسلیم نہیں کرتے تو وہ کافر؟

اس کے علاوہ سپاہ یزید کے ناصبی شیعوں سے یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ وہ اپنے تمام علماء کو جنہوں نے تحریف ِ قرآن کے ہونے کی بات کی اور وہ بھی جنہوں نے اُن علماء کو سراہا کافر قرار دیں ورنہ یہ سمجھا جائیگا کہ شیعہ لوگ ان روایات پر یقین رکھتے ہیں اور تحریف ِ قرآن کے قائل ہیں۔ اگر ایسا ہے اور چونکہ مطالبہ تمہاری جانب سے تو پہل بھی وہیں سے ہونی چاہیئے۔ ہمیں جامع اشرفیہ ، جامع بنوریہ اور دیگر دیوبندی مراکز سے امام انوار شاہ کشمیری اور وہ تمام علماء جن میں مولانا اشرف علی تھانوی ، عبدالقادر رائپوری وغیرہ شامل ہیں کے خلاف کفر کا فتویٰ ملنا چاہئے ورنہ ہم یہ سمجھیں گے کہ سپاہ یزید قرآن میں تحریف کا عقیدہ رکھتی ہے ۔

اگر ایسا نہیں ہوتا تو سپاہ یزید کے مُلا اپنے بچوں پر مدارس میں جنسی تشدد کرنے اور شیعہ کافر شیعہ کافر چیخنا سکھاتے وقت اپنے امام العصر کی تحقیق سے بھی ضرور آگاہ کریں۔

سُنی اسکالر ڈاکٹر اسرار احمد کی تحقیق: موجودہ قرآن اصل نہیں ، اس میں غلطیاں ہیں

بر ِصغیر ہی میں نہیں بلکہ بیرونی ممالک میں مسلمانوں میں بہت کم ہی ایسے لوگ ہونگے جو ڈاکٹر اسرار احمد کے نام سے واقف نہ ہوں۔ کچھ برس قبل انہوں نے بیان دیا کہ موجودہ قرآن میں غلطیاں ہیں اور یہ اصل قرآن نہیں جس کی حفاظت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔ اس پر دیوبندی حضرات کا ردِ عمل سامنے آیا اور جمعیت علماء اسلام جو کہ پاکستان کی ایک بڑی دیوبندی جماعت ہے اپنے ماہانہ جریدہ "ضرب ِ حق" میں کچھ ان الفاظ میں خبر شائع کی۔

 سرخی: موجودہ قرآن اصل نہیں جس میں غلطیاں ہیں؛ ڈاکٹر اسرار احمد
خبر و تبصرہ عبدالقدوس بلوچ: بین الاقوامی شہرت یافتہ اسکالر ڈاکٹر اسرار احمد صاحب بانی خدام الاقرآن و تنظیم ِ اسلامی، تحریک ِ خلافت پاکستان نے عوامی اجتماعات ، تحریرات اور ویڈیو کیسٹوں کے ذریعے عوام الناس میں اس بات کی تبلیغ کی ہے کہ ہمارے پاس موجودہ قرآن اصل قرآن نہیں ہے بلکہ اس کا نقش ہے۔ اصل قرآن لوح ِ محفوظ میں موجود ہے جس میں غلطی کا کوئی احتمال نہیں ہے جبکہ اُمت کے پاس جو قرآں موجود ہے اس میں غلطیاں بھی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کی حفاظت کے وعدہ والی آیت کی تشریح کرتے ہوئے ڈاکٹر اسرار احمد نے کہا ہے کہ یہ وعدہ امت کے پاس موجود قرآن کے لئے نہیں ہے بلکہ لوح ِ محفوط والے قرآن کے لئے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے کہ 'ہم نے اس قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرتے ہیں'۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ یہ وعدہ ہمارے پاس موجودہ نقش ِ قرآن کے لئے نہیں بلکہ اللہ کے ہاں لوح ِ محفوظ میں موجود قرآن کے لئے ہے ۔ اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ 'اس لوح ِ محفوظ والے قرآن کو کوئی چھوتا نہیں مگر پاک لوگ'۔ یہ آیت بھی ہمارے پاس موجود نقش قرآن کے نقل کے لئے نہیں ۔ یہ نقل تو صحیفہ ِ عثمانی ہے۔جو غیر محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کو پاک لوگوں کے علاوہ دوسرے لوگ بھی ہاتھ لگاتے ہیں۔
تبصرہ ضرب ِ حق: واضح رہے کہ ۔۔۔۔۔ علماء حضرات کی درسی اور غیر درسی کتابوں میں علمی تبصرہ ضرور موجود ہیں جن کو انتہائی غلب بھی کہا جا سکتا ہے ۔ لیکن یہ حقیقت بھی بلاشبہ بالاتر ہے کہ علماء کرام کبھی ان تبصروں کی وجہ سے قرآن کے بارے میں کسی قسم کے تردد کا شکار نہیں ہوئے ہیں ۔ قرآنی آیات موجودہ قرآن کے محفوظ ہونے کے لئے کافی قرار دی جاتی ہیں۔ مولانا انور شاہ کشمیری کی فیض الباری میں قرآن کی لفظی تحریف کے معاملہ پر قاضی عبدالکریم کلاچی اپنا سر پیٹ کر رہ گئے۔ اگر مولانا انور شاہ کشمیری ڈاکٹر اسرار کی طرح عوامی اجتماع یا علماءء کی عام مجلسوں میں اس قسم کی بات کرتے تو ان کو اسلام سے خارج قرار دیا جاتا اور توبہ کرنے پر مجبور کیاجاتا۔۔۔"
 ماہانہ ضرب ِ حق، ماہ ِ مئی 2005، (مدرسہ محمودیہ ، جین روڈ، گزدرآباد، رنچوڑ لائن کراچی)

دیوبندی علماء سے سوال ہے کہ صرف اس بدقسمت کو ہی کیوں قصوروار ٹھہرایا ؟ ایسا تو نہیں تھا کہ ڈاکٹر اسرار صبح صبح سو کر اٹھے اور یہ بیان جاری کردیا بلکہ یہ سوچ ان کے دماغ میں ان احادیث کے مجموعہ سے آئی جو معتبر کتب ِ اہل سنت میں درج ہیں اور جو قرآن میں تحریف کو ثابت کرتیں ہیں۔ جب بیج ہی کڑوا ہو تو میٹھے پھل کی توقع کیوں ؟

نیز یہ کہ یہ کہاں کا قانون ہے کہ اگر مولانا انور شاہ کشمیری نے عوامی اجتماع یا مجلس میں تحریف کی بات کہی ہوتی تو ہی انہیں اسلام سے باہر قرار دیا جاتا ؟ اگر ایسا ہی ہے تو کس شیعہ عالم ِ دین نے لوگوں کو اکھٹا کر کے تحریف ِ قرآن کی بات کہی؟ اگر دیوبندی مذہب میں کسی کو کافر قرار دینے کی یہی کسوٹی ہے تو شیعوں کے لئے الگ اصول کیوں بنا رکھے ہیں ؟

اور پھر تبصرہ نگار کہ یہ کہنا کہ قرآن کی آیات موجودہ قرآن کے محفوظ ہونے کے لئے کافی سمجھی جاتی ہیں تو پھر شیعہ عدم تحریف کو ثابت کرنے کے لئے یہی دلیل پیش نہیں کرتے تو اور کیا کرتے ہیں ؟ اس وقت کیا نواصب کے کان اور آنکھیں وقفہ لینے چلی جاتی ہیں ؟

امام محمد بن عثمان بن ابی شیبہ (المتوفی 287 ھ) قرآن میں تحریف کیا کرتے تھے

علامہ عثمان بن ابی شیبہ جن کے متعلق امام ذہبی کا کہنا ہے:

 وہ ایک امام، بہت بڑے حافظ اور مفسر تھے
سیراعلام النبلاء، ج 11 ص 151

امام ابن حبان نے عثمان بن ابی شیبہ کو اپنی ثقہ شخصیات کی کتاب یعنی الثقات (ج 8 ص 454) میں شامل کیا ہے۔ امام عجلی نے (معارف الثقات، ج 2 ص 130 ) اور امام ابن معین نے (تذکرہ الحفاظ، ج 2 ص 444) انہیں ثقہ قرار دیا ہے جبکہ امام ابی حاتم رازی نے انہیں صدوق قرار دیا ہے (الجرح والتعدیل، ج 6 ص 76)۔

عثمان بن ابی شیبہ کا سورہ فیل میں تحریف کرنا

امام ذہبی لھکتے ہیں:

 دارقطنی نے احمد بن کامل نے حسن بن حباب سے روایت کی ہے کہ عثمان بن ابی شیبہ نے اُن کے لئے اس آیت کی تفسیر بیان کی" ألم تر كيف فعل ربك بأصحاب الفيل " ۔ اور " ألم" کو "الیف ۔ لام ۔ میم" پڑھا

معزز قارئین! جیسا کے سب مسلمان واقف ہیں کہ قرآن شریف میں کچھ خاص حروف ہیں جنہیں الگ الگ حرف بہ حرف پڑھا جاتا ہے اور جن کے معنی اللہ یا اس کے مخصوص بندے ہی جانتے ہیں جیسا کہ سورہ بقررہ اور سورہ آل ِعمران کے شروع میں "الم" موجود ہے جس کو "الیف۔ لام۔ میم" کر کے پڑھا جاتا ہے۔ لیکن سورہ فیل میں ایک مکمل لفظ " ألم " موجود ہے جسے ملا کر پڑھا جاتا ہے کیونکہ یہ عربی ذبان کا ایک عام لفظ ہے جس کے معنی ہیں 'کیا تم نے نہیں'۔ اہل ِ سنت کے عالم ِدین عثمان بن ابی شیبہ سورہ فیل میں موجود لفظ " ألم " کو سورہ بقرہ اور آل ِعمران والے "الیف۔ لام۔ میم" کی طرح پڑھتے تھے جو کہ کلام اللہ میں کُھلی تحریف ہے۔

عثمان بن ابی شیبہ کا سورہ یوسف میں تحریف کرنا

سورہ یوسف کی آیت نمبر 70 ہے:

فَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِي رَحْلِ۔ ۔ ۔

پھر امام ذہبی ایک اور روایت نقل کرتے ہیں:

 قاضی علی بن محمد بن کاس نے ابراہیم الخصاف سے روایت کی ہے کہ عثمان بن ابی شیبہ نے قرات کی: فلما جهزهم بجهازهم جعل السفينة ۔ اس پر ان لوگوں نے عثمان بن ابی شیبہ کو بتایا کہ یہ السفينة نہیں بلکہ السقاية ہونا چاہئے ۔ عثمان بن ابی شیبہ نے جواب دیا : "میں اور میرا بھائی عاصم کی قرات پر نہیں پڑھتے

نوٹ: عاصم وہ تھا جن کی قرات پر وہ لوگ پڑھا کرتے تھے۔

عثمان بن ابی شیبہ کے استعمال کردہ لفظ "السفينة" کے معنی جہاز یا کشتی کے ہیں جبکہ قرآن میں جو لفظ ہم پڑھتے ہیں اور جس کی یاد دہانی عثمان بن ابی شیبہ کے ساتھ پیٹھے لوگوں نے بھی دلائی وہ "السقاية" ہے یعنی سامان اسباب وغیرہ۔ ان دو مختلف الفاظ میں زمین آسمان کا فرق قارئین بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔
 
باب 7: حاصل ِمطالعہ

روایات جو کہ تحریف ِ قرآن کو ثابت کرتی ہیں شیعہ و سُنی دونوں کی کتب میں موجود ہیں اور دونوں ہی مسالک میں بعض احادیث صحیح کے درجہ کو پنہچی ہیں اس کے باوجود ان کو قرآن سے متصادم ہونے کی وجہ سے رد کر دیا جاتا ہے اور ہماری طویل گفتگو سے یہ بات ثابت ہوئی کہ شیعان ِعلی بن ابی طالب (ع) قرآن کے کامل ہونے پر ایمان رکھتے ہیں اور تحریف ِ قرآن کی روایات کو رد کرتے ہیں اور اس شیعہ عقیدہ کی تصدیق معتبر علماء ِ اہل ِ سنت نے بھی کی۔ امام ِاہل سنت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اپنی مشہور شیعہ مخالف کتاب "تحفہ اثنا عشری" میں لکھتے ہیں:

 امامیہ کی تمام روایات میں موجود ہے کہ تمام اہل ِ بیت اسی قرآن کو پڑھتے ۔ اسی کے عام خاص اور وجو ہ ِ نظم سے تمسک کرتے اور اس کو استشہاد میں پیش کرتے۔ اور انہی آیات کی تفسیر کرتے تھے۔ چنانچہ وہ تفسیر جو امام حسن عسکری کی طرف منسوب ہے اسی قرآن کی تو ہے۔ اس کا ایک ایک لفظ ملتا ہے۔ اور پھر اپنے بچوں، چھوکریوں ، خادموں ، اور اہل و عیال کو اسی قرآن کی تعلیم دیتے ۔اور نماز میں اس کو پڑھنے کا حکم دیتے۔ انہیں امور کے پیش ِ نظر شیخ ابن بابویہ اپنی کتاب "الاعتقادات " میں اس جھوٹے عقیدہ سے دست بردار ہوگیا۔
 تحفہ اثنا عشری، صفحہ 216 (اردو ایڈیشن، نور محمد کارخانہ تجارت کتب ، کراچی)

اس کے علاوہ دوسرے علماء ِاہل سنت نے بھی شیعہ عقیدہ ِعدم تحریف ِ قرآن کی تصدیق کی ہے جن میں شامل ہیں:

1۔ علامہ عبد الحق حقانی دہلوی ، کتاب "تفسیر ِ حقانی" ص 63 ، لاہور

2۔ امام ابو زہرہ مصری ، کتاب "الامام الصادق" ص 206 ، مصر

الحمد اللہ شیعہ و سُنی دونوں مسالک تحریف ِ قرآن کو ثابت کرنے والی روایات کو تسلیم نہیں کرتے اور ان میں صحیح احادیث کو تاویل ، تفسیر اور توجیہ پر حل کیا جاتا ہے لیکن وہ منافرت و تشدد پسند نواصب جو ہماری جانب سے تفسیر، تاویل و توجیہ کو رد کرتے ہیں اور ہم پر اپنی لغو سوچ مسلط کرتےرہتے ہیں (یعنی زبردستی شیعہ روایات کی بنیاد پر شیعوں کو تحریف ِ قرآن کا معتقد قرار دینا) انہیں بھی اپنی ان روایات کے لئے جو تحریف قرآن کو ثابت کرتی ہیں چاہے وہ جس درجہ کو بھی پہنچے تفسیر، تاویل و توجیہ پر حل کرنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ اسلام میں دوغلہ معیار ہر گز نہیں۔ تحریف ِ قرآن کو ثابت کرنے والی سُنی روایات کے تین باب اسی گروہ کے لئے ہیں۔

اور اگر ناصبیت نام کی گندی بیماری میں مبتلا لوگ اب بھی ہٹ دھرمی دکھاتے ہیں اور شیعو ں پر تحریف ِ قرآن کے معتقد ہونے کا الزام لگاتے ہیں تو ہم ان سے کھُلا مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان تمام صحابہ ، تابعین اور اپنے اُن علماء کو بھی اُس قانون و اصول کے مطابق جو انہوں نے شیعوں کے لئے وضح کیا ہے کافر و لعنتی قرار دیں جنہوں نے تحریف ِ قرآن کو ثابت کرنے والی روایات بیان کیں ، انہیں نقل کیا یا ان کی تصدیق کی۔

ان صحابہ اور تابعین کی فہرست جنہوں نے قرآن میں تحریف ہونے کی گواہی دی

1۔ حضرت عائشہ
2۔ حضرت حفصہ
3۔ حضرت عمر
4۔ عبد اللہ ابن عمر
5۔ حضرت عثمان
6۔ ابان بن عثمان
7۔ عبد اللہ ابن مسعود
8۔ حضرت ابن عباس (ر)
9۔ حضرت ابی بن کعب
10۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری
11۔ حضرت۔سعید بن جبیر
12۔ حضرت مجاہد

یہ ان صحابہ و تابعین میں سے جند کی فہرست ہے کہ جنہوں نے قرآن میں تحریف کو ثابت کرنے والی روایات نقل کیں۔

سُنی علماءکی فہرست جنہوں نے تحریف ِقرآن کو ثابت کرنے والی روایات نقل کیں یا ان کی تصدیق کی

1۔ علامہ جلال الدین سیوطی
2۔ امام بخاری
3۔ امام مسلم
4۔ ابو داود
5۔ نسائی
6۔ ابن ماجہ
7۔ ترمزی
8۔ امام حاکم
9۔ امام ذہبی
10۔ امام ابن حجر عسقلانی
11۔ بہقی
12۔ امام فخرالدین رازی
13۔ ابن جریر طبری
14۔ قرطبی
15۔ بغوی
16۔ شوکانی
17۔ امام ابو حنیفہ
18۔ امام مالک
19۔ امام انور شاہ کشمیری
20۔ ابی بکر سجستانی
21۔ ابن کثیر
22۔قاضی ثناء اللہ پانی پاتی

یہاں ہم ایک گندگی جسے ناصبی دنیا میں مولانا حافظ مہر محمد میاں والی کے نام سے جانا جاتا ہے اسکے الفاظ کو نقل کرنا چاہیں گے جو وہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے جو کہ انگریزی میں سپاہ صحابہ یعنی ھندہ حق چار یاری گروہ کی آفیشل ویب سائٹ پر
“THE JA'FARI FIQH AND MUSLIMS”
کے نام سے موجود ہے۔
Ansar.org states:
خمینی آج کے دور کے باقی شیعوں کی طرح یہ عقیدہ نہیں رکھتا کہ قرآن تبدیل کردیا گیا ہے۔ دوسری طرف وہ نوری طبرسی کو مرتد تسلیم نہیں کرتا، اس کی عزت کرتا ہے اور اپنی کتاب مکایت الفقہ الحکومت الالٰہیہ میں اُس سے نقل کرتاہے


 http://www.kr-hcy.com/statichtml/files/104285993825971.shtml

کیا ناصبی مہر میاں والی اور اس کے مسلک سے وابستہ لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ قرآن تبدیل کردیا گیا ہے؟ جبکہ ان کی کتابوں میں تحریف ِ قرآن کو ثابت کرنے والی احادیث کا پلوتھڑا موجود ہے۔ ان باتوں سے آخر مہر میاں والی کی مراد کیا ہے؟ اور کیا مہر میاں والی اور اس کی ناصبی برادری کے دیگر مُلاوں نے مندرجہ بالا 12 صحابہ و تابعین اور 20 علماء کو مرتد قرار دیا ؟ یا پھر ناصبی اصول (جس میں سامنے والی کی رائے سُنے بغیر فیصلہ کرلیا جاتا ہے) کو اپنا تے ہوئے انہیں خود بخود مرتد سمجھا جائے؟ اور کیا نواصب مذکورہ شخصیات کو کافر و مرتد قرار دینے کے بجائے ان کے عزت نہیں کرتے اور ان سے نقل نہیں کرتے؟

آخر ایسی چیز کا مطالبہ کیوں کیا جاتا ہے جو تم لوگ خود نہیں کرتے؟ سپاہ صحابہ ، وہابی و سلفی اور دیگر ناصبی برادری یہ سن لے کہ جب تک وہ مذکورہ شخصیات کو کافر و مرتد قرار نہیں دیدیتے تب تک انہیں شیعہ علماء کے خلاف اپنی زبانیں باہر نکالنے کا کوئی حق نہیں !

سپاہ صحابہ کا پہلا لیڈر حق نواز جھنگوی جسے واصل ِ جہنم ہوئے کافی عرصہ ہوا، ایک قدم اور آگے جاتا ہے اور شیعہ عالم کی عبارت کو اپنی مرضی کے مطابق سمجھ کر اپنی ایک تقریر میں مسلمانوں کے درمیان نفرت کچھ یوں ابھارتا ہے:
Ansar.org states:
کسی شیعہ نے اس مقبول حُسین پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا ۔۔۔ کسی شیعہ نے اس مقبول حُسین کو لعین نہیں کہا۔۔۔ تو پھر مجھے کہنے کا حق ہے۔۔۔ کہ ۔۔۔ شیعہ کائنات کا بدترین کافر ہے۔۔۔ ۔۔۔۔۔ یہ اس دھرتی کا ۔۔۔ سب سے بڑا کافر ہے۔۔۔ اس دھرتی کا ۔۔۔ سب سے بٹا دجال ہے۔۔۔ اس دھرتی کا سب سے بڑا لعین ہے۔۔۔ اس دھرتی کا سب سے بڑا ابلیس ہے۔۔۔اس کافر کے ۔۔۔ کفر پر ۔۔۔ پردہ ڈالنا ۔۔۔ اپنی آخرت برباد کردینے کے مترادف ہے


 http://kr-hcy.com/shia/quranindex.shtml

کیا یہ وکیل ِ یزید اپنی صحہ ستہ اور دیگر معتبر کتابیں پڑھتے وقت تحریف ِ قرآن کے ثابت کرنے والی احادیث نہ دکھا نے والا چشمہ ڈال لیا کرتا تھا؟ اور جب تحریف ِ قرآن کا ذکر کرنے والے اور ایسی روایات نقل کرنے والے علماء پر کفر و لعنت کا فتویٰ دینے کا وقت آتا تو کیا سانپ سونگھ جاتا تھا کیونکہ ہم نے تو آج تک اس کی کسی تقریر میں مذکورہ آقاوں میں سے کسی کو کافر اور لعنتی کہتے نہیں سنا۔ کیوں اس ابن یزید نے مذکورہ 22 علماء میں سے کسی کو کائنات کا بدترین کافر، دھرتی کا سب سے بڑا ابلیس اور سب سے بڑا لعین نہیں کہا ؟ اگر اُسے شیعہ علماء کو کافر و لعنتی کہنے کا حق ہے تو سپاہ صحابہ کے ناصبیوں کو کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے اگر ہم بھی مذکورہ شخصیات کے متعلق ایسے ہی کچھ حقوق محفوظ رکھیں۔ اگر مذہب ھندہ چار یاری کی نظر میں تحریف ِ قرآن کو ثابت کرنے والی روایات اور ان روایات کو نقل کرنے والے لوگوں پر پردہ ڈالنا اپنی آخرت خراب کرنے کے مترادف ہے تو ہم نے تو تین ابواب میں تفصیل کے ساتھ ایسی روایات اور ایسے اشخاص کے بارے میں تحریر کیا ہے لہٰذا اس معاملہ میں تو یزیدی سپاہ کو ہمیں سراھناچاہئے۔