شیعہ اورصحابہ(حصہ دوئم)۔ - Companian


باب نمبر 4: حضرت حجربن عدی (رض) اور دیگر صحابہ و شیعوں کا لرزہ خیز قتل ِعام


اس باب میں ہم ان صحابہ اور بےگناہ شیعہ مومنین و مومنات کے وحشیانہ و سفاکانہ قتل کا ذکر کرینگے جو معاویہ کی جلادی و درندگی کی بھینٹ صرف اس وجہ سے چڑھ گئے کہ یہ سب علی بن ابی طالب (ع) سے صرف قولاً نہیں بلکہ فعلا ً بھی محبت کرتے تھے اور منافقت کا رویہ اختیار کرنے پر راضی نہ تھے۔

صحابی ِرسول (ص) حضرت حجربن عدی (رض) کا تعارف

آج کل دیکھنے میں آرہا ہے کہ بعض نجس نواصب جو عام طور پر تو صحابہ صحابہ کی رٹ لگائے رہتے ہیں لیکن جب ان صحابہ کی بات آتی ہے جو علی بن ابی طالب (ع) سے محبت اور ان کے دشمنوں پر تبرا کرتے تھے، تو یہ نواصب ایسے صحابہ کو صحابہ ماننے سے ہی انکاری ہوجاتے ہیں۔ ایسی ہی کچھ کوشش حضرت حجر بن عدی الادبر الکندی (رض) کے متعلق بھی کی گئی ہے اور چند نواصب نے انہیں صحابہ کے بجائے تابعین میں شمار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسے بےغیرت و بے شرم نواصب کے لئے ہم ان کی کتابوں سے ہی حوالہ جات کی بوچھاڑ کرینگے اور ان کی زبانیں اس سلسلے میں انشاللہ ہمیشہ کے لئے بند کردینگے۔

امام ِاہل ِسنت ابن عبدالبر نے صحابہ کے متعلق لکھی گئی کتاب الاستیعاب فی تمیز الاصحاب، ج 1 ص 97 میں حضرت حجر بن عدی (رض) کو بھی شامل کیا ہے اور ان کے متعلق لکھا ہے:

كان حجر من فضلاء الصحابة
حجر فاضل صحابہ میں سے ایک تھے

امام ِاہل ِسنت ابن اثیر جزری نے صحابہ کی زندگیوں پرلکھی گئی کتاب اسد الغابہ فی معرفت الصحابہ، ج 1 ص 244 میں حضرت حجر بن عدی (رض) کو بھی شامل کیا ہے اور ان کے متعلق لکھا ہے:

كان من فضلاء الصحابة

وہ فاضل صحابہ میں سے ایک تھے

امام حاکم اپنی حدیث کی مشہور کتاب المستدراک، ج 3 ص 468 میں لکھتے ہیں:

ذكر مناقب حجر بن عدي رضى الله تعالى عنه وهو راهب أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم وذكر مقتله

حجر بن عدی رضی اللہ تعالی ٰ عنہ کے مناقب اور ان کے قتل کا ذکر جو اصحاب ِمحمد (ص) میں سے ہیں

ابن عساکر نے بیان کیا ہے کہ حضرت حجر بن عدی (رض) رسول اللہ (ص) سے ملے اور ابن عساکر کے اسی حوالے پر نواصب کے پسندیدہ امام ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 55 انحصار کیا ہے:

قال ابن عساكر‏:‏ وفد إلى النبي صلى الله عليه وسلم، وسمع علياً وعماراً وشراحيل بن مرة، ويقال‏:‏ شرحبيل بن مرة‏.

ابن عساکر کا قول ہےکہ حجر رسول اللہ (ص) کے پاس تشریف لائے اور انہوں نے علی، عمار، شراجیل بن مرۃ جو کہ اصل میں شجیل ہیں، سے احادیث سنیں۔

امام ِاہلِسنت کمال الدین عمر بن العدیم (متوفی 660 ھ) اپنی کتاب بغیت الطلب فی تاریخ الحلب، ج 2 ص 298 میں حضرت حجر بن عدی (رض) کے متعلق لکھتے ہیں:

وكان من أهل الكوفة، وفد على النبي صلى الله عليه وسلم، وحدث عن علي بن أبي طالب

وہ کوفہ کے لوگوں میں سے تھے، وہ رسول اللہ (ص) کے پاس بحیثیت سفیر تشریف لائے اور انہوں نے علی بن ابی طالب سے احادیث سنیں۔

امام ابن قتیبہ (متوفی 276 ھ) اپنی مشہور کتاب المعارف، ص 76 میں ضرت حجر بن عدی (رض) کے متعلق لکھتے ہیں:

 وفد إلى النبي صلى الله عليه وسلم وأسلم وشهد القادسية وشهد الجمل وصفين مع علي، فقتله معاوية بمرج غدراء مع عدة

وہ رسول اللہ (ص) کے پاس بحیثیت سفیر تشریف لائے اور السلا م قبول کرلیا، انہوں نے قادسیہ کی جنگ میں حصہ لیا پھر انہوں نے علی کے ہمراہ جنگ جمل اور صفین میں حصہ لیا پھر معاویہ نے انہیں ان کے ساتھیوں سمیت عذراء میں قتل کردیا۔

اے رسول اللہ (ص) کے نیک صحابی، تمام شیعوں کی جانیں آپ پر قربان، آپ کے قاتل پر اللہ کی لعنت!

صحابہ کے کرامات کا ذکر کرتے ہوئے علام حبت اللہ للکائی الشافعی (متوفی 418 ھ) اپنی کتاب شرح اصول اعتقاد اہل سنہ، ج 17 ص 18 لکھتے ہیں:

ما روي من كرامات حجر بن عدي أو قيس بن مكشوح في جماعة أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم

ہم نے رسول اللہ (ص) کے صحابہ میں سے حجر بن عدی اور قیس بن مکشوح کے کرامات بیان کیئے ہیں۔

اور اگر، اب بھی کوئی شک و شبہ باقی رہ گیا ہو تو اہل ِسنت میں علم الرجال میں امیر المومنین تسلیم کئے جانے والے امام زھبی کے الفاظ بیان کئے دیتے ہیں جو انہوں نے اپنی کتاب سیراعلام النبلاء، ج 3 ص 463 میں حضرت حجر بن عدی (رض) کے متعلق بیان کیئے ہیں:

وہ صحابی اور سفیر تھے


حضرت حجربن عدی (رض) کے قاتلوں پر اللہ کا غضب

ملا متقی ھندی نے اپنے احادیث کے کثیر مجموعہ کی کتاب کنزالعمال، ج 13 ص 531 حدیث 36530 جبکہ امام بھقی نے دلائل النبوہ، ج 6 ص 456 میں نقل کیا ہے:

حضرت علی نے کہا کہ اے اہل ِکوفہ، تم میں سے سات بہترین لوگ قتل کردیئے جایئنگے جن کی مثل اصحاب الخدور کی سی ہے۔ حجربن الادبر اور ان کے ساتھی بھی انہی لوگوں میں سے ہیں اور جو کہ اہل ِکوفہ میں سے ہیں، معاویہ نے ان لوگوں کو دمشق کے مضافاتی علاقے عذراء میں قتل کردیا تھا۔

کنزالعمال، ج 13 ص 556 حدیث 37510 میں ہم پڑھتے ہیں:

ابی الاسود نے کہا کہ معاویہ حضرت عائشہ کے پاس گیا تو حضرت عائشہ نے پوچھا کہ تم نے اہل ِعذراء حجر اور ان کے ساتھیوں کو قیل کیوں کیا؟ معاویہ نے جواب دیا، اے ام المومنین، میں نے دیکھا کہ ان کے موت سے امت کی بھلائی ہورہی تھی اور ان کی زندگی سے امت میں فساد۔ حضرت عائشہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ (ص) سے سنا ہے کہ عذراء میں کچھ لوگوں کا قتل ہوگا جس پر اللہ اور اہل ِسماء اس پر غضب ناک ہوجاینگے۔

صحابیِ ِرسول حضرت حجر بن عدی (رض) کے ملعون قاتلوں پر اللہ کا غضب بیشک ہو اور انہیں کروٹ کروٹ اس غضب کا سامنا کرنا پڑے۔

کنزالعمال، ج 13 ص 556 حدیث 37511 میں ہم پڑھتے ہیں:

سعید بن ابی ہلال نے بیان کیا ہے کہ معاویہ حج کے لئے گیا اور حضرت عائشہ کے پاس تشریف لے گیا تو حضرت عائشہ نے اس سے کہا کہ اے معاویہ، تم نے حجر بن الادبر اور ان کے ساتھیوں کو قتل کردیا۔ اللہ کی قسم کہ میں نے سنا ہے کہ کچھ لوگ عذراء میں قتل کیئے جائینگے جس پر اللہ اور اہل ِسماء غضب ناک ہوجانیئگے۔

کنزالعمال، ج 10 حدیث 30887 میں ہم پڑھتے ہیں:

حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ عذراء میں سات لوگوں کا قتل ہوگا اللہ اور اہل ِسماء اس پر غضب ناک ہوجائینگے۔

امام بھقی نے اپنی کتاب دلائل النبوہ میں باب یہ اس عبارت سے باندھا ہے:

 باب ما روى في إخباره بقتل نفر من المسلمين ظلما بعذراء من أرض الشام فكان كما أخبر صلى الله عليه وسلم

بعض نواصب اپنے اصل یعنی معاویہ کو صحابی ِرسول جناب حجر بن عدی (رض) کے سفاکانہ قتل کے جرم سے بچانے کی غرض سے ایک کوشش یہ بھی کرتے ہیں کہ وہ مندرجہ بالا روایات کی صحت پر شکوک و شبہات کریں لیکن ان کے لئے عرض ہے کہ امام بھقی نے ان روایات کو صحیح تسلیم کیا اور یہی وجہ ہے کہ انہی روایات کی بنیاد پر انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا:

علي رضي الله عنه لا يقول مثل هذا إلا بأن يكون سمعه من رسول الله

میں کہتا ہوں کہ علی (رض) نے ایسی بات کبھی نہ کہی ہوتی اگر انہوں نے خود رسول اللہ سے یہ نہ سنا ہوتا


حضرت حجربن عدی (رض) کے قتل کا احوال

امام ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب اصابہ فی تمیز الصحابہ، ج 1 ص 313 ترجمہ نمبر 1631 میں رقمطراز ہیں:

وأن حجر بن عدي شهد القادسية وأنه شهد بعد ذلك الجمل وصفين وصحب عليا فكان من شيعته وقتل بمرج عذراء بأمر معاوية

غزوہ قادسیہ کے بعد حجر بن عدی نے علی کے ساتھ ان کے شیعہ کی حیثیت سے جنگ جمل اور جنگ صفین میں حصہ لیا۔ ان کو معاویہ کے حکم پر عذراء کے مقام پر قتل کردیا گیا۔

اسی طرح اسدالغابہ، ج 1 ص 244 میں ہم پڑھتے ہیں:

فأنزل هو وأصحابه عذراء وهي قرية عند دمشق فأمر معاوية بقتلهم

حضر اور ان کے ساتھیوں کے گرفتار کر کے عذراء کے پاس ایک خندق میں لے جایا گیا جو دمشق کے پاس تھا۔ معاویہ نے حکم دیا کے حجر اور ان کے ساتھیوں کو اس خندق میں قتل کردیا جائے۔

ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 53 میں لکھا ہے:

أن معاوية جعل يفرغر بالموت وهو يقول إن يومى بك يا حجر بن عدى لطويل قالها ثلاثا

جب معاویہ کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے تین مرتبہ اپنے آپ سے کہا کہ اے حجر بن عدی، تیرے قتل کا جواب دینے کا دن بہت ہی طویل ہے

معاویہ نے اپنے باپ کی ناجائز اولاد یعنی زیاد کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا اور جیسا کہ پچھلے باب میں گزر چکا ہے، معاویہ کے حکم پر اس کے تمام گورنر منبروں سے علی بن ابی طالب (ع) کو گالیاں دیتے اور لعن طعن کرتے۔ حضرت حجر بن عدی (رض) نہایت باغیرت و باوفاء صحابی اور محب ِاہل ِبیت (ع) تھے جن سے مساجد میں اپنے سامنے علی بن ابی طالب (ع) کی توہین برادشت نہیں ہوتی تھی ۔ نطفہ ِنا تحقیق زیاد نے اس بات کی شکایت معاویہ کو لکھ بھیجی جس نے یہ حکم دیا کہ حضرت حجر بن عدی (رض) اور ان کے ساتھیوں کو اس کے پاس بھیج دیا جائے لیکن راستے میں معاویہ کے حکم پر ان تمام حضرات کو شہید کردیا گیا۔ جیسا کہ آج کے دور کے سلفی عالم ِدین حسن بن فرحان المالکی نے اپنی کتاب 'قراء ۃ فی کتاب العقائد' ص 170 پر اس بات کا اقرار کیا ہے:

إذ لجأ بنو أمية إلى الفتك بمحبي أهل البيت وإذلالهم. فقتلوا حجر بن عدي صبراً في عهد معاوية لأنه أنكر سب علي على المنابر

بنی امیہ نے محبان ِاہل ِبیت کو قتل کیا اور ان کی توہین کی اور حجر بن عدی کو بےدردی سے معاویہ کے دور میں قتل کردیا گیا اس وجہ سے کہ وہ حکمرانوں کی جانب سے منبروں پر سے علی پر لعنت کرنے کے عمل کی مخالفت کرتے تھے۔

اے، باوفاء صحابی ِرسول حجر بن عدی! آپ کی عظمت کو سلام۔ آپ کے جوتوں کی دھول تمام شیعوں کے آنکھ کا سرما بننے کے قابل ہے اور اللہ نے ایک قوم رکھی ہے، جو آپ کے قاتلوں پر آج بھی دنیا بھر میں لعنت برساتی اور آپ جیسے نیک و باوفاء صحابہ ِکرام کی عظمت کو سلام کرتی ہے!


کیا حضرت حجربن عدی (رض) فتنہ انگیز تھے؟

آج کل کے نواصب اپنی جماعت کے بانی راہنماؤں کو بچانے کی کوشش میں یہ بھی کہہ بیٹھتے ہیں کہ حجربن عدی تو فتنہ انگیزی کررہے تھے اسی لئے ان کے باپ دادا معاویہ کو انہیں قتل کردینا پڑا۔ ایسی ہی ایک کوشش نواصب میں مشہور ویب سائٹ نے Ansar.org کی ہے۔


جواب نمبر 1: یہ ایک باوفاء صحابی ِرسول پر بہتان ہے

حضرت حجر بن عدی (رض) کو فتنہ انگیزی کا ارتکاب کرنے کی بات کرنا ان پر سراسر بہتان ہے اور اس بات کا سرے سے کوئی ثبوت ہی موجود نہیں۔ مولانا مودودی نے کتاب خلافت و ملوکیت، ص 164-165 میں پورا احوال یوں پیش کیا ہے:

اس نئی پالیسی کی ابتداء حضرت معاویہ کے زمانہ میں حضرت حُجر بن عدی کے قتل 51 ہجری سے ہوئی جو ایک زاہد و عابد صحابی اور صلحائے امت میں ایک اونچے مرتبے کے شخص تھے۔ حضرت معاویہ کے زمانے میں جب منبروں پر خطبوں میں علانیہ حضرت علیؓ پر لعنت اور سب و شتم کا سلسلہ شروع ہوا تو عام مسلمانوں کے دل ہر جگہ ہی اس سے زخمی ہو رہے تھے مگر لوگ خون کا گھونٹ پی کر خاموش ہو جاتے تھے۔ کوفہ میں حُجر بن عدی سے صبر نہ ہو سکا اور انہوں نے جواب میں حضرت علیؓ کی تعریف اور حضرت معاویہ کی مذمت شروع کر دی۔ حضرت مغیرہؓ جب تک کوفہ کے گورنر رہے وہ ان کے ساتھ رعایت برتتے رہے۔ ان کے بعد جب زیاد کی گورنری میں بصرہ کے ساتھ کوفہ بھی شامل ہو گیا تو اُس کے اور ان کے درمیان کشمکش برپا ہو گئی۔ وہ خطبے میں حضرت علیؓ کو گالیاں دیتا تھا اور یہ اُٹھ کر اس کا جواب دینے لگتے تھے۔ اسی دوران میں ایک مرتبہ انہوں نے نماز جمعہ میں تاخیر پر بھی اُس کو ٹوکا۔ آخر کار اس نے انہیں اور ان کے بارہ ساتھیوں کو گرفتار کر لیا اور ان کے خلاف بہت سے لوگوں کی شہادتیں اِس فرد جُرم پر لیں کہ ’’انہوں نے ایک جتھا بنا لیا ہے، خلیفہ کو علانیہ گالیاں دیتے ہیں ، امیر المومنین کے خلاف لڑنے کی دعوت دیتے ہیں، ان کا دعوی یہ ہے کہ خلافت آل ابی طالب کے سوا کسی کے لئے درست نہیں ہے ، انہوں نے شہر میں فساد برپا کیا اور امیر المومنین کے عامل کو نکال باہر کیا، یہ ابوتُراب و حضرت علیؓ کی حمایت کرتے ہیں ، اُن پر رحمت بھیجتے ہیں اور اُن کے مخالفین سے اظہارِ برائت کرتے ہیں ۔‘‘ ان گواہیوں میں سے ایک گواہی قاضی شُریح کی بھی ثبت کی گئی ، مگر انہوں نے ایک الگ خط میں حضرت معاویہ کو لکھ بھیجا کہ میں نے سُنا ہے آپ کے پاس حُجر بن عدی کے خلاف جو شہادتیں بھیجی گئی ہیں ان میں ایک میری شہادت بھی ہے۔ میری اصل شہادت حجر کے متعلق یہ ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں ، زکواۃ دیتے ہیں ، دائما حج و عمرہ کرتے رہتے ہیں ، نیکی کا حکم دیتے اور بدی سے روکتے ہیں۔ ان کا خون اور مال حرام ہے۔ آپ چاہیں تو انہیں قتل کریں ورنہ معاف کر دیں۔

اِس طرح یہ ملزم حضرت معاویہ کے پاس بھیجے گئے اور انہوں نے ان کے قتل کا حکم دے دیا۔ قتل سے پہلے جلادوں نے ان کے سامنے جو بات پیش کی وہ یہ تھی کہ ’’ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ اگر تم علیؓ سے برا ئت کا اظہار کرو اور ان پر لعنت بھیجو تو تمہیں چھوڑ دیا جائے ورنہ قتل کردیا جائے۔‘‘ ان لوگوں نے یہ بات ماننے سے انکار کر دیا اور حُجر نے کہا’’ میں زبان سے وہ بات نہیں نکال سکتا جو رب کو ناراض کرے۔‘‘ آخر کار وہ اور ان کے سات ساتھی قتل کر دئیے گئے۔ ان میں سے ایک صاحب عبد الرحمن بن حسان کو حضرت معاویہ نے زیاد کے پاس واپس بھیج دیا اور اس کو لکھا کہ انہیں بدترین طریقہ سے قتل کرو چنانچہ اس نے انہیں زندہ دفن کرادیا۔
(تاریخ طبری، ج 4، صفحہ 190 تا 208۔
الاستیعاب ، ابن عبد البر ، ج 1، صفحہ 135
تاریخ ابن اثیر، ج 3، صفحہ 234 تا 42۔
البدایہ والنہایہ ، ابن کثیر، ج 8، صفحہ 50 تا 5۔
ابن خلدون، ج 3۳، صفحہ 13)۔
 خلافت و ملوکیت، ص 164-165

جواب نمبر 2: امام حسن بصری کا حجر بن عدی کی ثناء اور ان کے قتل پر معاویہ کی ملامت کرنا

مشہور و معروف تابعی اور سنی فقہ میں امام کی حیثیت رکھنے والے جناب حسن بصری کی حضرت حجر بن عدی (رض) کے متعلق رائے اہم سنی کتاب تاریخ ابن وردی، ج 1 ص 255:

زیاد نے علی پر لعنت کی جیسا کہ یہ اس وقت کی روایت تھی۔ یہ سننے پر حجر بن عدی اٹھ کھڑے ہوئے اور حضرت علی کی ثناء کی جس پر زیاد نے انہیں زنجیروں میں بندھوا کر معاویہ کے پاس بھیج دیا۔

حاشیہ: اور ابن جوزی نے بھی یہی روایت کی ہے حسن بن بصری سے۔۔۔کہ معاویہ نے حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کو کو قتل کیا اور حجر بڑے لوگوں میں سے تھے۔

ناصبیوں کا امام ابن کثیر البدایہ والبہایہ، ج 8 ص 973 (نفیس اکیڈمی کراچی) میں لکھتا ہے:

حضرت حسن بصری سے روایت کی گئی ہے کہ آپ حضرت معاویہ کو چار باتوں پر ملامت کرتے تھے، علی سے جنگ کرنے پر، حضرت حجر بن عدی کے قتل کرنے پر، زیاد بن امیہ کے استحقاق پر اور اپنے بیٹے یزید کی بیعت لینے پر۔
 البدایہ والبہایہ، ج 8 ص 973 (نفیس اکیڈمی کراچی)۔

جواب نمبر 3: امام ابن سیریں کا حجر بن عدی کی ثناء کرنا

امام ِ اہل ِسنت محمد بن سیریں (متوفی 110 ھ) نے حضرت حجر بن عدی (رض) کے متعلق جو کہا ہے وہ اسدالغابہ، ج 1 ص 245 میں یوں درج ہے:

وسئل محمد بن سيرين عن الركعتين عند القتل، فقال‏:‏ صلاهما خبيب وحجر، وهما فاضلان، وكان الحسن البصري يعظم قتل حجر وأصحابه‏.‏

کسی نے محمد بن سیریں سے اس دو رکعت نماز کے متعلق سوال کیا جو قتل ہونے سے قبل پڑھی جائے جس پر انہوں نے جواب دیا کہ خبیب اور حجر نے اسی طرح نماز ادا کی تھی اور وہ دونوں فاضل تھے اور حسن بصری نے بھی حجر اور ان کے ساتھیوں کے قتل کی مزمت کی ہے۔

جواب نمبر 4: امام زھبی، امام ابن حبان اور ابن عساکر کی گواہیاں کہ حجر نیک و پرہیزگار شخص تھے

ناصبیت کی نجاست کی انتہاء ہے کہ جب ان کے اپنے پیشوا کی شامت آئی تو انہوں نے اسے بچانے کی غرض سے ایک باوفاء صحابی پر یہ الزام دھر دیا۔ لیکن نواصب کو باوفاء صحابہ سے کیا غرض! خیر، ہم جناب حجربن عدی (رض) کا کردار اہل ِسنت کے آئمہ کی زبانی ہی پیش کیئے دیتے ہیں۔ امام عبدالرؤف المناوی کتاب فیض القدیر شرح جامع صغیر، حدیث 4765 میں حافظ ابن عساکر کے الفاظ پر انحصار کرتے ہیں:

ابن عساكر في تاريخه عن أبي معشر وغيره‏:‏ كان حجر عابداً ولم يحدث قط إلا توضأ ولا توضأ إلا صلى

ابن عساکر نے اپنی کتاب میں ابی معشر اور دیگر سے روایت کی ہے کہ حجر عبادت گزار تھے، اگر ان پر کوئی نجاست مسخ ہوجاتی تو وہ فوراً ہی وضو بجالاتے اور جب بھی وضو بجالاتے تو نماز ضرور ادا کرتے۔

امام ذھبی اپنی کتاب سیراعلام النبلاء، ج 3 ص 462 میں لکھتے ہیں:

وكان شريفا أميرا مطاعا أمارا بالمعروف مقدما على الأنكار من شيعة علي رضي الله عنه شهد صفين أميرا وكان ذا صلاح وتعبد

وہ ایک شریف شخص تھے، با اختیار کمانڈر تھے۔ امر بلمعروف (یعنی اچھائی کے کام بجالاتے)، وہ شیعان ِعلی (رض) سے تھے، انہوں نے جنگ صفین میں کمانڈر کی حیثیت سے حصہ لیا۔ وہ عبادت گزار اور نیک انسان تھے۔

اگرچہ امام ابن حبان نے اپنی کتاب مشاھیر علماء الامصار، ص 144 میں حجر بن عدی کو تابعین میں شمار کردیا ہے لیکن ان کے عبادت گزار ہونے کی تصدیق کی ہے۔

من عباد التابعين ممن شهد صفين مع علي بن أبي طالب

وہ عبادت گزار تابعین میں سے تھے اور انہوں نے علی بن ابی طالب کے ساتھ جنگ صفین میں حصہ لیا۔

جواب نمبر 5: حضرت ابو بکر و عمر کے خاندانوں کا حجر کے قتل کی مذمت کرنا ثبوت ہے کہ وہ فتنہ انگیز نہ تھے

ناصبی عالم ِدین ابن خلدون نے اپنی تاریخ، ج 2 ص 12 میں لکھا ہے:

أرسلت عبد الرحمن بن الحرث إلى معاوية يشفع فيهم ۔۔۔ أسفت عائشة لقتل حجر و كانت تثني

حضرت عائشہ نے عبدالرحمان بن الحرث کو حجر کے بچانے کے لئے بھیجا ۔۔۔ ان کے قتل کے بعد حضرت عائشہ نے افسوس کا اظہار کیا اور وہ حجر کی بہت ثناء کیا کرتی تھیں

الاصابہ میں تحریر ہے کہ جب معاویہ مدینہ آیا تو حضرت عائشہ نے معاویہ سے جو پہلا سوال کیا وہ جناب حجر بن عدی کے قتل کا تھا۔ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 55 میں 51 ہجری کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:

مروان نے بیان کیا ہے کہ میں معاویہ کے ہمراہ حضرت عائشہ کے پاس گیا تو حضرت عائشہ نے کہا کہ اے معاویہ، تو نے حجر اور ان کے ساتھیوں کو قتل کرڈالا، تو نے جو کرنا تھا وہ تو توُ کر چکا لیکن میرے پاس آنے سے قبل تجھے اس بات کا خوف نہیں تھا کہ میں ایک آدمی کو چھپا کر رکھ سکتی ہوں تجھے قتل کرنے کی غرض سے۔

پھر ابن کثیر نے لکھا ہے:

ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت عائشہ نے معاویہ سے پردہ کرلیا اور کہا کہ آئندہ کبھی میرے پاس نہ آنا۔

پھر ابن کثیر نے لکھا ہے:

ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ معاویہ کو دھمکی دیتیں اور اس سے کہتیں: اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ یہ احمق لوگ ہمارے اوپر فتح حاصل کرلینگے تو میرے اور معاویہ کے درمیان حجرکے قتل کے معاملہ پر تنازع ہوجاتا۔

حضرت ابو بکر کے خاندان کا حضرت حجر بن عدی (رض) کے ناحق قتل پر اظہار ِ افسوس و مذمت تو دیکھ لیا اب آئیے خاندان ِخطابی کے چشم و چراغ عبداللہ بن عمر کا کتاب الاستعیاب، ج 1 ص 97 میں:

كان ابن عمر في السوق فنعي إليه حجر فأطلق حبوته وقام وقد غلب عليه النحيب

ابن عمر بزار میں موجود تھے جب انہیں حجر کے قتل کی خبر ملی تو انہوں نے اپنی چادر پھینک دی اور بے ساختہ چیخ اٹھے۔

جواب نمبر 6: صحابہ کی نظر میں حضرت حجر کے قاتل لعنت کے مستحق ہیں

قاضی ابو بکر العربی (متوفی 543 ھ) اپنی مشہور کتاب العواصم من القواصم، ص 341 میں زیاد کے متعلق صحابہ ِکرام کی آراء کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:

فإن قيل : فلم أنكر عليه الصحابة ؟

اگر یہ سوال کیا جائے: صحابہ زیاد پر تنقید کیوں کرتے تھے؟

پھر اسی بات کو اگے بڑھاتے ہوئے کتاب کا حاشیہ تحریر کرنے والے علامہ محب الدین الخطیب (متوفی 1389 ھ) لکھتے ہیں:

إنما لعنه من لعنة لوجهين ۔۔۔ وكان زياد أهلاً ان يلعن – عندهم – لما حدث بعد استلحق معاوية ۔۔۔ وأهم ذلك – عندهم تسببه في قتل حجر بن عدى

جن صحابہ نے زیاد پر لعنت کی تو وہ دو وجوہات کی بنا پر۔۔۔صحابہ کے مطابق زیاد لعنت کا مستحق ان حرکات کی بنا پر بنا جو اس نے معاویہ کے ساتھ ملنے کے بعد انجام دیئے ۔۔۔ اور اس سلسلے میں سب سے اہم وجہ حجر بن عدی کے قتل میں زیاد کا کردار تھا۔

جواب نمبر 7: حضرت حجر کے ناحق قتل پر معاویہ کا ایک ناصبی ساتھی بھی غم زدہ ہوگیا

حضرت حجر بن عدی (رض) کا دردناک قتل ایسا فعل تھا کہ معاویہ کے باقی ناصبی ساتھیوں میں سے ایک ربیع بن زیاد کا بغض ِعلی سے بھرا دل بھی ہل کر رہ گیا۔ امام ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب تھذیب التھذیب، ج 3 ص 211 ترجمہ نمبر 469 میں ربیع بن زیاد کے متعلق لکھتے ہیں:

 وہ خراسان میں معاویہ کا ملازم تھا اور حسن البصری اس کے کاتب تھے۔ جب اس نے حجر اور ان کے ساتھیوں کے قتل کے متعلق سنا تو اس نے کہا کہ اے اللہ، اگر تیرے پاس ربیع کے لئے کچھ اچھا ہے تو اسے اسی وقت بلالے۔ چنانچہ اسی مجلس میں اس کی موت ہوگئی۔ حجر اور ان کے ساتھیوں کا قتل 51 ہجری میں ہوا۔

امام ابن اثیر نے اسدالغابہ، ج 1 ص 245 میں بھی اسی طرح لکھا ہے:

ولما بلغ الربيع بن زياد الحارثي، وكان عاملاً لمعاوية على خراسان، قتل حجر، دعا الله عز وجل وقال‏:‏ اللهم إن كان للربيع عندك خير فاقبضه إليك وعجل، فلم يبرح من مجلسه حتى مات‏.‏

جب حجر اور ان کے ساتھیوں کے قتل کی خبر ربیع بن زیاد الحارثی کو ملی جو خراسان میں معاویہ کا ملازم تھا، تو اس نے کہا کہ اے اللہ، اگر تیرے پاس ربیع کے لئے کچھ اچھا ہے تو اسے اسی وقت بلالے۔ چنانچہ اس نے وہ مجلس نہ چھوڑی حتیٰ کہ اس کی موت ہوگئی۔

امام ابن حجر عسقلانی اپنی دوسری کتاب تقریب التھذیب، ص 206 ترجمہ نمبر 1890 میں ربیع بن زیاد کے متعلق لکھتے ہیں:

الربيع ابن زياد الحارثي البصري مخضرم [وقيل له صحبة، وذكره ابن حبان في ثقات التابعين] من الثانية ذكر صاحب الكمال أنه أبو فراس الذي روى عن عمر ابن الخطاب ورد ذلك المزي د س

ربیع بن زیاد الحارثی البصری [قول ہے کہ وہ صحابی تھے اور ابن حبان نے ان کا ذکر کتاب ثقات التابعین میں کیا ہے] دوسرا یہ کہ کتاب الکمال کے مصنف نے لکھا ہے کہ ان کا اصل نام ابو فراس ہے جنہوں نے عمر بن خطاب سے روایت کی ہے۔

جواب نمبر 8: سنی آئمہ کا فیصلہ کہ حجر شہید ہوئے ہیں اور ان کے لئے رضی اللہ تعالی ٰ عنہ کا استعمال ثبوت ہے کہ وہ نیک صحابہ تھے ناکہ باغی

امام ِاہل ِسنت محمد بن احمد سرخسی (متوفی 483 ھ) جن کا لقب شمس الائمہ ہے، سنی مسلک میں فقہ پر لکھی گئی اہم کتابوں میں سے ایک المبسوط، ج 6 ص 138 میں لکھتے ہیں:

ويصنع بقتلى أهل العدل ما يصنع بالشهيد فلا يغسلون ويصلى عليهم هكذا فعل علي - رضي الله عنه - بمن قتل من أصحابه وبه أوصى عمار بن ياسر وحجر بن عدي وزيد بن صوحان - رضي الله عنهم - حين استشهدوا

اہل ِعدل میں سے قتل ہونے والوں کی میتوں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے وہ وہی ہونا چاہیئے جو شہیدوں کے ساتھ کیا جاتا ہے یعنی ان کو غسل دیئے بغیر ہی ان کی نماز ِجنازہ پڑھنی چاہیئے، یہی وہ عمل ہے جو علی (رض) اس کے صحابہ میں سے قتل ہوجانے والوں کے ساتھ کیا کرتے تھے اور یہی عمل عمار یاسر، حجر بن عدی اور زید بن صوحان - اللہ ان تمام سے راضی ہو- وقت ِشہادت وصیت کے ذریعے کرنے کا لکھ گئے تھے۔

جواب نمبر 9: رسول اللہ (ص) کی پیشن گوئی کہ حضرت مالک بن اشتر (رح) اور حضرت حجر بن عدی (رض) مومنین سے ہیں

امام ابن سعد نقل کرتے ہیں:

ابراہیم بن الاشتر نے اپنے والد سے روایت کی کہ جب ابوذر کی وفات کا وقت آیا تو انکی بیوی رونے لگیں، انہوں نے پوچھا کہ تمہیں کیا چیز رلاتی ہے۔ کہنے لگیں کہ میں اس لئے روتی ہوں کہ تمہارے دفن کی مجھے طاقت نہیں ، نہ میرے پاس کوئی ایسا کپڑا ہے جو کفن کے لئے کافی ہو۔ انہوں نے کہا روؤ نہیں ، میں نے رسول اللہ (ص) کو ایک جماعت سے جن میں میں بھی شامل تھا، فرماتے سنا کہ ضرور ضرور تم میں سے ایک شخص بیابان میں مرے گا جس کے پاس مومنین کی ایک جماعت آئیگی ۔ میں وہی شخص ہوں جو بیابان میں ہوتا ہے۔ واللہ نہ میں نے جھوٹ کہا اور نہ مجھ سے جھوٹ کہا گیا لہٰذا راستہ دیکھو۔ انہوں نے کہا کہ یہ کیسے ہوگا حاجی بھی تو چلے گئے اور راستے طے ہو گئے۔
وہ ایک ٹیلے پر جاتیں کھڑی ہو کر دیکھتیں پھر واپس آکر انکی تیمارداری کرتیں اور ٹیلے کی طرف اسی حالت میں تھیں کہ انہیں ایک قوم نظر آئی جن کی سواریاں انہیں اس طرح لئے جا رہی تھیں کہ گویا چمر گدھ ہیں، چادر ہلائی تو وہ لوگ آئے اور ان کے پاس رک گئے اور پوچھا کہ تمہیں کیا ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ایک مسلمان کی وفات ہوئی ہے ، تم لوگ اسے کفن دو۔ پوچھا وہ کون ہے ، انہوں نے کہا ، ابو ذر ہیں، کہنے لگے کہ ان پر ہمارے ماں باپ فدا ہوں۔۔۔۔۔۔۔
قوم ان اوصاف میں سے کسی نہ کسی کی حامل تھی، سوائے ایک نوجوان انصاری ، جس نے کہا کہ میں آپ کو کفن دونگاکیونکہ آپ نے جو بیان کیا میں نے اس میں سے کچھ نہیں پایا۔ میں آپ کو اس چادر میں کفن دونگا جو میرے بدن پر اور ان چادروں میں سے جو میرے صندوق میں تھی اور انہوں نے میرے لئے بُنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ تم مجھے کفن دینا۔ راوی نے کہا کہ انہیں اس انصاری نے کفن دیا جو اس جماعت میں تھے اور ان کے پاس حاضر ہوئے۔ انہیں میں حجر بن الابرد اور مالک الاشتر بھی ایک جماعت کے ساتھ ، یہ سب کے سب یمنی تھے۔
 طبقات ابن سعد ، ج 2، صفحہ 401401-402، دارالاشاعت کراچی

جواب نمبر 10: فتنہ انگیزی علی بن ابی طالب (ع) کو منبروں سے گالیاں دینے کا عمل تھا ناکہ اس کے خلاف آواز اٹھانے کا

حضرت حجر بن عدی (رض) جیسے باکردار و باوفاء صحابی کو فتنہ انگیز کہنے والوں، فتنہ انگیزی وہ تھی جو تمہارے باب دادا معاویہ نے تمہارے چہتے خلیفہ راشد کو منبروں سے گالیوں اور لعنتوں کی شکل میں جاری کی تھی نا کہ اس وقت کے خبیثوں کی جاری کردہ اس مکروہ بدعت کے خلاف کلمہ ِحق بلند کرنا۔

حضرت حجر بن عدی (رض) کے متعلق اس باب میں ہم اپنی گفتگو کو دار العلوم قادریہ جیلانیہ لندن کے مفتی غلام رسول کے الفاظ پر کرتے ہیں جو انہوں نے اپنی کتاب صبح الصادق، ص 93-94 میں لکھے ہیں:

حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے قتل کا یہ واقعہ 51 ہجری میں ہوا۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی ساری رحمتیں نازل فرمائے کہ انہوں نے اپنی جانوں کو حضرت علی شیر خدا کی عزت پر قربان کر دیا ان کو شامی جلادوں نے کہا تھا کہ تمہاری جانیں صرف اور صرف اس صورت میں بچ سکتی ہیں کہ تم حضرت علی شیر خدا کو سب و شتم کرو۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم کبھی ایسا نہیں کریں گے جس سے خدا ناراض ہو۔ حضرت حجر بن عدی اور آپ کے ساتھی جانتے تھے کہ تمام حق حضرت علی شیر خدا کے ساتھ ہے اور آپ ہی من کنت مولا ہ فعلی مولا ہ ہیں اور آپ بمنزلہ ہارون ہیں اور رسول خدا کے دنیا اور آخرت میں بھائی ہیں اور ان کے حق میں 300 آیات قرآنیہ نازل ہوئی ہیں اور علی ہی قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی کے ساتھ ہے اور علی کے چہرہ کی طرف دیکھنا عبادت ہے اور علی شیر خدا کے ساتھ بغض و عداوت رکھنا کفر ہے اور ان سے برائت کرنا یا بیزاری کا اظہار کرنا صریح بے دینی ہے اور ان کے ساتھ محبت و عقیدت رکھنا عین ایمان ہے اور اور حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمان ان کے سامنے تھا کہ علی کے ساتھ محبت مومن رکھتا ہے اور علی کے ساتھ بغض منافق رکھتا ہے ۔ ان تمام باتوں کے جاننے کے باوجود حضرت حجر بن عدی اور ان کے ساتھی حضرت مولیٰ شیر خدا سے بیزاری کا اظہار کیسے کر سکتے تھے لہٰذا حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں نے بخوشی موت کو قبول کیا اور حضرت شیر خدا کی عزت و عظمت پر اپنی پیاری جانوں کو قربان کر دیا
 صبح الصادق، ص 93-94 (لندن)۔


معاویہ کا مالک بن اشتر (رح) کو قتل کرنا

اس سلسلے میں ہم مندرجہ ذیل اہل ِسنت کی کتابوں پر انحصار کرتے ہیں:

1۔ تاریخ طبری (انگریزی) ج 18 ص 144-146
2۔ تذکرۃ الخواص، ص 64
3۔ تاریخ ابن خلدون، ج 2 ص 191
4۔ تاریخ کامل، ج 3 ص 179
5۔ طبقات الکبرہ ، ج 6 ص 213

تلخیص کو ملحوظ ِخاطر رکھتے ہوئے ہم تاریخ طبری پر اکتفا کرتے ہیں۔

جب علی بن ابی طالب صفین سے واپس آئے تو انہوں نے مالک بن اشتر کو دوبارہ اس کی بٹالین میں جزیرہ پر بھیج دیا اور قیس بن سعد سے کہا کہ تم میرے ساتھ میرے محافظین کے انچارج بن کر رہو جب تک کہ ثالثی کا معاملہ مکمل نہ ہوجائے اور پھر تم آزربائیجان چلے جانا۔ لہٰذا قیس علی کے ساتھ ان کے محافظین کے اوپر انچارج رہے اور جب ثالثی کا معاملہ ختم ہوا تو علی نے مالک بن الحارث الاشتر کو جو اس وقت نصیبین میں تھے، لکھا کہ اب تم میرے لئے ان لوگوں میں سے ہو جن کی مدد مجھے دین کو مظبوط کرنے کے لئے درکار ہے، جن کے ذریعے میں گناہگاروں کا غرور کم کرسکوں اور جن کے ذریعے میں خطرناک اضلاع کا دفاع کرسکوں۔ میرے پاس مصر میں محمد بن ابو بکر ہے لیکن خوارج وہاں اس کے خلاف نکل آئے ہیں اور وہ ایک نوجوان ہے جسے جنگ اور انتشار کا کوئی تجربہ نہیں۔ میرے پاس آجاؤ تاکہ ہم سوچ سکیں کہ اس سلسلے میں کیا ضروری ہے اور اپنے صوبہ کو اپنے ان لوگوں کے حوالے کرو جو قابل ِبھروسہ اور نیک نیت مشیر ہوں۔

مالک تشریف لے آئے اور علی ان کی پاس پہنچے۔ علی نے انہیں مصر کے آدمیوں کی صورتحال سے آگاہ کیا اور کہا کہ تم ہی واحد شخص ہو اس جگہ کے لئے اس لئے وہاں چلے جاؤ، اللہ تمہارے اوپر رحم کرےگا۔ اگر میں تمہیں نہیں بتارہا کہ تمہیں کیا کرنا ہوگا، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے تمہارے فیصلوں پر بھروسہ ہے۔ اگر کوئی بات پریشان کرے تو اللہ کی مدد طلب کرنا اور سختگی کا نرمگی کے ساتھ امتزاج رکھنا۔ اس وقت تک نرم رہنا جب تک نرمی سے کام ہورہا ہو لیکن سختگی پر اصرار کرنا جب اس کی ضرورت ہو۔ لہٰذا مالک بن اشتر چلے گئے اور علی بھی جہاں حالات چھوڑ کر آئے تو وہیں چلے گئے اور مصر جانے کی تیاری شروع کردی۔

معاویہ کے جاسوس معاویہ کے پاس آئے اور اسے علی کی جانب سے مالک بن اشتر کی تعیناتی کی اطلاع دی جو معاویہ پرگراں گزری کیونکہ وہ مصر کے حالات سے واقف تھا اور جانتا تھا کہ اگر الاشتر وہاں پہنچ گئے تو وہ محمد بن ابو بکر سے زیادہ مشکل شخص ثابت ہونگے۔ لہٰذا معاویہ نے الجیستر جو کہ ٹیکس پر مامور تھا، اسے بتایا کہ الاشتر کی مصر میں تعیناتی ہوگئی ہے اور کہا کہ اگر تم نے الاشتر کو سنبھال لیا تو میں جب تک زندہ ہوں تم سے ٹیکس وصول نہیں کیا کرونگا، اس لئے اس کو مات دینے کے لئے جو کچھ تم کرسکتے ہو کرو۔ لہٰذا الجیستر القزلوم چلا گیا اور وہاں انتظار کیا۔ الاشتر نے مصر جانے کےلئے عراق چھوڑا اور جب وہ القزلوم پہنچے، الجیستر ان سے ملا اور کہا کہ یہاں ایک جگہ ہے رہنے کے لئے اور یہ رہا کھانا پینا۔ میں ٹیکس پر معمور لوگوں میں سے ایک ہوں۔ الاشتر وہاں اس کے ساتھ رک گئے اور ایک آدمی کھانا پینا لیکر آیا۔ پھر جب انہوں نے کھانا کھلایا تو الجیستر نے الاشتر کو شہد سے بنا مشروب پیش کیا جس میں زہر ملا ہوا تھا۔ الجیستر نے جب وہ الاشتر کو پینے کے لئے دیا اور جب انہوں نے سارا پی لیا تو وہ انتقال کرگئے۔

ادھر معاویہ شامیوں کو بتانے کے لئے آیا کہ علی نے الاشتر کو مصر بھیجا ہے، خدا سے دعا کرو کو وہ تم لوگوں کو الاشتر کے لئے کافی کردے۔ لہٰذا شامیوں نے ہر روز خدا سے الاشتر کے خلاف دعائیں مانگنا شروع کردیں پھر جس نے الاشتر کو مشروب دیا تھا وہ معاویہ کے پاس آیا اور اسے الاشتر کی موت کی خبر دی۔ معاویہ لوگوں میں جاکھڑا ہوا اور ایک خطبہ دیا جس میں اس نے خدا کی ثناء کی اور پھر کہا کہ علی بن ابی طالب کے دو دائیں ہاتھ تھے، جس میں سے ایک تو صفین کے روز کٹ گیا تھا (یعنی عمار بن یاسر) جبکہ دوسرا آج کٹا ہے (یعنی مالک الاشتر)۔


معاویہ کا صحابی ِرسول حضرت عمرو بن الحمق کو قتل کرنا

معاویہ کا صحابی ِرسول حضرت عمرو بن الحمق کو ناحق قتل کرنا ان معتبر سنی کتابوں میں درج ہے:

1۔ البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 48
2۔ الاستیعاب، ج 1 ص 363
3۔ الاصابہ، ج 4 ص 623 ترجمہ نمبر 5822
4۔ اسدالغابہ، ج 1 ص 846
5۔ طبقات الکبرہ ، ج 6 ص 25
6۔ تاریخ کامل، ج 3 ص 250
7۔ رسالہ ابو بکر الخوارزمی، ص 122
8۔ تاریخ ابن خلدون، ج 3 ص 12
9۔ المعارف، ص 127
10۔ تاریخ طبری (انگریزی) ج 18 ص 137

سب سے پہلے تو تقریب التھذیب، ص 420 ترجمہ نمبر 5017 سے عمرو بن الحمق کا مختصر تعررف:

عمرو ابن الحمق بفتح المهملة وكسر الميم بعدها قاف ابن كاهل ويقال الكاهن بالنون ابن حبيب الخزاعي صحابي سكن الكوفة ثم مصر قتل في خلافة معاوية س ق

عمرو ابن الحمق، ابن کاھل، اور لوگ انہیں الکاھن بھی پکارتے ہیں، الحبیب الخزاعی، صحابی ہیں جو پہلے کوفہ اور پھر مصر میں رہے، وہ خلافت ِ معاویہ کے دوران قتل کردیئے گئے تھے۔

ابن اثیر نے اسدالغابہ میں لکھا ہے:

عمرو کو گرفتار کر کے قتل کردیا گیا اور ان کا سر معاویہ کو شام میں بھیج دیا گیا۔

مزید لکھتے ہیں:

‏‏ أول رأس حمل في الإسلام رأس عمرو بن الحمق إلى معاوية-

اسلام میں جو پہلا سر کاٹ کر نیزے پر بلند کیا گیا وہ عمر بن الحمق کا ہی ہے جو کہ معاویہ کو بھیج دیا گیا تھا۔

تاریخ طبری میں درج ہے:

جب عبدالرحمٰن بن عبداللہ نے عمرو بن الحمق کو دیکھا تو ان کو پہچان لیا اور معاویہ کو یہ ساری معلومات لکھ بھیجیں۔ معاویہ نے جواب میں لکھا کہ عمرو کا دعویٰ ہے کہ اس نے عثمان بن عفان کو نو مرتبہ پھواڑے سے ضرب لگائی تھی لہٰذا اس کو اسی طرح نو مرتبہ ضرب لگائو جیسے اس نے عثمان کو لگائیں تھیں۔ اس پر عمرو کو نکالا گیا اور ان پر نو مرتبہ ضربیں لگائی گیئں لیکن وہ پہلی یا دوسری ضرب پر ہی انتقال فرما گئے۔

حضرت عثمان کے قتل میں حضرت عمرو بن الحمق کے کردار کی جہاں تک بات ہے تو ابن سعد طبقات الکبرہ میں لکھتے ہیں:

كان المصريون الذين حصروا عثمان ستمائة رأسهم عبد الرحمن بن عديس البلوي وكنانة بن بشر بن عتاب الكندي وعمرو بن الحمق الخزاعي والذين قدموا من الكوفة مائتين رأسهم مالك الأشتر

چھ سو مصریوں نے عثمان پر حملہ کیا اور ان کی قیادت عبدالرحمان بن عدیس البلوی، جنانہ بن بشر بن عتاب الکندی اور عمرو بن الحمق الخزاعی کررہے تھے جبکہ کوفہ سے آنے والوں کی قیادت مالک بن اشتر نے کی۔

جبکہ نواصب کے امام ابن کثیر نے حضرت عمرو بن الحمق کے متعلق لکھا ہے:

ومع هذا كان أحد الأربعة الذين دخلوا على عثمان،

وہ ان چار افراد میں سے ایک تھے جو حضرت عثمان کے گھر میں داخل ہوگئے تھے۔

بیت الرضوان میں شرکت کرنے والے نامور صحابی ِرسول حضرت عمرو بن الحمق کا قتل نواصب کے نجس گلوں میں پھنسی وہ ہڈی ہے جو یہ لوگ نہ نکال سکتے ہیں نہ ہی نگل سکتے ہیں کیونکہ نواصب کا دعویٰ ہے کہ حضرت عثمان کے قتل میں صحابہ کا کوئی کردار نہیں تھا لیکن ان کے باب دادا معاویہ نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے حضرت عمروبن الحمق کو قتل کردیا کہ انہوں نے ہی حضرت عثمان کو ضرب ِقاتل دی تھی۔ نواصب کے پاس اب دو آپشن ہیں:

1. آیا قبول کرلیں کہ صحابہ کرام کا حضرت عثمان کے خلاف بغاوت اور پھر ان کے قتل میں کردار بالکل تھا

2. یا پھر یہ کہ ان کے باب دادا معاویہ نے ایک صحابی ِجلیل پر قتل کا الزام لگا کر انہیں ناحق قتل کرڈالا اور مومن کو ناحق قتل کرنے والا ہمیشہ جہنم کی آگ میں جلنے والا ہے ((آیت)۔


معاویہ نے بے گناہ شیعہ مومنات کو قید رکھا

ابن اثیر نے اسدالغابہ، ج 1 ص 586 جبکہ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 52 میں لکھا ہے:

فبعث معاوية إلى نائبها فوجدوه قد اختفى في غار فنهشته حية فمات، فقطع رأسه فبعث به إلى معاوية، فطيف به في الشام وغيرها، فكان أول رأس طيف به‏.‏ ثم بعث معاوية برأسه إلى زوجته آمنة بنت الشريد -وكانت في سجنه - فأُلقي في حجرها، فوضعت كفها على جبينه ولثمت فمه وقالت‏:‏ غيبتموه عني طويلاً، ثم أهديتموه إليّ قتيلاً، فأهلا بها من هدية غير قالية ولا مقيلة‏.‏
حضرت عمروبن الحمق کا سر کاٹ کر معاویہ کو بھیج دیا گیا اور اس کو شام وغیرہ کے علاقوں میں پھرایا گیا۔ یہ پہلا سر تھا جو شہروں میں پھرایا گیا۔ اس سر کو حضرت عمروبن الحمق کی زوجہ حضرت آمنہ بنت شرید کے سپرد کردیا گیا جن کو معاویہ نے جیل میں قید کر رکھا تھا۔ سر کو حضرت آمنہ کی گود میں پھینک دیا گیا۔ حضرت آمنہ نے اپنا ہاتھ سر کی پیشانی پر پھیرا اور چہرہ کو بوسہ دیا اور کہا کہ تم نے مجھے ان سے اتنے وقت تک محروم رکھا اور اب ان کو قتل کرنے کے بعد ان کے سر کو مجھے بھیج دیا ہے، لہٰذا میں یہ تحفہ قبول کرتی ہوں۔

جنگ ِاحد میں رسول اللہ (ص) نے صحابہ کو منع فرمایا تھا کہ کسی کافر عورت کے ساتھ بدسلوکی نہ کرنا لیکن ہم یہاں دیکھتے ہیں کہ معاویہ سنتِ رسول اللہ (ص) کا ایسا منکر انسان تھا کہ شیعہ مومنات کو جیل میں قید کررکھا تھا جن کے خاوندوں کا جرم صرف اتنا تھا کہ وہ علی بن ابی طالب (ع) سےمحبت کرتے تھے اور جن میں ایک صحابی ِرسول کی زوجہ بھی شامل تھیں۔ آج اگر امریکی ابو غریب جیل میں مسلمان خواتین کا ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں تو پس وہ معاویہ جیسے جلاد کی ہی پیروی ہے۔


معاویہ نے عبید اللہ بن عباس کے دو کم سن بچوں کو ناحق قتل کرڈالا

عبیداللہ بن عباس رسول اللہ (ص) کے چچا کے بیٹے اور مولا علی بن ابی طالب (ع) کے دور میں یمن کے حکمران تھے۔ رسول اللہ (ص) سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں کو ہٹانے کی غرض سے معاویہ نے ہر جگہ دہشت گردی کا آغاز کروادیا اور اس سلسلے میں عرب دنیا کہ بدنام ِزمانہ غنڈے بسربن ارطات کو یمن اور حجاز روانہ کردیا تاکہ وہ وہاں جاکر بےگناہ شیعہ مرد، عورتوں اور بچوں کا قتل عام کرے۔ دہشت گردی کی اس مہم کے دوران بنی ہاشم کے دو معصوم بچوں کو بھی نہ بخشا گیا۔

1۔ الاستیعاب، ج 1 ص 3632۔
2۔ شذر الذھب، ص 64
3۔ تاریخ طبری (انگریزی) ج 18 ص 207-208
4۔ مروج الذھب، ج 3 ص 30
5۔ تاریخ کامل، ج 3 ص 194
6۔ تاریخ ابن عساکر، ج 10 ص 147
7۔اسدالغابہ، ج 1 ص 213
8۔ تاریخ السلام، ج 2 ص 187

علامہ ابن عبدالبر کتاب الاستعیاب میں لکھتے ہیں:

وكان يقول فيه رجل سوء۔۔۔ ذبحه ابني عبيد الله بن العباس بن عبد المطلب وهما صغيران بين يدي أمهما وكان معاوية قد استعمله على اليمن أيام صفين

بسر بن ارطات ایک برا آدمی تھا۔۔۔۔ اس نے عبیداللہ بن عباس بن عبد المطلب کے دو بچوں کے گلے ان کی ماں کی نظروں کے سامنے چاک کرڈالے، معاویہ نے بسر کو صفین کےدنوں یمن بھیجا ہوا تھا

حافظ ابن عساکر نے لکھا ہے:

بعثه معاوية إلى اليمن فقتل بها ابني عبيد الله ( 1 ) بن العباس وصحب معاوية إلى أن مات

معاویہ نے بسر کو یمن بھیجا تو اس نے عبیداللہ بن العباس کے دو بچوں کو قتل کرڈالا اور وہ آخری دم تک معاویہ کا ساتھی رہا۔

آج اگر مساجد میں معصوم بچوں تک کو نہیں بخشا جارہا تو اس کا سارا کریڈٹ انسان دشمن معاویہ کو ہی جاتا ہے جو دہشت گردوں کو درندگی کی انتہاء بتا گیا۔ حالانکہ صحیح بخاری کی حدیث ہے:

عبدااللہ سے روایت ہے کہ کسی غزوہ میں ایک عورت مردہ حالت میں پائی گئی۔ رسول اللہ (ص) نے عورتوں اور بچوں کے قتل کرنے سے سخت منع فرمایا۔

بعض شاطر ناصبی یہ بہانہ کرتے ہیں کہ معاویہ نے ان تمام لوگوں کو اپنے ہاتھوں سے تو نہیں مارا اس لیے اس میں معاویہ کا کیا قصور۔ ایسے گستاخ نواصب کے لیے سورہ قصاص کی وہ آیات یاد دلا دیں جس میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے بچوں کے قتل کا ذمہ دار فرعون کوہی ٹھہرایا ہے گو کہ فرعون نے قتل اپنے ہاتھوں سے نہیں کیے تھے بلکہ اس کے آدمیوں نے کیے تھے۔



عبدالرحمٰن بن حسان کو معاویہ نے زندہ درگور کردیا

۔ تاریخ کامل، ج 3 ص 245
2۔ تاریخ طبری (انگریزی) ج 18 ص 151
3۔ البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 52

ابن اثیر کتاب تاریخ الکامل میں لکھتے ہیں:

ثم قال لعبد الرحمن بن حسان‏:‏ يا أخا ربيعة ما تقول في علي قال‏:‏ دعني ولا تسألني فهو خير لك‏.‏ قال‏:‏ والله لا أدعك‏.‏ قال‏:‏ أشهد أنه كان من الذاكرين الله تعالى كثيرًا من الآمرين بالحق والقائمين بالقسط والعافين عن الناس‏.‏ قال‏:‏ فما قولك في عثمان قال‏:‏ هو أول من فتح أبواب الظلم وأغلق أبواب الحق‏.‏ قال‏:‏ قتلت نفسك‏!‏ قال‏:‏ بل إياك قتلت ولا ربيعة بالوادي يعني ليشفعوا فيه فرده معاوية إلى زياد وأمره أن يقتله شر قتلة فدفنه حيًا‏.‏

جب حضرت عبدالرحمٰن بن حسان کو گرفتار کیا گیا اور معاویہ کے سامنے پیش کیا گیا تب معاویہ نے ان سے پوچھا کہ تمہاری علی کے متعلق کیا رائے ہے؟ عبدالرحمٰن نے جوا ب دیا کہ تمہارے لئے بہتر یہی ہوگا کہ تم مجھ سے علی کے متعلق میری رائے نہ پوچھو۔ معاویہ نے کہا باخدا میں تمہیں نہیں چھوڑونگا۔ عبدالرحمٰن نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ علی ان لوگوں میں سے ہیں جو اللہ کا ذکر بہت زیادہ کرتے ہیں اور دنیا میں انصاف کرتے ہیں اور لوگوں کی خطاؤں کو درگزر کرتے ہیں۔ پھر معاویہ نے پوچھا کہ عثمان کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ عبدالرحمٰن نے جواب دیا کہ عثمان پہلے شخص تھے جنہوں نے ظلم کا باب کھولا اور حق کا باب بند کردیا۔ معاویہ نے کہا، تم نے اپنے آپ کو قتل کرڈالا۔ حضرت عبدالرحمٰن نے جواب دیا، نہیں بلکہ تم نے خود کو قتل کرڈالا۔ پھر معاویہ نے عبدالرحمٰن کو زیاد کے پاس اس حکم کے ساتھ بھیج دیا گیا کہ انہیں بری طرح قتل کردیا جائے لہٰذا زیاد نے انہیں زندہ درگور کردیا۔

علی بن ابی طالب (ع) کی محبت احادیث کے مطابق ایمان کا ثبوت ہے اور کوئی کافر، منافق اور اولاد ِالزنا ہی علی بن ابی طالب (ع) سے بغض رکھ سکتا ہے لیکن یہاں ناصیوں کا امام معاویہ علی بن ابی طالب (ع) سے محبت کا اظہار کرنے والوں کو چن چن کر بےدردی سے قتل کررہا ہے۔ ہم بنی امیہ کے جلاد حکمرانوں کے چاہنے والوں سے سوال کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے جرم کی پاداش میں بھی کسی کو زندہ درگو کیا جاسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ پھر یہ لوگ تو پس حدیث کے مطابق علی بن ابی طالب (ع) سے محبت ہی کرتے تھے!


معاویہ نے بےگناہ شیعوں کے قتل ِعام کاحکم دیا

الاستیعاب، ج 1 ص 49 میں ہم پڑھتے ہیں:

وقال أبو عمرو الشيباني لما وجه معاوية بسر بن أرطاة الفهري لقتل شيعة علي رضي الله عنه

ابو عمرو الشیبانی نے کہا ہے کہ معاویہ نے بسر بن ارطات الفھری کو شیعان ِعلی (رض) کو قتل کرنے کے لیے بھیجا۔

اسدالغابہ، ج 1 ص 113 کی عبار ملاحظہ ہو:

وكان معاوية سيره إلى الحجاز واليمن ليقتل شيعة علي

معاویہ نے بسر بن ارطات کو حجاز اور یمن روانہ کیا تاکہ وہ کو شیعان ِعلی (رض) کو قتل کرے

اسی طرح الاصابہ، ج 1 ص 289 میں درج ہے:

وكان معاوية وجهه إلى اليمن والحجاز في أول سنة أربعين وأمره أن ينظر من كان في طاعة على فيوقع بهم

41 ہجری کے اوائل میں معاویہ نے بسر کو حجاز اور یمن اس حکم کے ساتھ روانہ کیا کہ وہ علی کی پیروی کرنے والوں کو قتل کرے۔


معاویہ نے بےگناہ شیعہ مومنات کو غلام بنایا اور فروخت کردیا

لعینوں کی ٹولی یعنی معاویہ اور بسربن ارطات کے وحشیانہ کارنامے اور بھی ہیں۔ امام ابن اثیر نے اسدالغابہ، ج ا ص 113 میں بسربن ارطات کا احوال لکھتے ہوئے بیان کیا ہے:

وشهد صفين مع معاوية وكان شديدا على علي وأصحابه ۔۔ وكان معاوية سيره إلى الحجاز واليمن ليقتل شيعة علي ۔۔۔ وأغار على همدان باليمن وسبى نساءهم فكن أول مسلمات سبين في الإسلام
بسر نے معاویہ کے ہمراہ جنگ صفین میں حصہ لیا اور وہ علی اور علی کے صحابہ کا شدید مخالف تھا۔۔۔ معاویہ نے اسے حجاز اور یمن روانہ کیا تاکہ وہ شیعان ِعلی (رض) کو قتل کرے۔۔۔ یمن میں اس نے حمدان کے نامور قبیلے پر حملہ کیا اور ان کی عورتوں کو قید کرلیا۔ وہ پہلی مسلمان خواتین تھیں جنہیں قید کیا گیا اور پھر غلام بنا لیا گیا۔

علامہ ابن عبدالبر نے الاستیعاب، ج 1 ص 49 میں لکھا ہے:

وقال أبو عمرو الشيباني لما وجه معاوية بسر بن أرطاة الفهري لقتل شيعة علي رضي الله عنه۔۔۔ ذكر أبو عمر الشيباني أغار بسر بن أرطاة على همدان وسبى نساءهم فكان أول مسلمات سبين في الإسلام

ابو عمرو الشیبانی نے کہا ہے کہ معاویہ نے بسر بن ارطات الفھری کو شیعان ِعلی (رض) کو قتل کرنے کے لیے بھیجا۔۔۔۔ ابو عمرو الشیبانی نے کہا کہ بسر بن ارطات نے حمدان پر حملہ کیا اور عورتوں کو قیدی بنالیا پس وہ اسلام کی پہلی خواتین تھیں جنہیں قیدی بنایا گیا۔

علامہ ابن عبدالبر نے مزید لکھا ہے:

أبي الرباب وصاحب له أنهما سمعا أبا ذر رضي الله عنه يدعو و يتعوذ في صلاة صلاها أطال قيامها وركوعها وسجودها قال فسألناه مم تعوذت وفيم دعوت فقال تعوذت بالله من يوم البلاء ويوم العورة فقلنا وما ذاك قال أما يوم البلاء فتلتقي فتيان من المسلمين فيقتل بعضهم بعضاً‏.‏ وأما يوم العورة فإن نساء من المسلمات ليسبين فيكشف عن سوقهن فأيتهن كانت أعظم ساقاً اشتريت على عظم ساقها فدعوت الله ألا يدركني هذا الزمان ولعلكما تدركانه قال فقتل عثمان ثم أرسل معاوية بسر بن أرطاة إلى اليمن فسبى نساء مسلمات فأقمن في السوق‏.‏

ابی الرباب اور ان کے ساتھیوں نے کہا ہے کہ انہوں نے حضرت ابو ذر (رض) کو نماز میں پناہ طلب کرتے اور دعائیں کرتے سنا اور وہ نماز میں اک طویل وقت رکوع و سجود میں گزا ر رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابو ذر سے دریافت کیا کہ آپ کس سے پناہ طلب کررہے ہیں اور کس بات کی دعائیں مانگ رہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں اللہ سے یوم البلاء اور یوم العورہ سے پناہ مانگ رہا ہوں۔ ہم نے پوچھا یہ کونسے ایام ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ یوم البلاء وہ دن ہے جس دن مسلمان نوجوان آپس میں لڑپڑینگے اور ایک دوسرے کو قتل کردینگے۔ یوم العورہ وہ دن ہے جس دن مسلمان عورتوں کو غلام بنالیا جائےگا اور ان کی ٹانگیں عیاں کردی جایئگیں اور ان میں سے بہتر ٹانگ رکھنے والی ذیادہ دام پر خریدی جائنگی۔

راوی پر کہتا ہے کہ پھر عثمان کا قتل ہوگیا پھر معاویہ نے بسر بن ارطات کو یمن بھیجا اور مسلمان عورتیں کو غلام بنا لیا گیا اور انہیں غلام کے طور پر بازار میں لایا گیا۔

چونکہ معاویہ کی ماں ھندہ زمانہ جاہلیت میں مشہور زانیہ رہ چکی تھی غالبا ْ اس وجہ سے معاویہ کو ایک مومنہ کا مقام کا اندازہ ہوا ہی نہیں اور ان کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا۔

سیراعلام النبلاء، ج 3 ص 409 میں امام ذھبی کا بسر بن ارطات کے متعلق کہنا ہے:

ابن یونس نے کہا ہے کہ بسر صحابی تھا اور اس نے مصر کی فتح میں حصہ لیا تھا اور اس کا مصر میں ایک گھر اور سرائے بھی تھا۔ اس نے معاویہ کے لئے حجاز اور یمن میں حکمرانی کی۔ اس نے بہت سے بری حرکات کیں اور اپنی زندگی کے آخر میں سے مرض لاحق ہوگیا تھا۔۔۔۔اس نے یمن میں مسلمان عورتوں کو غلام بنا لیا اور انہیں بیچنے کی غرض سے بازار لایا۔

یہ ہیں صحابہ ِکرام کی حاصل کردہ وہ فتوحات جن کے چرچے ہمارے مخالفین کی زبانوں پر ہمیشہ رہتے ہیں اور اسی طرح کی فتوحات کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ صحابہ کی توہین نہ کی جائے کیونکہ انہوں نے تو بہت معرکے سر کئے ہیں۔ اگر مسلمان عورتوں کے ساتھ یہ سلوک کر کے فتوحات حاصل کرنے والوں کی ہمارے مخالفین کے ہاں عزت ہے تو اللہ کا شکر ہے کہ ہمارا ایسے لوگوں سے کوئی تعلق نہیں اور ایسے لوگوں میں شامل ہونے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے اوپر ایسے لوگوں کی مذمت کرنے کی وجہ سے کفر کے فتوے لگوالیں!


قرآن شریف میں مومن کو قتل کرنے کی سزا

اللہ تعالیٰ اپنی لاریب کتاب میں ایک مومن کو قتل کرنے کی سزا سناتا ہے:

اور جو کوئی کسی مسلمان کو جان کر قتل کرے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر الله کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور الله نے اس کےلیے بڑا عذاب تیا رکیا ہے
سورۃ النساء، آیت 93

جب ایک مومن کو قتل کرنے کی سزا ایسی سخت ہے تو معاویہ نے تو معصوم لوگوں کا قتل ِعام کیا ہے!






باب نمبر 5: معاویہ کسی بھی فضیلت سے محروم

اس باب میں معاویہ کا کسی بھی فضیلت سے محروم ہونے پر گفتگو کرینگے اور ہم یہ بات افشاں کرینگے جسے بہت کم لوگ جانتے ہیں اور خصوصا ً آج کل کے سپاہ ِصحابہ جیسے نواصب اپنے پیروکاروں کو اپنے اصل یعنی معاویہ کا احترام کرنا تو سکھا دیتے ہیں لیکن انہیں اس حقیقت سے ناآشنا رکھتے ہیں کہ ان کے مذہب کی کتابوں میں باقی صحابہ کے متعلق کوئی نہ کوئی فضیلت تو مل جائیگی لیکن معاویہ کا ایک ایسا کردار ہے کہ جس کی فضیلت میں ایک درست روایت بھی بیان نہیں کی گئی ہے بلکہ اس کی مذمت میں اتنا مواد موجود ہے کہ جتنا شاید ابلیس کے متعلق بھی نہ ہو۔

آئمہ ِاہل سنت کی گواہیاں کہ معاویہ کی فضیلت میں ایک بھی صحیح روایت موجود نہیں

امام جالال الدین سیوطی اپنی کتاب اللالی مصنوعہ فی الاحادیث الموضوعہ، ج 1 ص 424 جبکہ امام ابن جوزی اپنی کتاب الموضوعات، ج 2 ص 24 میں درج کرتے ہیں:

قال الحاكم سمعت أبا العباس محمد بن يعقوب بن يوسف يقول سمعت أبي يقول سمعت إسحق بن إبراهيم الحنظلي يقول لا يصح في فضل معاوية حديث

حاکم نے بیان کیا ہے کہ میں نے ابو العباس محمد بن یعقوب بن یوسف سے سنا کہ انہوں نے اپنے والد سے سنا کہ انہوں نے اسحاق بن اباہیم الحنظلی کو کہتے سنا کہ معاویہ کی فضیلت میں ایک صحیح روایت بھی نہیں ہے۔
 للالی مصنوعہ فی الاحادیث الموضوعہ، ج 1 ص 424
 الموضوعات، ج 2 ص 24

اہل ِحدیث مسلک کے قاضی شوکانی اپنی کتاب فواید المجموعہ، ص 147 میں لکھتے ہیں:

ابن حبان کا قول ہے کہ معاویہ کی فضیلت میں تمام روایات موضوع (یعنی گھڑی ہوئی) ہیں۔
 فواید المجموعہ، ص 147

اب پیش ِخدمت ہے امام ذھبی کی کتاب سیراعلام النبلاء، ج 3 ص 132 سے امام ِاہل ِسنت اسحاق بن راھویہ کا فتویٰ:

الأصم حدثنا أبي سمعت ابن راهويه يقول لا يصح عن النبي صلى الله عليه وسلم في فضل معاوية شيء

ابن راھویہ کا قول ہے کہ معاویہ کی فضیلت میں رسول اللہ (ص) سے ایک بھی صحیح روایت موجود نہیں۔

اب پیش ِخدمت ہے علامہ محمد طاہر الصدیقی الفتنی (متوفی 986 ھ) کے الفاظ جو آج تک کی مشہور ترین شیعہ مخالف کتاب لکھنے والے امام ابن حجر مکی الھیثمی اور کنزالعمال کے مصنف ملا علی متقی الھندی کے شاگرد تھے۔ اپنی کتاب تذکرۃ الموضوعات، ص 100 پر لکھتے ہیں:

لا يصح مرفوعا في فضل معاوية شئ

معاویہ کی فضیلت میں ایک بھی صحیح مرفوع حدیث موجود نہیں

نواصب کا چہیتہ امام ابن تیمیہ اپنی کتاب منہاج السنہ، ج 4 ص 400 میں اقرار کرتاہے:

وطائفة وضعوا لمعاوية فضائل ورووا أحاديث عن النبي صلى الله عليه وسلم في ذلك كلها كذب

لوگوں کی ایک جماعت نے معاویہ کے فضائل گھڑے اور اس سلسلے میں رسول اللہ (ص) سے احادیث بیان کردیں جن میں سے سب جھوٹی ہیں۔

امام ِ اہل ِسنت حاکم نے تو ذور زبردستی کے باوجود اپنی کتاب میں معاویہ کے فضائل کے سلسلے میں ایک باب قائم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ، ج 11 ص 409 میں لکھا ہے:

وقال أبوعبدالرحمن السلمي : دخلت على الحاكم وهو مختف من الكرامية لا يستطيع يخرج منهم ، فقلت له : لو خرجت حديثا في فضائل معاوية لأسترحت مما أنت فيه ، فقال: لا يجئ من قبلي لا يجئ من قبلي

ابو عبدالرحمٰن السلمی نے کہا کہ میں حاکم کے پاس اس وقت گیا جب وہ امیہ سے چھپ رہے تھے اور اس وجہ سے اپنے گھر سے باہر بھی نہیں نکل سکتے تھے، تو میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ معاویہ کی فضیلت میں حدیث بیان کردیں تو آپ اس صورتحال سے نکل آئینگے۔ حاکم نے جواب دیا، میں ایسا نہیں کرسکتا، میں ایسا نہیں کرسکتا۔

امام ابن حجر عسقلانی نے صحیح بخاری کی شرح کی کتاب فتح الباری، ج 7 ص 104 میں لکھا ہے:

عبر البخاري في هذه الترجمة بقوله ذكر ولم يقل فضيلة ولا منقبة لكون الفضيلة لا تؤخذ من حديث الباب ۔۔۔ وقد صنف ابن أبي عاصم جزءا في مناقبه , وكذلك أبو عمر غلام ثعلب , وأبو بكر النقاش وأورد ابن الجوزي في الموضوعات بعض الأحاديث التي ذكروها ثم ساق عن إسحاق بن راهويه أنه قال لم يصح في فضائل معاوية شيء

امام بخاری نے "ذکر معاویہ" کا نام سے باب قائم کیا ہے نہ کہ "فضائل معاویہ" یا "مناقب معاویہ" کیونکہ معاویہ کے متعلق ایسی کوئی حدیث ثابت نہیں۔۔۔ابن ابی عاصم، ابو عمر غلام ثعلب اور ابع بکر النقاش اور ابن جوزی نے کتاب موضوعات میں معاویہ کے مناقب کے متعلق لکھا ہے پھر اس کے بعد ابن جوزی نے اسحاق بن راھویہ کی رائے درج کی ہے کہ معاویہ کے فضائل میں کوئی صحیح حدیث موجود نہیں اسی لئے بخاری نےاس میں "ذکر معاویہ" کا نام سے باب قائم کیا ہے نہ کہ "فضائل معاویہ" سے۔

شیخ اسماعیل بن محمد العجلونی (متوفی 1162 ھ) نے کتاب کشف الخفاء، ج 2 ص 420 میں لکھا ہے:

معاویہ کے فضائل میں ایک بھی صحیح حدیث موجود نہیں

علامہ ابو الحسن الکنانی (متوفی 963 ھ) اپنی کتاب تنزیہ الشریعہ المرفوعہ، ج 2 ص 7 میں لکھتے ہیں:

حاکم نے ابن جوزی کے طریق سے اسحاق بن راھویہ سے نقل کیا ہے کہ معاویہ کے فضائل میں رسول اللہ (ص) سے ایک بھی صحیح حدیث موجود نہیں۔
 تنزیہ الشریعہ المرفوعہ، ج 2 ص 7

علامہ ابن خلکان نے وفیات الاعیان، ج 1 ص 35 میں اہل ِسنت کی چھ معتبر کتابوں میں سے ایک کے مصنف امام نسائی کے حالات میں بیان کرتے ہیں کہ کیسے معاویہ کے ناصبی پیکروکاروں نے انہیں اپنے پیشوا معاویہ کے فضائل میں حدیث بیان کرنے کے انکار پر ان کے نازک اعضاء پر حملہ کر کے پھوڑ ڈالا اور اس طرح انہیں قتل کرڈالا جبکہ وہ کہتے رہے کہ انہیں معاویہ کے متعلق صرف ایک ہی صحیح حدیث کا علم ہے جس میں رسول اللہ (ص) نے معاویہ کے شکم پر لعنت کی ہے۔


کیا معاویہ کاتب ِوحی تھا؟

جب نواصب کو اپنے اصل کے دفاع میں کچھ نہیں ملتا تو پھر وہ یہی راگ الاپنے لگ جاتے ہیں کہ معاویہ کاتب ِوحی تھا اس لئے اسے کچھ نہیں کہنا چاہیئے۔

جواب نمبر 1: علمائے اہل ِسنت نے معاویہ کا نام کاتب ِوحی کی فہرست میں شمار نہیں کیا

جید علمائے اہل ِسنت نے کاتب ِوحی کے نام یکجا کرتے ہوئے معاویہ کا نام شامل نہیں کیا ، دیکھیئے:
1۔ فتح الباری، ج 2 ص 450
2۔ عمدۃ القاری، ج 9 ص 307
3۔ ارشاد الساری، ج 9 ص 22

جواب نمبر 2: معاویہ کاتب ِوحی نہیں بلکہ کاتب ِدستاویزات تھا؟

علامہ ابن عبد ربہ اپنی کتاب القعد الفرید میں لکھتے ہیں:

عليّ بن أبي طالب كرم الله وجهه وكان مع شرفه ونُبله وقَرابته من رسول اللهّ صلى الله عليه وسلم يكتب الوحي ثم أفضت إليه الخلافة بعد الكتابة وعثمان بن عفان كانا يكتبان الوحي فإن غابا كتب ابن بن كعب وزيد بن ثابت فإن لم يَشهد واحد منهما كَتب غيرُهما‏.‏ وكان خالد بن سعيد بن العاص ومعاوية بن أبي سفيان يكتبان بين يديه في حَوائجه وكان المُغيرة بن شُعبة والحُصين بن نمير يكتبان ما بين الناس وكانا ينوبان عن خالد ومُعاوية إذا لم يحضرا

علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہ اپنے تمام فضائل اور رسول اللہ (ص) سے قرابت داری کے علاوہ کاتب ِوحی بھی تھے جو بعد میں خلیفہ بھی بن گئے۔ عثمان بن عفان کاتب ِوحی تھے۔ علی اور عثمان کی غیر حاضری میں ابن بن کعد اور زید بن ثابت لکھا کرتے تھے اور ان حضرات کے غیر حاضری میں کوئی اور حضرات لکھا کرتے تھے۔ خالد بن سعید اور معاویہ بن ابی سفیان کو دستاویزات لکھنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ مغیرہ بن شعبہ اور الحسین بن نمیر لوگوں کے لئے دستاویزات لکھا کرتے تھے اور یہ دونوں سعید اور معاویہ کی غیر حاضری میں دستاویزات لکھا کرتے تھے۔

اس کے علاوہ امام ابن حجر عسقلانی نے الاصابہ، ج 6 ص 121 میں لکھا ہے:

وقال المدائني كان زيد بن ثابت يكتب الوحي وكان معاوية يكتب للنبي صلى الله عليه وسلم فيما بينه وبين العرب

مدائنی کے مطابق زید بن ثابت کاتب ِوحی تھے جبکہ معاویہ رسول اللہ (س) کے لئے عربوں کو خطوط لکھا کرتا تھا۔

بالکل اسی طرح امام ذھبی نے تاریخ السلام، ج 4 ص 309 میں لکھا ہے:

وذكر المفضل الغلابي : أن زيد بن ثابت كان كاتب وحي رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وكان معاوية كاتبه فيما بينه وبين العرب

مفضل الغلابی نے کہا ہے کہ زید بن ثابت کاتب ِوحی ِرسول اللہ (ص) تھے جبکہ معاویہ رسول اللہ (ص) کے اور عربوں کے درمیاں خطوط وکتابت کیا کرتا تھا۔

جواب نمبر 3: کاتب ِوحی ہونا کوئی فضیلت نہیں کیونکہ ایک مشہور کاتب ِوحی مرتد بھی ہوا ہے

اگر کچھ دیر کے لئے تاریخی حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے نواصب کا یہ دعویٰ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ معاویہ کاتب ِوحی تھا پھر بھی یہ کوئی فضیلت نہیں اور نہ ہی کسی قسم کی گارنٹی کہ کاتب ِوحی ایک اچھا انسان ہی ہوگا اور کوئی برا کام نہ کرتا ہوگا کیونکہ ہماری سامنے ابن ابی سرح کی مثال موجود ہے جو کاتب ِوحی تھا لیکن پھر دین ِاسلام کو ترک ہی کرگیا اور مرتد ہوگیا۔

علامہ صلاح الدین خلیل بن ایبک الصفدی (متوفی 764 ھ) اپنی کتاب الوافی بالوفیات، ج 17 ص 100 میں لکھتے ہیں:

ابن أبي سرح الكاتب الوحي عبدالله بن سعد بن أبي سرح بن الحارث بن حبيب بن جذيمة أبو يحيى القرشي العامري. أسلم قبل الفتح وهاجر وكان يكتب الوحي لرسول الله صلى الله عليه وسلم ثلم ارتد منصرفا وصار إلى قريش بمكة

کاتب ِوحی ابن ابی سرح، عبداللہ بن سعد بن ابی سرح بن الحارث بن الحبیب بن جذیمہ ابو یحیی القرشی العامری اسلام میں فتح سے قبل داخل ہوا اور پھر اس نے ہجرت کی۔ پھر وہ مرتد ہوگیا اور مکہ میں قریش میں چلا گیا۔

امام ابن حجر سعقلانی نے فتح الباری، ج 9 ص 22 میں لکھا ہے:

قریش میں سے پہلا کاتب ِوحی شخص عبداللہ بن سعد تھا۔ اس کے بعد اس نے اسلام ترک کردیا اور کافر ہوگیا لیکن بعد میں پھر مسلمان ہوگیا۔


کیا معاویہ ہادی تھا؟

کاتب ِوحی کی کہانی سے نواصب کو سہارا نہ ملا تو آخر کار وہ معاویہ کے متعلق ایک حدیث پر اکتفا کر ہی لیتے ہیں جو سنن ترمذی میں درج ہے جس میں رسول اللہ (س) نے دعا کہ اے اللہ معاویہ کو ہادی کردے اور لوگوں کو اس کے ذریعے ہدایت دے۔

جواب نمبر 1: معاویہ کی فضیلت تو کوئی صحیح حدیث ہے ہی نہیں

جیسا کہ باب کے ابتداء میں بحث ہوچکی ہے، معاویہ کی فضیلت میں تو کوئی صحیح حدیث موجود ہی نہیں ہے لہٰذا یہ ہادی والی حدیث پر پھر کیونکر بھروسہ کرلیا جائے!

جواب نمبر 2: ہادی والی حدیث جعلی ہے

پہلی بات یہ کہ امام ترمذی نے خود اس حدیث کو حسن غریب قراردیا ہے اور پھر سنن ترمذی کی شرح لکھنے والے علامہ عبدالرحمٰن المبارک پوری نے اس حدیث سے متعلق امام ابن عبدالبر کے الفاظ نقل کئے ہیں:

قال الحافظ قال ابن عبد البر : لا تصح صحبته ولا يصح إسناد حديثه انتهى . ‏

حافظ ابن عبدالبر نے کہا ہے کہ نہ ہی عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ کی صحابیت صحیح ہے اور نہ ہی اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

امام فخرالدین الرازی نے کتاب علال الحدیث، ج 2 ص 362 میں لکھا ہے:

عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ نے یہ حدیث رسول اللہ (ص) سے نہیں سنی

امام ذھبی نے سیراعلام النبلاء، ج 3 ص 126 میں لکھا ہے:

اس حدیث کی سند منقطع ہے

جواب نمبر 3: رسول اللہ (ص) نے تو ابوجہل جیسوں کے لئے بھی دعا کی تھی

اہل ِسنت حضرات اکثر حضرت عمر کی ثناء میں کتاب ریاض النضیرہ، ج 2 ص 13 سے یہ روایت پیش کرتے ہیں:

رسول اللہ (ص) نے دعا فرمائی کہ اے اللہ، اسلام کو عمر یا ابو جہل کے ہاتھوں مضبوط فرما۔

اس کے علاوہ ہم صحیح بخاری (انگریزی) ج 8 حدیث 406 میں پڑھتے ہیں:

حدثنا علي، حدثنا سفيان، حدثنا أبو الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قدم الطفيل بن عمرو على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله إن دوسا قد عصت وأبت، فادع الله عليها‏.‏ فظن الناس أنه يدعو عليهم، فقال ‏"‏ اللهم اهد دوسا وأت بهم ‏"‏‏

طفیل بن عمرو رسول اللہ (ص) کے پاس آئے اور کہا کہ اے اللہ کے رسول، بنی دوسا نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے اور اسلام لانے سے انکار کردیا ہے لہٰذا ان پر اللہ کے اعذاب کے لئے دعا کریں۔ لوگوں نے خیال کیا کہ رسول اللہ (ص) ان لوگوں کے لئے اللہ کا اعذاب طلب کرینگے لیکن رسول اللہ (ص) نے کہا اے اللہ، بنی دوسا کو ہدایت دے اور انہیں ہمارے قریب لے آ۔

رسول اللہ (ص) محسن ِانسانیت تھے رحمت اللعلمین تھے، وہ ہر مشرک و گناہ گار کی ہدایت کے لئے دعا کیا کرتے تھے، اس کا مطلب یہ نہیں اس میں ان تمام مشرکوں کے لئے ذاتی طور پر کوئی فضیلت ہے۔ یہ رسول اللہ (ص) کی خواہش تھی کہ تمام انسانیت فلاح و ہدایت پا جائے۔ لہٰذا اگر رسول اللہ (ص) نے معاویہ کی ہدایت کے لئے دعا کی بھی ہو، تو وہ ایسے ہی جسیا کہ رسول اللہ (ص) عام مشرکین کے لئے دعا کرتے تھے۔

جواب نمبر 4: عقیدہ ِاہل سنت کہ رسول اللہ (ص) کی ہر دعا قبول نہیں ہوجاتی

جی ہاں، اگر کچھ دیر کو مان بھی لیا جائے کہ رسول اللہ (س) نے معاویہ کی ہدایت کے لئے دعا کی تو امام ابن حجر عسقلانی کے الفاظ جو انہوں نے فتح الباری، ج 11 ص 97 میں درج کیے ہیں، قابل ِذکر ہیں:

اگر رسول اللہ (ص) اس امت کے لئے دعا کرتے ہیں تو وہ ضرور قبول ہوتی ہے اور اگر رسول اللہ (ص) کسی فرد کیلئے دعا کرتے ہیں تو وہ قبول بھی ہوسکتی ہے رد بھی ہوسکتی ہے۔

جواب نمبر 5: اللہ نافرمانوں کی ہدایت نہیں کرتا

سورہ توبہ، آیت 80 میں ہم پڑھتےہیں:

تو ان کے لیے بخشش مانگ یا نہ مانگ اگر تو ان کے لیے ستر دفعہ بھی بخشش مانگے گا تو بھی الله انہیں ہر گز نہیں بخشے گا یہ اس لیے کہ انہوں نے الله اور اس کے رسول سےکفر کیا اور الله نافرمانوں کو راستہ نہیں دکھاتا

سنی عالم ِدین عبداللہ یوسف علی کا اس آیت پر حاشیہ قابل ِ ذکر ہے:

اس میں دھمکی ہے ان لوگوں کے لئے جو اللہ کے راستے کی مخالفت کرتے ہیں۔ رسول اللہ (ص) فطرتا ً رحمت اور بخشش سے پر تھے۔ انہوں نے اپنے دشمنوں کے لئے دعا کی لیکن ایسی صورت میں ان کی دعا رد ہوگئیں کیونکہ وہ (دشمن) اللہ کی تردید کیا کرتے تھے۔

اس قرانی آیت اور عبداللہ یوسف علی کے الفاظ کو ذہن میں رکھتے ہوئے کوئی بھی عادل شخص اس نتیجہ پر باآسانی پہنچ سکتا ہے کہ اگر مان بھی لیا جائے کہ رسول اللہ (ص) نے معاویہ کی ہدایت کے لئے کوئی دعا کی بھی ہو، معاویہ کے افعال جو تاریخی کتابوں میں درج ہیں اس بات کو واضح کررہے ہیں کہ رسول اللہ (ص) کی دعا قبول نہ ہوئی ورنہ معاویہ ، علی بن ابی طالب (ع) پر منابر سے گالیوں اور لعنتوں کی کفریہ بدعت ایجاد نہ کرتا، نہ ہی اسلام کے خلاف جاتے ہوئے اپنے باپ کی ناجائز اولاد زیاد کو اپنا سگا بھائی ہونے کا اعلان کرتا، نہ شراب پیتا نہ شراب کا کاروبار کرتا نہ سود خوری کرتا ،صحابہ کرام کا قتل ِعام کرتا نہ مسلمان عورتوں کو بازاروں میں لاتا۔
باب نمبر 6: معاویہ کا اسلام میں تبدیلیاں اور دیگر حرام کاریاں کرنا


پچھلے باب میں ہم نے دیکھا کہ کیسے نواصب معاویہ کو ہادی قرار دینے پر بضد ہیں اس لئے ہم اس باب میں معاویہ کی جانب سے اسلام میں کی گئی من مانی تبدیلیاں اور خود اس کا حرام کاریوں کے ارتکاب پر روشنی ڈالینگے اور پھر نواصب سے پوچھیں گے کہ کیا ہادی ایسے ہوتے ہیں!

معاویہ کا زیاد کو ابو سفیان کا بیٹا قرار دینا شریعت میں پہلی تبدیلی قرار دیا گیا ہے جو معاویہ کو فاسق ثابت کرتا ہے

ابو سفیان کی عادتوں کے مطابق، زیاد بھی ابو سفیان کا طوائفوں سے عیاشیوں کا نتیجا تھا لیکن پھربھی معاویہ نے زیاد کو ابو سفیان کا بیٹا اور اپنا بھائی قرار دے دیا جو کہ شریعت کے سراسر منافی قدم تھا۔ امام جلال الدین سیوطی نے کتاب الدیباج علی مسلم، ص 184 میں لکھتے ہیں:

ادعي زياد بضم الدال مبني للمفعول أي ادعاه معاوية وألحقه بأبيه أبي سفيان بعد أن كان يعرف بزياد بن أبيه لان أمه ولدته على فراش عبيد وهذه أول قضية غير فيها الحكم الشرعي في الاسلام

معاویہ نے زیاد کواپنے باپ ابو سفیان سے منسوب کردیا حالانکہ وہ زیاد بن ابیہ کے نام سے مشہور تھا کیونکہ اس کی ماں نے اسے عبید کے بستر پر جنا تھا اور یہ اسلام میں پہلا حکم ِ شرعی ہے جو تبدیل کیا گیا۔

اپنی دوسری کتاب تاریخ خلفاء، ص 185 میں جلال الدین سیوطی نے لکھا ہے:

معاویہ نے زیاد بن ابیہ کو منسوب کردیا اور یہ وہ پہلا قدم ہے جہاں رسول اللہ (ص) کے حکم کی خلاف ورزی کی گئی جیسا کہ ثعلبی اور دیگر نے روایت کی ہے۔

امام ِاہل ِسنت احمد بن حنبل کے الفاظ ملاحظہ ہوں کتاب مسائل احمد بن حنبل، ص 89 سے:

امام احمد نے کہا ہے کہ پہلی مرتبہ رسول اللہ (ص) کے جس حکم کی خلاف ورزی ہوئی وہ زیاد کے معاملے میں ہوا

امام ابن عبدالبر نے مشہورتابعی سعید بن المسیب کی گواہی اپنی کتاب الاستذکار، ج 7 ص 169 میں یوں نقل کی ہے:

سعید بن المسیب کا قول ہے کہ پہلی مرتبہ رسول اللہ (ص) کے جس حکم کی خلاف ورزی ہوئی وہ زیاد کے معاملے میں ہوا۔

جس حکم ِشرعی کو معاویہ نے اپنے گھر کی بات سمجھتے ہوئے تبدیل کرنے کی گستاخی کی وہ سورہ احزاب، آیات 4-5 میں درج ہے یعنی:

الله نے کسی شخص کے سینہ میں دو دل نہیں بنائے اور نہ الله نے تمہاری ان بیویوں کوجن سے تم اظہار کرتے ہو تمہاری ماں بنایا ہے اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا بیٹا بنایا ہے یہ تمہارے منہ کی بات ہے اور الله سچ فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتاتا ہے۔
انہیں ان کے اصلی باپوں کے نام سے پکارو الله کے ہاں یہی پورا انصاف ہے سواگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں اور تمہیں اس میں بھول چوک ہو جائے تو تم پر کچھ گناہ نہیں لیکن وہ جو تم دل کے ارادہ سے کرو اور الله بخشنے والا مہربان ہے

فاسق وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی کرے اور مندرجہ بالا بحث سے ثابت ہوا کہ معاویہ فاسقین کا امام ہے اگر نہیں تو سپاہ ِصحابہ کے نواصب کو دعوت ہے کہ وہ معاویہ کے اس فعل ِحرام کی وجہ بتادیں!


معاویہ نے وراثت کے شرعی قانون کو تبدیل کردیا

نواصب کا امام ابن کثیر کتاب البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 149 میں لکھتا ہے:

مضت السُنَّة أن لا يرث الكافر المسلم، ولا المسلم الكافر، وأول من ورث المسلم من الكافر معاوية، وقضى بذلك بنو أمية بعده، حتى كان عمر بن عبد العزيز فراجع السنة، وأعاد هشام ما قضى به معاوية وبنو أمية من بعده‏.‏

سنت یہ ہے کہ نہ ہی کافر کسی مسلمان سے وراثت حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی کوئی مسلمان کسی کافر سے۔ معاویہ وہ پہلا شخص تھا جس نے اجازت دی کہ مسلمان کافر سے وراثت حاصل کرسکتا ہے لیکن کافر مسلمان سے وراثت حاصل نہیں کرسکتا اور بنی امیہ نے بھی اس کے بعد اسی طرح کیا حتیٰ کہ عمربن عبدلعزیز آئے اور انہوں نے سنت کو بحال کیا لیکن پھر ھشام نے دوبارہ وہی کردیا جو معاویہ اور بنی امیہ کیا کرتے تھے۔
 البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 149

امام ابن قدامہ اپنی مشہور کتاب المغنی۔ ج 7 ص 166 کتاب الفرائض میں لکھتے ہیں:

أجمع أهل العلم على أن الكافر لا يرث المسلم وقال جمهور الصحابة والفقهاء‏:‏ لا يرث المسلم الكافر يروى هذا عن أبي بكر‏,‏ وعمر وعثمان وعلي‏,‏ وأسامة بن زيد وجابر بن عبد الله رضي الله عنهم وبه قال عمرو بن عثمان وعروة‏,‏ والزهري وعطاء وطاوس‏,‏ والحسن وعمر بن عبد العزيز وعمرو بن دينار‏,‏ والثوري وأبو حنيفة وأصحابه‏,‏ ومالك والشافعي وعامة‏,‏ الفقهاء وعليه العمل وروى عن عمر ومعاذ ومعاوية رضي الله عنهم‏,‏ أنهم ورثوا المسلم من الكافر ولم يورثوا الكافر من المسلم

اہل ِعلم کا اس پر اجماع ہے کہ کافر مسلمان سے وراثت حاصل نہیں کرتا۔ صحابہ اور فقہاء کی اکثریت نے کہا ہے کہ مسلمان کافر سے وراثت حاصل نہیں کرتا، یہی بیان کیا گیا ہے ابو بکر، عمر، عثمان، علی، اسامہ بن زید، جابر بن عبداللہ (اللہ سب سے راضی ہو) اور اسی طرح کا قول ہے عمر وبن عثمان، زھری، عطاء، طاوس، حسن، عمرو بن عبد العزیز، عمرو بن دینار، ثوری، ابو حنیفہ اور ان کے صحابہ، مالک، شافعی اور دیگر فقہاء کا اور یہی وہ اصول جس کا ہم سب اتباع کرتے ہیں۔ یہ بیان کیا گیا ہے کہ عمر، معاذ اور معاویہ (رض) کے انہوں نے اجازت دی کہ مسلمان کافر سے وراثت حاصل کر سکے لیکن کافر مسلمان سے وراثت حاصل نہ کرسکے۔
 المغنی۔ ج 7 ص 166 کتاب الفرائض


نواصب کے 'ہادی' معاویہ نے دیت کا شرعی قانون بھی تبدیل کردیا

پچھلے باب میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح نواصب معاویہ کو ہادی بنانے پر تلے ہیں۔ آیئے دیکھتے ہیں اس ہادی کا ایک اور کفریہ کارنامہ۔ ابن کثیر کتاب البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 139 میں لکھتا ہے:

ومضت السنة‏:‏ أن دية المعاهد كدية المسلم، وكان معاوية أول من قصرها إلى النصف، وأخذ النصف لنفسه‏.

دوسری سنت جس کو ترک کردیا گیا وہ غیر مسلم کی دیت مسلمان کے برابر کرنا ہے لیکن معاویہ وہ پہلا شخص ہے جس نے اسے نصف تک کم کردیا جبکہ باقی نصف اپنے لیئے مقرر کردیا۔


نواصب کے 'ہادی' معاویہ نے مال ِغنیمت کا شرعی قانون بھی تبدیل کردیا

شریعت نے مال ِغنیمت کا پانچواں حصہ بیت المال جبکہ باقی مال اس فوج میں تقسیم کیا جائے جس نے غزوہ میں حصہ لیا۔ لیکن نواصب کے بانی و ہادی معاویہ نے فیصلہ دیا کہ مال ِغنیمت میں سے سونا اور چاندی علیحدہ کرلیا جائے اور بقیہ مال ِغنیمت کو تقسیم کیا جائے۔ اہل ِسنت کے کئی نامور علماء نے نواصب کے امیر المومنین کی اس بدعت کے متعلق لکھا ہے۔ جیسے ابن عبد البر نے الاستیعاب، ج 1 ص 358 میں لکھا ہے:

عن الحسن قال كتب زياد إلى الحكم ابن عمرو الغفاري وهو على خراسان أن أمير المؤمنين إلى أن يصطفي له الصفراء و البيضاء فلا تقسم بين الناس ذهباً ولا فضة‏.‏

حسن نے روایت کہ ہے کہ زیاد نے حکم بن عمرو الغفاری جو کہ خراسان کا گورنر تھا، کو یہ حکم لکھا کہ امیر المومنین چاہتے ہیں کہ مال ِغنیمت میں سے سونا اور چاندی محفوظ کرلیا جائے اور انہیں لوگوں میں تقسیم نہ کیا جائے۔

اسی تاریخی حقیقت کو مندرجہ ذیل کتابوں میں بھی پڑھا جاسکتا ہے:
1۔ الدرالمنثور، ج 6 ص 234 سورہ 65 آیت 2
2۔ سیراعلام النبلاء، ج 2 ص 475
3۔ المستدراک الحاکم، ج 3 ص 442
4۔ مصنف ابن ابی شیبہ، ج 7 ص 270

بعض کتابوں میں اس واقع کو یوں بیان کیا گیا ہے:

بن حبيب أن زيادا كتب إلى الربيع بن زياد أن أمير المؤمنين كتب إلي أن آمرك أن تحرز البيضاء والصفراء وتقسم ما سوى ذلك

ابن حبیب نے بیان کیا ہے کہ زیاد نے الربیع بن زیاد کو لکھا: 'امیر المومنین نے مجھے یہ حکم لکھا ہے کہ میں تمہیں حکم دوں کہ مال ِغنیمت میں سے سونا اور چاندی محفوظ کرلیا جائے اور باقی کوتقسیم کردیا جائے'۔
الاستیعاب، ج 2 ص 381 ترجمہ نمبر 2579

علامہ محمد بن عقیل الشافعی (متوفی 1350 ھ) نے نصائح کافیہ، ص 131 میں لکھا ہے:

ابن حجر نے لکھا ہے کہ یہ ثقہ راویوں سے بیان کیا ہے کہ معاویہ نے جمعہ کا خطبہ دیا اور کہا کہ پس سارا مال ہمارا ہے اور سارا مال ِغنیمت بھی ہمارا ہے۔ ہم اس میں سے اس شخص کو دینگے جسے ہم چاہینگے اور جسے چاہیں گے اسے نہیں دینگے۔

علامہ محمد بن عقیل نے معاویہ کے جس داداگیری والے خطبہ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ ہم ان معتبر سنی کتابوں میں پڑھ سکتے ہیں:
1۔ مجمع الزوائد، ج 5 ص 236 حدیث 9199
2۔ مسند ابی یعلیٰ، ج 13 ص 374
3۔ تاریخ الاسلام، ج 4 ص 314
4۔ تاریخ دمشق، ج 59 ص 168

ابن حجر نے مجمع الزوائد میں اس روایت کے متعلق لکھا ہے کہ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں جبکہ کتاب مسند ابی یعلیٰ کا حاشیہ تحریر کرنے والے علامہ حسین سالم اسد نے لکھا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔

چونکہ بات معاویہ کی مال ِغنیمت کے حوالے سے من مانی، داداگیری و غنڈہ گردی کی ہورہی ہے اس لئے موزوں ہوگا کہ معاویہ کا خمس کے مال کے حوالے سے بھی کچھ بات کرلی جائے۔ امام ابن سعد نے طبقات الکبیر، ج 5 ص 291 میں عمربن عبدالعزیز کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:

إسماعيل بن عبد الملك عن يحيى بن شبل قال جلست مع علي بن عبد الله بن عباس وأبي جعفر محمد بن علي فجاءهما آت فوقع بعمر بن عبد العزيز فنهياه وقالا ما قسم علينا خمس منذ زمن معاوية إلى اليوم وإن عمر بن عبد العزيز قسمه على بني عبد المطلب

یحیٰ بن شبل کہتے ہیں کہ میں علی بن عبداللہ بن عباس اور ابو جعفر محمدبن علی کے ساتھ بیٹھا تھا کہ ایک آدمی آیا اور اس نے عمربن عبدالعزیز کو گالیاں دیں تو ان دونوں نے اسے منع کیا اور کہا کہ معاویہ کے دور سے لیکر آج تک ہمیں خمس نہیں ملا اور عمر بن عبد العزیز نے ہی بنی عبد المطلب کو خمس دیا ہے۔


نواصب کے 'ہادی' معاویہ نے شراب نوشی کی

اہل ِسنت کی حدیث کی معتبر کتاب احمد بن حنبل، ج 5 ص 347 میں ہم امیر ِشام یعنی معاویہ کے متعلق پڑھتے ہیں:

حدثنا زيد بن الحباب، حدثني حسين، حدثنا عبد الله بن بريدة، قال دخلت أنا وأبي، على معاوية فأجلسنا على الفرش ثم أتينا بالطعام فأكلنا ثم أتينا بالشراب فشرب معاوية ثم ناول أبي ثم قال ما شربته منذ حرمه رسول الله صلى الله عليه وسلم۔۔۔

عبداللہ بن بریدہ نے کہا کہ میں اپنے والد کے ہمراہ معاویہ کے پاس گیا تو معایہ نے ہمیں بستر پر بٹھوایا اور ہمارے لئے کھانا منگوایا جو ہم نے کھایا پھر معاویہ نے ہمارے لئے ایک مشروب منگوایا جس میں سے معاویہ نے پہلے پیا پھر ہمیں پینے کی دعوت دی جس پر میرے والد نے کہا کہ رسول اللہ (ص) نے جب سے اسے حرام قرار دیا ہے میں نے اسے کبھی نہیں پیا۔۔۔
 مسند احمد بن حنبل، ج 5 ص 347 حدیث 22991

اس واقع نے نواصب کو اس قدر پریشان کیا ہے کہ ان کے پاس اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ اس روایت کی سند کو ضعیف قرار دیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کی سند کم سے کم حسن اور زیادہ سے زیادہ صحیح ہے جیسا کہ یمن کے سلفی اسکالر شیخ مقبل بن ھادی الواعدی نے اپنی کتاب مسند الصحیح، ص 185 میں اسے حسن قرار دیا ہے۔ علامہ حسن بن علی السقاف آج کے دور کے سنی عالم ِدین ہیں جو 1961 میں پیدا ہوئے اور اردن میں شیخ نووی سینٹر کے سربراہ ہیں اور وہ کئی نامور سنی علماء کے شاگرد رہ چکے ہیں جن میں اہل ِسنت کی حدیث کی معروف کتاب صحیح بن خزیمہ کا حاشیہ تحریرکرنے والے الاعظیمی شامل ہیں۔ شیخ حسن سقاف نے امام ابن جوزی کی کتاب دفوع شبہ التشبیہ کا حاشیہ تحریر کیا ہے جس میں معاویہ کی شراب نوشی والی روایت کے متعلق شیخ سقاف نے کہا ہے کہ اس روایت کے تمام راوی صحیح مسلم کے راوی ہیں۔ اب بھی کوئی شک رہے تو جو لنک اوپر موجود ہے اس میں کتاب مسند احمد کا حاشیہ تحریر کرنے والے سلفی عالم ِدین شیخ شعیب الارنؤوط کے اس روایت کے متعلق فیصلہ موجود ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ اس کے اسناد قوی ہیں۔ اور پھر بھی کوئی ابہام رہے تو قصہ تمام کرنے کے لئے امام ابی بکر الھیثمی نے اس روایت کے متعلق لکھ دیا ہے:

رواه أحمد ورجاله رجال الصحيح

احمد نے اسے روایت کیا ہے اور اس کے تمام راوی صحیح (کتابوں) کے راوی ہیں۔
 مجمع الزوائد، ج 5 ص 554 حدیث 8022

معاویہ کو شراب نوشی کا شوق اس قدر تھا کہ اس نے شراب کے نشے میں مدہوش ہو کر شراب کی تعریف میں اشعار بھی کہے ہیں۔ ہم تاریخ ابن عساکر میں دو شرابی نشے میں دھت دوستوں یعنی معاویہ اور عبداللہ بن الحارث کی داستان پڑھتے ہیں جو اپنے پرانے وقت کو یاد کرتے ہیں اور جن کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے درمیان کچھ اور ہی قسم کی دوستی تھی جو دو مرد ایک دوسرے سے عموما ً و فطرتا ً نہیں کیا کرتے:

عنبسہ بن عمرو نے بیان کیا ہے کہ عبداللہ بن الحارث بن امیہ بن عبدشمس معاویہ کے پاس آیا تو معاویہ اس کے اتنا قریب آگیا کہ معاویہ کے گھٹنے عبداللہ کے سر کو چھو رہے تھے، پھر معاویہ نے عبداللہ سے پوچھا: 'تم میں اب کیا باقی رہ گیا ہے؟'۔ اس نے جواب دیا کہ باخدا میرے پاس اب کچھ نہیں رہ گیا، میرا اچھا اور برا سب چلا گیا ہے۔ معاویہ نے کہا کے باخدا، اچھائی نے تمہارا دل تو چھوڑدیا لیکن برائی اب بھی بہت سی برائی رہتی ہے تو اب ہم تمارے لئے کیا کرسکتے ہیں؟ عبداللہ نے جواب دیا کہ اگر تم نے کچھ اچھا فعل کیا تو میں شکریہ بھی نہیں کہونگا لیکن اگر کوئی برا کام کیا تو میں تمہیں الزام دونگا۔ معاویہ نے کہا، باخدا، تم میرے ساتھ انصاف نہیں کررہے۔ عبداللہ نے جواب دیا، میں نے تمہارے ساتھ انصاف کیا کب ہے؟ باخدا میں نےتمہارے بھائی حنظلہ کا سر زخمی کردیا اور میں نے اس کا ہرجانہ بھی ادا نہ کیا۔ میں یہ اشعار پڑھا کرتا تھا:

صخر بن حرب۔ ہم تمہیں مالک تسلیم نہیں کرتے، ہمارے علاوہ کسی اور پر جاکر حکمرانی کرو، تم ہمارے مالک نہیں ہو۔

اور تم کہا کرتے تھے (اشعار):

میں نے شراب پی حتیٰ میں اپنے یار کے اوپر بوجھ بن گیا، اور میرا ایک یار ہوا کرتا تھا۔

پھر عبداللہ نے معاویہ کے اوپر چھلانگ لگائی اور اس کو مارنے لگا جبکہ معاویہ آگے ہوا اور قہقہا مارنے لگا۔
 تاریخخ ابن عساکر، ج 27 ص 312 ترجمہ نمبر 3230


نواصب کا 'ہادی' معاویہ شراب کی تجارت کیا کرتا تھا

اسمگلر معاویہ! محدث شاہ عبدالعزیز دہلوی اپنی شیعہ مخالف کتاب تحفہءاثنا عشریہ، ص 638 میں بیان کرتے ہیں:

عبادۃ ابن صامت شام میں تھے کہ انہوں نے معاویہ کے قافلے کو دیکھا جس میں اونٹوں کی قطاریں موجود تھیں۔ عبادۃ نے دریافت کیا کہ یہ سب کیا ہے۔ جس پر لوگوں نے انہیں بتایا کہ یہ شراب ہے جو معاویہ نے فروخت کرنے کی غرض سے بھیجی ہے۔ عبادۃ ایک چھری لے کر آئے اور اونٹوں پر لدی شراب کو چاک کردیا حتیٰ کہ تمام شراب بہ گئی۔
 تحفہءاثنا عشریہ، ص 638

اگرچہ کہ یہ واقع اہل ِسنت کی معتبر کتابوں جن میں تاریخ ابن عساکر، ج 26 ص 97 اور سیراعلام النبلاء، ج 2 ص 10 میں درج ہے لیکن غالبا ً ان کتابوں میں تحریف کرکے معاویہ کا نام مٹا دیا گیا ہے اور اس کی جگہ "فلاں" کردیا گیا ہے لیکن پھر بھی یہ حقیقت کہ صحابی عبادۃ ابن صامت نے امیر ِشام (یعنی معاویہ) کی شراب بہا دی اب بھی موجود ہے۔ پھر یہ بھی عرض کردیا جائے کہ شیخ شعیب الارنؤوط نے سیراعلام النبلاء کے حاشیہ میں اس واقع کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔

اور علامہ متقی الہندی نے اسی سے ملتی جلتی روایت نقل کی ہے:

محمد بن کعب القرظی کہتے ہیں: عبدالرحمن بن سہل انصاری نے حضرت عثمان کے دور میں ایک جنگ میں شرکت کی اور اُس وقت معاویہ ابن ابی سفیان شام کا حاکم تھا۔ پھر وہاں سےان کے سامنے سے شراب کے بھرے ہوئے کنستر گذرے۔ اس پر وہ اپنا نیزہ پکڑ کر آگے آئے اور ہر شراب کے کنستر میں انہوں نے نیزہ گھونپ دیا۔ اس پر غلاموں نے مدافعت کی، حتی کہ معاویہ ابن ابی سفیان کو اسکی خبر ہوئی۔ معاویہ ابن ابی سفیان نے کہا کہ اسے چھوڑ دو کہ یہ بڈھا شخص اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا ہے۔ اس پر عبدالرحمان نے کہا:اللہ کی قسم، معاویہ جھوٹ بول رہا ہے۔ میں نے ہرگز اپنے ہوش و حواس نہیں کھوئے ہیں، مگر اللہ کے رسول ص نے ہمیں شراب پینے سے منع کیا تھا۔ اللہ کی قسم اگر میں زندہ رہوں اور مجھے معاویہ وہ کرتے ہوئے نظر آ جائے جس سے رسول ص نے منع کیا تھا، تو پھر یا تو میں معاویہ کی انتڑیوں کو کھول دوں گا یا پھر خود مارا جاؤں گا۔
 کنز الاعمال، جلد 5، صفحہ 713، حدیث 13716

یہی روایت ذیل کی اہلسنت کتب میں بھی موجود ہے:
1۔ فیض القدیر، جلد 5، صفحہ 462، روایت 7969
2۔ تاریخ دمشق، جلد 34، صفحہ 420
3۔ اسد الغابہ، جلد 1، صفحہ 699، بہ عنوان عبدالرحمان بن سہل بن زید
4۔ الاصابہ، جلد 4، صفحہ 313، روایت 5140


نواصب کا 'ہادی' معاویہ بت پرستوں کے لئے بت بنوا کر فروخت کیا کرتا تھا تاکہ بتوں کی پرستش میں کوئی مشکلات درپیش نہ آئیں

اہل ِعلم جانتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت کہ چند مشہور بت پرست خاندان اسلام میں دل سے داخل نہیں ہوئے تھے بلکہ اپنے مذموم مقاصد کی غرض سے اسلام قبول کر بیٹھے تھے جبکہ اس کے بعد بھی ان کا دل اپنے پرانے مذہب کی طرف ہی مائل رہا اور اسی لئے موقع پاتے ہی اسلام کو ہر طرح سے بدنام کرتے رہے اور نقصان پہنچاتے رہے لیکن افسوس کہ احمقوں کے نزدیک وہ اسلام ہی کی موت مرے۔ اس دوران ان کے اپنے پرانے بت پرست دوستوں و رشتہ داروں سے مراسم رہے۔ معاویہ کے متعلق مندرجہ ذیل تاریخی حقیقت پڑھنے کے بعد کوئی بھی باشعور انسان معاویہ کو بھی انہی لوگوں کی فہرست میں شمار کریگا جن کا ذکر ابھی ہم نے کیا۔

اہل ِسنت کےامام سرخسی اپنی وجہ ِشہرت و عزت کتاب یعنی المبسوط، ج 7 ص 269 میں لکھتے ہیں:

عن مسروق - رحمه الله - قال : بعث معاوية - رضي الله عنه - بتماثيل من صفر تباع بأرض الهند فمر بها على مسروق - رحمه الله - قال : والله لو أني أعلم أنه يقتلني لغرقتها ولكني أخاف أن يعذبني فيفتنني والله لا أدري أي الرجلين معاوية رجل قد زين له سوء عمله أو رجل قد يئس من الآخرة فهو يتمتع في الدنيا وقيل : هذه تماثيل كانت أصيبت في الغنيمة فأمر معاوية - رضي الله عنه - ببيعها بأرض الهند ليتخذ بها الأسلحة والكراع للغزاة فيكون دليلا لأبي حنيفة - رحمه الله - في جواز بيع الصنم . والصليب ممن يعبده

مسروق (رحمتہ اللہ) نے کہا ہے کہ معاویہ نے تانبے کے بنے بت فروخت کرنے کے مقصد سے ہندوستان بھجوائے اور انہوں (مسروق) نے وہ اگت پہنچا دیئے۔ مسروق کہتے ہیں کہ خدا کی قسم، اگر مجھے معلوم ہوتا کہ معاویہ مجھے قتل کردیگا تو میں وہ تمام بت پانی میں ڈبو ڈالتا لیکن مجھے معلوم تھا کہ معاویہ مجھے اذیتیں دیتے ہوئے قتل کردیگا۔ خدا کی قسم مجھے سمجھ نہیں آتا کہ معاویہ کس قسم کا آدمی ہے، آیا وہ ایسا انسان ہے کہ جسے تمام برائیاں اچھی نظر آتیں ہیں یا پھر وہ آخرت سے اتنا خوفزدہ ہے کہ وہ اس دنیا میں بھرپور لطف اٹھانا چاہتا ہے۔ یہ کہا گیا ہے کہ وہ بت مال ِغنیمت کے طور پر حاصل ہوئے تھے تو معاویہ نے انہیں ہندوستان میں فروخت کرنے کا حکم دیا تاکہ اس کی آمدنی سے ہتھیار اور اونٹ خریدے جاسکیں اور اسی کی بنیاد پر امام ابو حنیفہ نے عبادت کے لئے بت اور صلیب کی فروخت کی اجازت دی ہے۔


نواصب کے 'ہادی' معاویہ کے شوق! اپنے دربار میں ایک عورت کو برہنہ کر کے اس کی شرم گاہ کا معائنہ

نواصب کا امام ابن کثیر، البدایہ والنہایہ میں ایک واقع درج کرتا ہے:

ابن عساکر نے معاویہ کے غلام خدیج الحفی کے حالات میں بیان کیا ہے کہ معاویہ نے ایک سفید رنگ خوبصورت لونڈی خریدی اور میں اسے بے لباس کر کے معاویہ کے پاس لے گیا اور معاویہ کے پاس چھڑی تھی اور آپ نے اس کی متاع یعنی فرج کی طرف جھکنے لگے اور کہنے لگے یہ متاع کاش میرے لئے متاع ہوتی۔ اسے یزید بن معاویہ کے پاس لے جا، پھر کہنے لگے نہیں ربیع بن عمرو القرشی کو میرے پاس بلا لاؤ، وہ فقیہ تھے۔ اور وہ جب معاویہ کے پاس آئے تو معاویہ نے کہا اس لونڈی کو برہنہ حالت میں میرے پاس لایا گیا ہے اور میں نے اسے ادھر ادھر دیکھا ہے اور میں نے چاہا کہ میں اسے یزید کے پاس بھیج دوں۔ انہوں نے کہا کیہ اے امیر المومنین، ایسا نہ کیجیئے، یہ اس کے مناسب ِحال نہیں۔ معاویہ نے کہا آپ کی رائے بہت اچھی ہے۔ راوی بیا ن کرتا ہے کہ پھر معاویہ نے اسے حضرت فاطمہ بنت رسول (ص) کے غلام عبداللہ بن مسعد فزاری کو بخش دیا جو سیاہ فام تھا اور معاویہ نے اس سے کہا کہ اس سے اپنے بچوں کو سفید بنا لے۔
 البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 992 (نفیس اکیڈمی کراچی)۔

اس واقع کے معتبر ہونے کی بابت یہ بتادیا جائے کے نواصب کے امام ابن کثیر نے اس واقع کو معاویہ کی عقلمندی اور سمجھ داری کی ایک مثال قرار دیا ہے۔


نواصب کے 'ہادی' معاویہ کا لوگوں کو حکم کہ حرام کھاؤ اور ایک دوسرے کو ناحق قتل کرو

اہل ِسنت میں قرآن کے بعد معتبر ترین کتابوں میں سے ایک یعنی صحیح مسلم سے یہ حوالہ ملاحظہ ہو:

۔۔۔ ‏.‏ فقلت له هذا ابن عمك معاوية يأمرنا أن نأكل أموالنا بيننا بالباطل ونقتل أنفسنا والله يقول ۔۔۔

عبدالرحمٰن بن عبدرب الکعبہ سے روایت ہے کہ میں مسجد میں گیا، وہاں عبداللہ بن عمرو بن العاص کعبہ کے سائے میں بیٹھا تھے اور لوگ ان کے پاس جمع تھے، میں بھی گیا اور بیٹھ گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ (ص) کے ساتھ تھے تو ایک جگہ اترے تو کوئی اپنا ڈیرہ درست کرنے لگا، کوئی تیر مارنے لگا کوئی اپنے جانوروں میں تھا کہ اتنے میں رسول اللہ (ص) کے پکارنے والے نے آواز دی کہ نماز کے لئے اکھٹے ہوجاؤ۔ ہم اس رسول اللہ (ص) کے پاس جمع ہوئے آپ (ص) نے فرمایا مجھ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس پر ضروری نہ ہو اپنی امت کو جو بہتر بات اس کے معلوم ہو بتانا اور جو بری بات ہو اس سے ڈرانا اور ہماری یہ امت، اس کے پہلے حصے میں تو سلامتی ہے لیکن آخری حصے میں بلا ہے اور وہ باتیں ہیں جو تم کو بری لگیں گی اور ایسے فتنے آینگے کہ ایک فتنہ دوسرے فتنہ کو ہلکا کردے گا اور ایک فتنہ آئیگا تو مومن کہے گا کہ اس میں میری تباہی ہے پھر وہ فتنہ چلا جائیگا اور دوسرا فتنہ آئیگا تو مومن کہے گا کہ اس میں میری تباہی ہے۔ پھر جو کوئی چاہے کہ جہنم سے بچے اور جنت میں جائے تو اسے چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ اور روز ِآخرت پر یقین رکھے اور لوگوں سے وہ سلوک کرے جیسا وہ چاہتا ہو کہ لوگ اس کے ساتھ کریں ۔ اور جو شخص کسی امام سے بیعت کرے اور اسے اپنا ہاتھ دے اور دل سے اس کی تابعداری کی نیت کرے تو اگر طاقت ہو تو اس کی اطاعت کرے ۔ اب اگر دوسرا شخص (امامت کا دعویٰ میں) سامنے آجائے تو اس کی گردن ماردو۔ یہ سن کر میں عبداللہ بن عمرو بن العاص کے پاس گیا اور میں نے ان سے کہا کہ میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں بتاؤ کہ تم نے یہ سب رسول اللہ (ص) سے سنا ہے؟ انہوں نے اپنے کانوں اور دل کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا اور کہا کہ میرے کانوں نے سنا اور میرے دل نے یاد رکھا ہے۔ میں نے کہا تمہارے چچا کا بیٹا معاویہ ہمیں ایک دوسرے کا مالِ ناحق کھانے اور ایک دوسرے کو قتل کرنے کا حکم دیتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال نا حق نہ کھاؤ مگر یہ کہ آپس کی خوشی سے تجارت ہو اور آپس میں کسی کو قتل نہ کرو بے شک اللہ تم پر مہربان ہے۔ (سورۃ 4 آیت 29)۔

یہ سن کر عمرو بن العاص تھوڑی دیر تک خاموش رہے پھر کہا معاویہ کی اطاعت کرو اس کام میں جو اللہ کے حکم کے موافق ہو اور جو کام اللہ کے حکم کے خلاف ہو اس میں معاویہ کا کہنا نہ مانو۔
 صحیح مسلم، کتاب الامارہ، حدیث 4882


نواصب کے 'ہادی' معاویہ نے سود خوری کی

موطا مالک میں ہم پڑھتے ہیں:

وحدثني عن مالك، عن زيد بن أسلم، عن عطاء بن يسار، أن معاوية بن أبي سفيان، باع سقاية من ذهب أو ورق بأكثر من وزنها فقال أبو الدرداء سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهى عن مثل هذا إلا مثلا بمثل ‏.‏ فقال له معاوية ما أرى بمثل هذا بأسا ‏.‏ فقال أبو الدرداء من يعذرني من معاوية أنا أخبره عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ويخبرني عن رأيه لا أساكنك بأرض أنت بها ‏.‏ ثم قدم أبو الدرداء على عمر بن الخطاب فذكر ذلك له فكتب عمر بن الخطاب إلى معاوية أن لا تبيع ذلك إلا مثلا بمثل وزنا بوزن ‏.‏

عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان نے سونے یا چاندے کا ایک پیالہ اس سے زیادہ سونے یا چاندی کے عوض خریدا۔ حضرت ابودرداء نے کہا کہ میں نے رسول اللہ (ص) کو اس قسم کی تجارت کرنے سے منع فرماتے سنا ہے اور فرماتے تھے کہ برابر برابر ہو۔ معاویہ نے حضرت ابودرداء سے کہا کہ میرے خیال میں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ حضرت ابودرداء نے کہا کہ معاویہ کے مقابلہ میں میرا غذر کون قبول کریگا، میں اسے رسول اللہ (ص) کا حکم بتا رہا ہوں اور یہ مجھے اپنی رائے بتاتا ہے۔ میں اس ملک میں نہیں رہونگا جس میں تم رہتے ہو۔ حضرت ابودرداء پھر حضرت عمر کے پاس آگئے اور یہ بات انہیں بتائی تو حضرت عمر نے معاویہ کو لکھا کہ ایسی بیع نہ کیا کرو جس میں برابر برابر نہ ہوں۔
 موطا مالک، کتاب البیوع، حدیث 1324

ذرا معاویہ کے کفر کا انداز تو دیکھیے۔ صحابی ابو درداء اسے رسول اللہ (ص) کا قول بتا رہے ہیں اور معاویہ کی بے شرمی و ھٹ دھرمی کہ وہ کہے کہ مجھے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔

اگر معاویہ میں ذرہ بھی شرم، خوف ِخدا اور عشق ِرسول ہوتا تو وہ حضرت ابو درداء اور حضرت عمر کی جانب سے تنقید و تنبیہ کے بعد سدھر جاتا لیکن جس انسان کی رگوں میں خون کی جگہ بغض ِمحمد و آل ِمحمد دوڑ رہا ہو تو اسے شرم و حیاء جیسی صفات سے کیا غرض۔ ہم صحیح مسلم میں پڑھتے ہیں:

عن أبي قلابة، قال كنت بالشام في حلقة فيها مسلم بن يسار فجاء أبو الأشعث قال قالوا أبو الأشعث أبو الأشعث ‏.‏ فجلس فقلت له حدث أخانا حديث عبادة بن الصامت ‏.‏ قال نعم غزونا غزاة وعلى الناس معاوية فغنمنا غنائم كثيرة فكان فيما غنمنا آنية من فضة فأمر معاوية رجلا أن يبيعها في أعطيات الناس فتسارع الناس في ذلك فبلغ عبادة بن الصامت فقام فقال إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهى عن بيع الذهب بالذهب والفضة بالفضة والبر بالبر والشعير بالشعير والتمر بالتمر والملح بالملح إلا سواء بسواء عينا بعين فمن زاد أو ازداد فقد أربى ‏.‏ فرد الناس ما أخذوا فبلغ ذلك معاوية فقام خطيبا فقال ألا ما بال رجال يتحدثون عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أحاديث قد كنا نشهده ونصحبه فلم نسمعها منه ‏.‏ فقام عبادة بن الصامت فأعاد القصة ثم قال لنحدثن بما سمعنا من رسول الله صلى الله عليه وسلم وإن كره معاوية - أو قال وإن رغم - ما أبالي أن لا أصحبه في جنده ليلة سوداء ‏.‏ قال حماد هذا أو نحوه‏.‏

ابو قلابہ سے روایت ہے کہ میں شام میں چند لوگوں کے بیچ بیٹھا تھا کہ اتنے میں ابوالاشعث آیا۔ لوگوں نے کہا ابوالاشعث ابوالاشعث، تو وہ بیٹھ گیا۔ میں نے اس سے کہا کہ تم میرے بھائی سے عبادہ بن صامت کی حدیث بیان کرو۔ اس نے کہا اچھا، ہم نے ایک جہاد کیا جس میں معاویہ سردار تھا تو بہت چیزیں غنیمت میں حاصل کیں، ان میں ایک چاندی کا برتن بھی تھا۔ معاویہ نے ایک آدمی کو حکم دیا اس کے بیچنے کا تاکہ لوگوں کی تنخواہ ادا ہوسکے۔ لوگوں نے اس کے لینے میں جلدی کی۔ یہ خبر عبادہ بن صامت کو پہنچی تو وہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ میں نے رسول اللہ (ص) سے سنا ہے وہ سونے کو سونے کے بدلے، چاندی کو چاندی کے بدلے اور گیہوں کو گیہوں کے بدلے، جو کو جو کے بدلے ، کھجور کو کھجور کے بدلے اور نمک کو نمک کے بدلے سے بیچنے سے منع فرمایا کرتے تھے مگر برابر برابر نقد تو پھر جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا تو اس نے ربا کا ارتکاب کیا۔ یہ سن کر لوگوں نے جو لیا تھا واپس کردیا۔ معاویہ کو جب یہ خبر پہنچی تو وہ کھڑا ہوگیا اور خطبہ دیا کہ لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ رسول اللہ (ص) سے وہ احادیث بیان کرتے ہیں جنہیں ہم نے کبھی نہیں سنا جبکہ ہم نے رسول اللہ (ص) کو دیکھا اور ان کی صحبت میں رہے۔ پھر عبادہ کھڑے ہوئے اور وہ قصہ دوبارہ بیان کیا اور اس کے بعد کہا کہ ہم تو وہ حدیث جو ہم نے رسول اللہ (ص) سے سنی ہے اسے ضرور بیان کرینگے چاہے اس سے معاویہ کو برا لگے یا معاویہ کی ذلت ہو۔ مجھے پروا نہیں اگر میں معاویہ کے ساتھ نہ اس کے لشکر میں تاریک رات میں نہ رہوں۔ حماد نے کہا کہ ایسا ہی ہے۔
 صحیح مسلم، کتاب المساقہ، حدیث 4145

تو ہم نے دیکھا کہ معاویہ نے ایک اور خرید و فروخت کا سلسلہ کیا جو برابر برابر کی بنیاد پر نہ تھا جیسا کہ رسول اللہ (ص) نے حکم دیا تھا۔ اس پر معاویہ کی ھٹ دھرمی کہ لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ رسول اللہ (ص) سے وہ احادیث بیان کرتے ہیں جنہیں ہم نے کبھی نہیں سنا۔ معاویہ اس معاملہ میں انجان کس طرح بن رہا ہے جبکہ ہم پہلے پڑھے چکے ہیں کہ حضرت عمر کے زمانے میں گورنر کی حیثیث سے معاویہ نے اسی طرح کی خرید و فروخت کی تھی جس پر حضرت ابودرداء نے مسئلہ کا شرعی حل معاویہ کے سامنے بیان کردیا تھا اس پر حضرت عمر نے بھی اس کی تصدیق کی تھی۔ جس کو حرام کاری کو شوق ہو وہ بہانے بنا ہی لیتا ہے!

اس کی علاوہ اہل ِسنت کی امام ابو جعفر الطحاوی نے شرح معانی الآثار میں تصدیق کی ہے کہ معاویہ سود خور تھا:

معاویہ نے ہیرے اور یاقوت کا ایک ہار 4600 درہم میں خریدا۔ جب معاویہ منبر پر بیٹھا، حضرت عبادۃ ابن صامت کھڑے ہوگئے اور کہا: 'نہیں، معاویہ نے ایسا معاہدہ کیا ہے جس کی بنیاد سود پر ہے۔

یاد رہے کہ رسول اللہ (ص) نے اس قسم کی خرید و فروخت کو حرام قرار دیا ہے۔ صحیح مسلم میں ہم پڑھتے ہیں:

قال لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه وقال هم سواء ‏.‏

جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (س) نے سود لینے اور دینے والے، اسے لکھنے والے اور دونوں گواہوں پر لعنت کی ہے اور یہ سب لوگ برابر ہیں۔

رسول اللہ (ص) کی اس حدیث کی روح سے معاویہ ملعونوں کا سردار ہے کیونکہ اس نے تو رسول اللہ (س) کے الفاظ کو جانتے ہوئے بھی رد کیا اور پھر بھی وہ کام کیا جسے رسول اللہ (ص) نے حرام قرار دیا تھا۔


نواصب کے 'ہادی' معاویہ نے نماز ِعید میں تبدیلیاں کردیں

امام جلال الدین سیوطی اپنی کتاب تاریخ خلفاء، ص 200 میں لکھتے ہیں:

زھری نماز ِعید کے حوالے سے کہتے ہیں کہ نماز سے قبل خطبہ دینے والا پہلا شخص معاویہ ہے۔

امام شافعی اپنی کتاب ’الام‘ ج ا ص 392 میں لکھتے ہیں

أخبرنا الشافعي قال أخبرنا إبراهيم قال حدثني داود بن الحصين عن عبد الله بن يزيد الخطمي ‏(‏أن النبي -صلى الله عليه وسلم- وأبا بكر وعمر وعثمان كانوا يبتدئون بالصلاة قبل الخطبة حتى قدم معاوية فقدم الخطبة‏)‏۔

امام شافعی کہتے ہیں کہ عبداللہ بن یزید الخطمی کا قول ہے کہ رسول اللہ (ص)، ابو بکر، عمر اور عثمان خطبہ سے قبل نماز ادا کرتے تھے حتی کہ معاویہ آیا اور اس نے خطبہ کو نماز سے قبل کردیا

ابن کثیر البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 139 میں لکھتے ہیں:

وقال قتادة‏:‏ عن سعيد بن المسيب‏:‏ أول من أذن وأقام يوم الفطر والنحر معاوية‏.

قتادہ نے سعید بن المسیب سے بیان کیا ہے کہ معاویہ وہ پہلا شخص تھا جس نے عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے دوران اذان اور اقامت کہی۔

امام ابن حجر عقسلانی نے فتح الباری شرح صحیح بخاری، ج 2 ص 529 میں اس معاملہ کو مزید واضح کیا ہے:

اس بات پر اختلاف ہے کہ کس نے نماز ِعید میں اذان متعارف کرائی۔ ابن شیبہ نے ایک صحیح سند سے اس کام کو معاویہ کی طرف منسوب کیا ہے جبکہ شافعی کا کہنا ہے کہ یہ بصرہ میں ابن زیاد نے کیا اور داؤد کا کہنا ہے اسے مروان نے شروع کیا، لیکن روایات کی اکثریت اس سے متفق نہیں۔ اسے معاویہ نے شروع کیا بالکل اسی طرح جس طرح اس نے نماز ِعید سے قبل خطبہ شروع کردیا تھا۔

تو اس مرتبہ معاویہ کی مرضی کی تلوار نماز ِعید پر گری۔ جی ہاں ورنہ اصل طریقہ کیا ہے وہ ہم صحیح مسلم میں یوں پڑھتے ہیں:

وحدثنا محمد بن عبد الله بن نمير، حدثنا أبي، حدثنا عبد الملك بن أبي سليمان، عن عطاء، عن جابر بن عبد الله، قال شهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة يوم العيد فبدأ بالصلاة قبل الخطبة بغير أذان ولا إقامة ثم قام متوكئا على بلال فأمر

حضرت جابر بن عبداللہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (ص) کے ساتھ نماز ِعید ادا کی۔ انہوں (ص) نے خطبہ سے قبل نماز ادا کی بغیر اذان اور اقامت کے۔
 صحیح مسلم، حدیث 2085

ویسے تو رسول اللہ (ص) کا مندرجہ بالا عمل نواصب کو بتانے کے لئے کافی ہونا چاہئے کہ جس معاویہ کا وہ احترام و تکریم کرتے ہیں وہ کتنا بڑا گستاخ ِرسول تھا کہ اس نے رسول اللہ (ص) کے عمل کو مکمل اور حجت نہ تسلیم کیا اور خود ہی شریعت میں تبدیلیاں کردیں لیکن پھر بھی ہم نماز ِعید کا درست طریقہ کار امام مالک کے حوالے سے بھی پیش کیے دیتے ہیں۔ موطا مالک، کتاب العیدین، حدیث 431:

حدثني يحيى، عن مالك، أنه سمع غير، واحد، من علمائهم يقول لم يكن في عيد الفطر ولا في الأضحى نداء ولا إقامة منذ زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليوم ‏.‏ قال مالك وتلك السنة التي لا اختلاف فيها عندنا ‏.‏

امام مالک نے کتنے علماء کو فرماتے ہوئے سنا کہ عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی رسول اللہ (ص) کے زمانے سے آج تک اذان و اقامت نہیں ہوئی۔ امام مالک نے فرمایا کہ یہ ایک ایسی سنت ہے جس میں ہمارے نزدیک کوئی اختلاف نہیں۔
 موطا مالک، کتاب العیدین، حدیث 431


نواصب کے 'ہادی' معاویہ نے نماز ِپنجگانہ میں تکبیر کی تعداد گھٹادی

معاویہ نے صرف نماز ِعیدین میں تبدیلیاں کرنے کی جسارت نہیں کی بلکہ نماز ِپنجگانہ بھی معاویہ کے شر سے محفوظ نہ رہ سکی۔ امام ِاہل ِسنت بدرالدین الاعینی اپنی شہرائے آفاق کتاب عمدۃالقاری شرح صحیح بخاری، ج 6 ص 58 میں لکھتے ہیں:

وقال الطبري إن أبا هريرة سئل من أول من ترك التكبير إذا رفع رأسه وإذا وضعه قال معاوية

طبری نے کہا ہے کہ ابو ھریرہ سے سوال کیا گیا اس پہلے شخص کے متعلق جس نے سر اٹھانے اور سجدہ کے دوران تکبیر ختم کردی، تو انہوں نے جواب دیا، معاویہ۔

جلال الدین سیوطی اسی طرح اپنی کتاب الوسائل فی مسامرۃ الاوائل، ص 164 میں لکھا ہے:

أول من نقص التكبير معاوية

سب سے پہلا شخص جس نے تکبیر کم کردیں وہ معاویہ ہے

علامہ اشفاق الرحمٰن السندی نے موطا مالک کی شرح، ص 61 میں لکھا ہے:

طبرانی نے ابو ھریرہ سے روایت کی ہے کہ سب سے پہلا شخص جس نے تکبیر کم کردیں وہ معاویہ ہے


نواصب کے 'ہادی' معاویہ نے نماز ِپنجگانہ میں اقامت گھٹادی

امام ذھبی کتاب تنقیح التحقیق، ج 1 ص 113 میں لکھتے ہیں:

وقال النخعي : أول من نقص الإقامة معاوية

النخعی نے کہا ہے کہ معاویہ وہ پہلا شخص ہے جس نے اقامت میں کمی کردی

آگے امام ذھبی لکھتے ہیں:

مجاہد نے کہا ہے کہ اذان اور اقامت دو دو ہوا کرتی تھیں لیکن جب بنی امیہ نے حکومت کی تو انہوں نے ایک اقامت کردی۔


نواصب کے 'ہادی' معاویہ کا فتویٰ کہ آدمی ایک وقت میں دو بہنوں کو بیویوں کی طرح رکھ سکتا ہے

امام جلال الدین سیوطی نے تفسیر در المنثور، ج 2 ص 447 سورہ 4 آیت 23 میں لکھتے ہیں:

قاصم بن محمد نے بیان کیا ہے کہ معاویہ سے سوال کیا گیا کہ آیا یہ جائز ہے کہ ایک آدمی ایک وقت میں دو بہنوں کے ساتھ شادی کر لے۔ معاویہ نے جواب دیا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ یہ بات سن کر نعمان بن بشیر نے کہا کہ آپ نے یہ فتویٰ صادر کردیا ہے؟ جس پر معایہ نے جواب دیا، ہاں۔


نواصب کے 'ہادی' معاویہ نے السلام میں ایک قسم اور ایک گواہی کی بدعت متعارف کرائی

دیوبند مسلک میں قابل ِاحترام سمجھے جانے والے مفتی علامہ محمد عبد الحئی لکھنوی (متوفی 1304 ھ) نے موطا امام محمد کی شرح میں لکھا ہے:

ذكر ذلك ابن ابي ذئب عن ابن شهاب الزهري قال سألته عن اليمين مع الشاهد فقال : بدعة وأول من قضى بها معاوية

ابن ابی ذئب نے بیان کیا ہے کہ میں نے ابن شھاب الزہری سے قسم اور گواہ کے متعلق سوال کیا جس پر انہوں نے جواب دیا کہ یہ بدعت ہے جسے سب سے پہلے معاویہ نے ایجاد کیا۔
 تعلیق المجید شرح موطا محمد، ص 363

حنفی مسلک میں فقہ کی بلند پایہ کتاب شرح الوقایہ میں ہم پڑھتے ہیں:

إذا أنكر الخصم يرد اليمين على المدعي وعندنا هذا بدعة وأول من قضى بها معاوية

اگر جوابدار انکار کردے تو مدعی کو حلف لینا پڑے گا اور یہ بدعت ہے جسے سب سے پہلے معاویہ نے ایجاد کیا۔
 شرح اوقایہ، ج 3 ص 205

امام سعد الدین تفتازانی لکھتے ہیں:

وذكر في المبسوط أن القضاء بشاهد ويمين بدعة وأول من قضى بها معاوية

المبسوط میں ہے کہ ایک حلف اور گواہ کی بنیاد پر فیصلہ دینا بدعت ہے جسے سب سے پہلے معاویہ نے ایجاد کیا۔
 توضیح شرح تلویح، ص 430


نواصب کے 'ہادی' معاویہ نے چور کی شرعی سزا کا اطلاق ترک کردیا

اللہ تعالیٰ نے اپنے دین میں بعض مخصوص جرائم کی سزائیں خود صادر فرمائی ہیں جیسے سرقہ کی سزا ہاتھ کاٹنا۔ ہم سورہ المائدہ آیت 33 میں پڑھتے ہیں:

اور چور خواہ مرد ہو یا عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو یہ ان کی کمائی کا بدلہ اور الله کی طرف سے عبرت ناک سزا ہے اور الله غالب حکمت والا ہے

لیکن جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جب ایک مرتبہ معاویہ کے ہاتھ ڈاکوؤں کا گروہ لگا اور معاویہ نے اس گروہ پر مندرجہ بالا سزا کا کیا سوائے ایک شخص کے جسے معلوم تھا کہ معاویہ کو (مزید) بیوقوف کس طرح بنانا ہے۔ اس نے چند واحیات اشعار سنائے اور سپاہ ِصحابہ کا ناصبی پیشوا اللہ تعالی ٰ کی جانب سے وضع شدہ حد جاری کرنا بھول گیا۔ امام ِ اہل ِسنت علی بن محمد حبیب البصری البغدادی جو الماوردی (متوفی 450 ھ) کے نام سے مشہور ہیں اس کتاب میں جو ان کی وجہ شہرت ہے یعنی احکام السلطانیہ، ص 247 (انگریزی ترجمہ) میں بیان کرتے ہیں:

وحكي أن معاوية أتى بلصوص فقطعهم حتى بقي واحد منهم فقدم ليقطع فقال من الطويل ۔۔۔۔ فقال معاوية كيف أصنع بك وقد قطعت أصحابك? فقالت أم السارق اجعلها من جملة ذنوبك التي تتوب إلى الله منها فخلي سبيله، فكان أول حد ترك في الإسلام.

بیان کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ معاویہ نے چوروں کے ایک گروہ کے ہاتھ کاٹ دیئے لیکن جب ان میں سے آخری چور کے ہاتھ کاٹنے کی باری آئی تو اس نے مندرجہ ذیل اشعار پڑھیے:

اے امیر المومنین میری التجاء سنیئے
میرے دائیں ہاتھ کو کاٹ کر اسے اذیت نہ دیں
اگر کٹ گیا تو میرا ہاتھ ایک خوبصورت عورت کی طرح ہوجائیگا
اور ایک خوبصورت عورت کسی بےشرمی کے لئے عیاں نہیں ہوتی
دنیا میں پھر اچھائی ہی کیا رہ جائیگی
اگر دائیاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ سے جدا ہوجائے؟
معاویہ نے کہا کہ اب میں کیا کرسکتا ہوں جب میں نے تمہارے ساتھیوں کے ہاتھ کاٹ بھی دیئے۔ جس پر چور کی ماں نے کہا کہ آپ اسے ان گناہوں میں سے ایک کیوں بناتے ہیں جس کے لئے آپ کو اللہ کو جواب دینا پڑےگا، جس پر معاویہ نے اسے چھوڑ دیا اور یہ السلام میں پہلی مرتبہ ہوا کہ حد جاری نہیں کی گئی۔


معاویہ اور اس کے ناصبی پیروکاروں نے بغض ِعلی بن ابی طالب (ع) میں سنت کو ترک کردیا

حج کر دوران تلبیہ یعنی لبیک اللھم لبیک کہنا سنت ہے لیکن جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ مولا علی بن ابی طالب (ع) اس سنت کا مکمل اتباع کیا کرتے تھے لہٰذا بےغیرت منافقین نے محض بغض ِعلی بنی ابی طالب (ص) کی وجہ سے اس سنت کو ترک کرڈالا جس کی بنیاد امام ِالنواصب معاویہ نے رکھی اور جسے اس کی ناصبی پیروکاروں نے پروان چڑھایا۔ امام نسائی نے نقل کیا ہے:

عن ‏ ‏سعيد بن جبير ‏ ‏قال ‏ ‏كنت مع ‏ ‏ابن عباس ‏ ‏بعرفات ‏ ‏فقال ما لي لا أسمع الناس يلبون قلت يخافون من ‏ ‏معاوية ‏ ‏فخرج ‏ ‏ابن عباس ‏ ‏من فسطاطه فقال ‏ ‏لبيك اللهم لبيك لبيك فإنهم قد تركوا السنة من بغض ‏ ‏علي

سعید بن جبیر نے بیان کیا ہے ہم حضرت ابن عباس کے ہمراہ عرفہ میں موجود تھے کہ ابن عباس نے کہا: 'اے سعید، مجھے لوگ تلبیہ کہتے سنائی کیوں نہیں دے رہے؟'۔ میں نے جواب دیا کہ سب لوگ معاویہ سے خوفزدہ ہیں۔ پھر ابن عباس اپنے حجرے سے باہر نکلے اور پکارا: ' لبیک اللھم لبیک۔ ان لوگوں نے بغض ِعلی کی وجہ سے سنت کو ترک کردیا ہے'۔
  سنن نسائی، حدیث 2956

اس روایت کو سلفیوں کی امام ناصر الدین البانی نے سنن نسائی کے حاشیہ میں صحیح قرار دیا ہے جبکہ امام خزیمہ نے اسے اپنی کتاب صحیح ابن خزیمہ، ج 4 ص 260 حدیث 2830 میں درج کیا ہے جس پر کتاب کا حاشیہ تحریر کرنے والا علامہ العظیمی نے اس کے صحیح ہونے کی مزید تصدیق کی ہے جبکہ امام حاکم نے اسے المسدراک، ج 1 ص 364 میں درج کر کے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

امام بھقی نے سنن الکبرہ، ج 5 ص 113 میں اسی واقع کو دوسرے طریقہ سے بیان کیا ہے جہاں حضرت ابن عباس نے معاویہ والوں پر لعنت کی ہے:

پھر ابن عباس اپنے حجرے سے باہر آئے اور کہا معاویہ کے برخلاف کہا لبیک اللھم لبیک ۔ اللہ کی لعنت ہو ان لوگوں پر۔ ان لوگوں نے بغض ِعلی کی وجہ سے سنت کو ترک کردیا ہے۔

سنن نسائی کی شرح تحریر کرنے والے علامہ محمد بن عبدالہادی السندی نے لکھا ہے:

أي لأجل بغضه أي وهو كان يتقيد بالسنن فهؤلاء تركوها بغضا له

ایسا ان لوگوں کا بغض ِعلی کی وجہ سے تھا کیونکہ علی سنت سے منسلک تھے لہٰذا ان لوگوں نے بغض ِعلی کی وجہ سے سنت کو ترک کردیا۔


معاویہ اور اس کے ناصبی پیروکاروں نے بغض ِعلی (ع) کی وجہ سے نماز میں بلند آواز سے بسم اللہ کہنا ترک کردیا

امام فخرالدین الرازی نے تفسیر کبیر، ج 1 ص 180-181 میں 'بسم اللہ الرحمٰن الرحیم' کی شرح میں لکھتے ہیں:

امام شافعی نے اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ معاویہ مدینہ آیا اور نماز کی امامت کی۔ نماز میں نہ ہی اس نے ' بسم اللہ الرحمٰن الرحیم' پڑھا اور نہ ہی رکوع و سجود کے دوران تکبیر پڑھی۔ جب معاویہ نے سلام پڑھ لیا تو مہاجرین و انصار چیخ اٹھے: ' اے معاویہ، تم نے نماز میں چور ی کی ہے۔ ' بسم اللہ الرحمٰن الرحیم' اور رکوع و سجود کے دوران تکبیر کہاں چلی گئی؟'۔ امام شافعی نے کہا ہے کہ معاویہ مضبوط حکمراں تھا اور فوجی اعتبار سے بھی بہت طاقتور تھا لہٰذا اگر مہاجرین و انصار میں سے تمام صحابہ کے درمیان 'بسم اللہ الرحمٰن الرحیم' کا پڑھنا ایک متفق امر نہ ہوتا تو وہ معاویہ کے سامنے اس کی جانب سے 'بسم اللہ الرحمٰن الرحیم' کو ترک کرنے پر احتجاج نہ کرتے۔

۔۔۔۔ بھقی نے سنن الکبیرہ میں ابو ھریرہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (ص) بلند آواز سے ' بسم اللہ الرحمٰن الرحیم' پڑھا کرتے تھے۔ ابن عباس، ابن عمر، ابن زبیر بھی بلند آواز سے پڑھا کرتے تھے۔ علی بن ابی طالب بھی نماز میں بلند آواز سے ' بسم اللہ الرحمٰن الرحیم' پڑھا کرتے تھے اور یہ بات طے شدہ ہے کہ جس کسی نے بھی دین میں علیؑ کی پیروی کی اس نے ہدایت حاصل کرلی اور اس کا ثبوت رسول اللہ (ص) کی وہ دعا ہے یعنی اے اللہ، جہاں جہاں علی رخ کرے حق کا رخ بھی وہیں کردے۔

۔۔۔۔ علی 'بسم اللہ الرحمٰن الرحیم' بلند آواز سے پڑھنے میں بہت محتاط تھے لیکن جب بنی امیہ کی حکومت آئی تو وہ علی سے اختلاف کرنے کی غرض سے 'بسم اللہ الرحمٰن الرحیم' بلند آواز سے پڑھنے کو ترک کرنے میں بہت محتاط تھے اس لئے شائد انس ان لوگوں سے خوفزدہ تھے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان سے ایک ہی مسئلہ پر دو مختلف باتیں سامنے آئیں ہیں۔
 تفسیر کبیر، ج 1 ص 180-181


معاویہ شریعت میں ممنوع لباس زیب ِتن کرتا تھا حالانکہ اسے علم تھا کہ یہ حرام ہے

سنن ابو داود، کتاب 32، حدیث 4119:

مقدام بن معدی کرب معاویہ ابن ابنی سفیان کے پاس آئے تو معاویہ بن ابی سفیان نے المقدام بن معدی کرب سے کہا: کیا تمہیں علم ہے کہ الحسن بن علی وفات پا گئے ہیں؟ اس پر مقدام بن معدی کرب نے قرآنی آیت پڑھی انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ایک آدمی نے کہا: تو کیا تم الحسن کے مرنے کو ایک مصیبت تصور کر رہے ہو ؟ اس پر مقدام نے جواب دیا: "میں اسے مصیبت کیسے نہ جانوں جبکہ رسول ص الحسن کو اپنی گود میں لیتے تھے اور کہتے تھے کہ الحسن مجھ سے ہے جبکہ الحسین علی سے ہیں۔
اس پر بنی اسد کے آدمی نے کہا: الحسن ایک جلتا ہوا انگارہ تھا جسے اللہ نے بجھا دیا۔ مقدام بن معدی نے کہا کہ آج میں تمہیں مزید غصہ دلاؤنگا اور تمہیں وہی سناؤنگا جو تمہیں ناپسند ہے۔ اے معاویہ، اگر میں سچ کہوں تو میرے سچے ہونے کی تصدیق کرنا اور اگر میں جھوٹ بولوں تو میرے جھوٹے ہونے کی تصدیق کرنا۔

معاویہ نے کہا ٹھیک ہے۔ مقدام نے کہا کہ میں تم سے اللہ کے نام پر سوال کرتا ہوں کیا تم نے رسول اللہ (ص) کو سونا پہننے سے منع کرتے نہیں سنا؟

معاویہ نے جواب دیا کہ ہاں۔ اس نے پھر سوال کیا کہ میں تم سے اللہ کے نام پر سوال کرتا ہوں کیا تم نے رسول اللہ (ص) کو ریشم پہننے سے منع کرتے نہیں سنا؟

معاویہ نے جواب دیا کہ ہاں۔ اس نے پھر سوال کیا کہ میں تم سے اللہ کے نام پر سوال کرتا ہوں کیا تمہیں علم نہیں کہ رسول اللہ (ص) نے شکاری جانور کی کھال پہننے اور اس پر سواری کرنے سے منع کیا ہے؟

معاویہ نے جواب دیا کہ ہاں۔ اس نے پھر سوال کیا کہ میں تم سے اللہ کے نام پر سوال کرتا ہوں کیا تمہیں علم نہیں کہ رسول اللہ (ص) نے شکاری جانور کی کھال پہننے اور اس پر سواری کرنے سے منع کیا ہے؟

معاویہ نے جواب دیا کہ ہاں۔ اس نے کہا، اللہ کی قسم میں نے یہ تمام چیزیں تمہارے گھر میں دیکھی ہیں۔

معاویہ نے جواب دیا، میں جانتا ہوں۔ میں تم سے نہیں بچ سکتا اے مقدام۔
(جاری ہے)