شیعہ اورصحابہ(حصہ اول)۔ - Companian


صحابہ کرام(ر) کو گالیاں دینے اور برا بھلا کہنے کی شروعات کس نے کی؟

جرم ایک تو پھر سزائیں دو کیوں؟
باب 1: معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا

بنی امیہ کے حامی ناصبی حضرات کہتے ہیں کسی صحابی کے غلط کاموں کو بیان کرنا کفر، اور ان پر تنقید کرنا کفر ہے اور اسی لیے شیعہ کافر ۔

اگر کفر کا معیار واقعی کسی صحابی پر تنقید کرنا ہی ہے تو پھر سب سے بڑے کافر بنی امیہ ہوئے جو عرصہ دراز تک صحابی علی ابن ابی طالب اور اہلبیت علیہم السلام پر گالیوں کی بوچھاڑ کرتے رہے۔ مگر ناصبی حضرات اپنی منافقانہ روش دیکھیں کہ بجائے بنی امیہ پر کفر کے فتوے لگانے کے انہوں نے بنی امیہ کو خلفاء معاویہ و یزید و مروان بن حکم وغیرہ کو "رضی اللہ عنہ" اور "امیر المومنین" بنا رکھا ہے۔

آئیے اللہ کے نام سے شروع کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں ذیل میں بنی امیہ کے کفر کے ثبوت۔

ثبوت نمبر 1:


صحیح مسلم کی روایت ملاحظہ ہو:

عن عامر بن سعد بن أبي وقاص، عن أبيه، قال أمر معاوية بن أبي سفيان سعدا فقال ما منعك أن تسب أبا التراب فقال أما ما ذكرت ثلاثا قالهن له رسول الله صلى الله عليه وسلم فلن أسبه لأن تكون لي واحدة منهن ۔۔۔

جب معاویہ نے سعد کو گورنر بنایا تو سعد کو حکم دیا اور کہا کہ تمہیں کس چیز نے روکا ہے کہ تم ابو تراب [یعنی علی ابن ابی طالب] پر سب نہ کرو ۔ اس پر سعد نے کہا میں نے رسول ص سے علی کے متعلق تین ایسی باتیں سنی ہیں کہ جس کے بعد میں کبھی علی پر سب نہیں کہہ سکتا ۔۔۔
 صحیح مسلم، کتاب الفضائل الصحابہ، باب من فضائل علی بن ابی طالب

بعض نواصب نہ اپنے ملک کی معتبر ترین کتاب میں موجود اس روایت سے بےحد پریشان ہوئے ہیں کیونکہ ان کے خود ساختہ عقیدہ کے مطابق صحابہ کو برا بھلا کہنا کفر ہے لیکن اس روایت میں نواصب کا پیشوا خود ایسے شخص کو گالیاں دیے کا حکم دے رہا ہے جو نواصب کے مذہب کا چہتا خلیفہ ِراشد ہے۔ اس پریشانی سے نکل نے کی غرض سے ایک عجیب بہانہ تلاش کیا گیا۔ یعنی اس روایت سے خلاف ِحقیقت مطلب اخذ کرنا۔ معاویہ خیل قبیلے والوں کا کہنا ہے کہ اس روایت میں معاویہ، سعد کو علی بن ابی طالب پر سب و شتم کرنے کا حکم نہیں دے رہا بلکہ وہ تو بس سعد سے سوال کرہا ہے اور دریافت کرہا ہے کہ سعد کو علی بن ابی طالب پر سب و شتم کرنے سے کیا چیز روکتی ہے؟

تو ایسے احمق نواصب کے لئے عرض ہے کہ آخر معاویہ کو سعد سے اس بات کا سبب دریافت کرنے کی ضرورت پیش ہی کیوں آئی؟ ظاہر ہے سعد بن ابی وقاص نے معاویہ کے حکم کو مانتے ہوئے علی بن ابی طالب پر سب و شتم نہ کیا جیسا کہ معاویہ کے دیگر گورنر اس حکم کی تعمیل کیا کرتے تھے پس اسی وجہ سے معاویہ کو اپنا تجسس دور کرنے کے لئے سعد سے سوال کرنا پڑا اور سعد نے اس کی وجہ بیان بھی کی۔ نواصب کے لئے یہ بھی عرض ہے کہ روایت میں معاویہ کا سعد کو ‘حکم’ دینا بیان کیا گیا ہے جو کہ نواصب کی اس کوشش کو ناکام بنا دیتا ہے کہ معاویہ تو سعد سے محض سوال کرہا تھا۔

اور پھر نواصب کو یہ بھی یاد دلا دیا جائے کہ یہ واقعہ اور بھی طریقوں سے بیان ہوا ہے جس کو پڑھنے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ معاویہ تو سعد کو علی بن ابی طالب پر سب و شتم کرنے کو حکم دے رہا تھا جس سے سعد نے انکار کیا۔


ثبوت نمبر 2:

حافظ ابن حجر العسقلانی علی کی فضیلت میں یہی روایت نقل کرنے کے بعد اسکے نیچے ایک اور روایت نقل کرتے ہیں:

وعند أبي يعلى عن سعد من وجه آخر لا بأس به قال لو وضع المنشار على مفرقي على أن أسب عليا ما سببته أبدا

اور ابی یعلی نے سعد سے ایک اور ایسے حوالے [سند] سے نقل کیا ہے کہ جس میں کوئی نقص نہیں کہ سعد نے [معاویہ ابن ابی سفیان سے کہا]: اگر تم میری گردن پر آرہ [لکڑی یا لوہا کاٹنے والا آرہ] بھی رکھ دو کہ میں علی [ابن ابی طالب] پر سب کروں [گالیاں دینا، برا بھلا کہنا] تو تب بھی میں کبھی علی پر سب نہیں کروں گا۔
 فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج 7 ص 74

اسی روایت کے ذیل میں لفظ سب کے متعلق شاہ عبدالعزیز کا ایک جواب فتاوی عزیزیہ، مترجم [شائع کردہ سعید کمپنی، کراچی] صفحہ 413 پر موجود ہے، جس میں شاہ صاحب فرماتے ہیں:

بہتر یہی ہے کہ اس لفظ [سب] سے اسکا ظاہری معنی سمجھا جائے۔ مطلب اسکا یہی ہو گا کہ ارتکاب اس فعل قبیح کا یعنی سب یا حکم سب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صادر ہونا لازم آئے گا۔ تو یہ کوئی اول امر قبیح نہیں ہے جو اسلام میں ہوا ہے، اس واسطے کہ درجہ سب کا قتل و قتال سے بہت کم ہے۔ چنانچہ حدیث صحیح میں وارد ہے کہ "سباب المومن فسوق و قتالہ کفر" یعنی برا کہنا مومن کو فسق ہے اور اسکے ساتھ قتال کرنا کفر ہے۔" اور جب قتال اور حکم قتال کا صادر ہونا یقینی ہے اس سے کوئی چارہ نہیں تو بہتر یہی ہے کہ انکو مرتکب کبیرہ [گناہ] کا جاننا چاہیے۔ لیکن زبان طعن و لعن بند رکھنا چاہیے۔ اسی طور سے کہنا چاہیے جیسا صحابہ رضوان اللہ علیھم سے اُن کی شان میں کہا جاتا ہے جن سے زنا اور شرب خمر سرزد ہوا رضی اللہ عنہم اجمعین۔ اور ہر جگہ خطاء اجتہادی کو دخل دینا بیباکی سے خالی نہیں۔


ثبوت نمبر 3:

چونکہ صحیح مسلم کی روایت میں موجود معاویہ کا سعد سے کہا جانے والا جملہ سوالیہ انداز میں تھا لہٰذا نووی جیسے لوگوں کو موقع مل گیا کہ اپنے چہیتے صحابی معاویہ کا دفاع کرنے کی کوشش کی جائے اور معاویہ کے الفاظ کی تشریح یوں کی جائے کہ وہ تو بس سعد سے علی بن ابی طالب کو گالیاں نہ دینے کی وجہ پوچھ رہا تھا۔ لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا، یہ واقع کئی اور طریقوں سے نقل ہوا ہے۔ جیسا کہ علامہ محب طبری نے اپنی کتاب 'ریاض النضیرہ فی مناقب عشرہ مبشرہ' ج 1 ص 262 میں اسی واقع کو یوں نقل کیا ہے:


عن سعيد قال أمر معاوية سعدا أن يسب أبا تراب فقال أما ما ذكرت ثلاثا قالهن رسول الله صلى الله عليه وسلم ۔۔۔

سعید سے روایت ہے کہ معاویہ نے سعد کو حکم دیا کہ تو ابو تراب پر سب کرے جس پر سعد نے کہا کہ میں نے رسول اللہ (ص) سے تین باتیں سنی ہیں ۔۔۔

امام ِ اہل ِسنت ملا علی قاری نے اپنی کتاب 'مرقات شرح مشکات' ج 17 ص 493 میں کتاب 'ریاض النضیرہ' کی اسی روایت پر انحصار کیا ہے اور نقل کیا ہے۔


ثبوت نمبر 4:

ابن کثیر الدمشقی اپنی تاریخ میں نقل کرتے ہیں:

وقال أبو زرعة الدمشقي‏:‏ ثنا أحمد بن خالد الذهبي أبو سعيد، ثنا محمد بن إسحاق، عن عبد الله بن أبي نجيح، عن أبيه قال‏:‏ لما حج معاوية أخذ بيد سعد بن أبي وقاص‏.‏فقال‏:‏ يا أبا إسحاق إنا قوم قد أجفانا هذا الغزو عن الحج حتى كدنا أن ننسى بعض سننه فطف نطف بطوافك‏.‏قال‏:‏ فلما فرغ أدخله دار الندوة فأجلسه معه على سريره، ثم ذكر علي بن أبي طالب فوقع فيه‏.‏فقال‏:‏ أدخلتني دارك وأجلستني على سريرك، ثم وقعت في علي تشتمه ‏؟‏والله لأن يكون في إحدى خلاله الثلاث أحب إلي من أن يكون لي ما طلعت عليه الشمس، ولأن يكون لي ما قال حين غزا تبوكاً ‏(‏‏(‏إلا ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي ‏؟‏‏)‏‏)‏أحب إلي مما طلعت عليه الشمس، ولأن يكون لي ما قال له يوم خيبر‏:‏ ‏(‏‏(‏لأعطين الراية رجلاً يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله يفتح الله على يديه، ليس بفرار‏)‏‏)‏ ‏(‏ج/ص‏:‏ 7/377‏)‏أحب إليّ مما طلعت عليه الشمس، ولأن أكون صهره على ابنته ولي منها الولد ماله أحب إليّ من أن يكون لي ما طلعت عليه الشمس، لا أدخل عليك داراً بعد هذا اليوم، ثم نفض رداءه ثم خرج‏.
ابو زرعہ الدمشقی عبداللہ بن ابی نجیح کے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب معاویہ نے حج کیا تو وہ سعد بن ابی وقاص کا ہاتھ پکڑ کر دارالندوہ میں لے گیا اور اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا۔ پھر علی ابن ابی طالب کا ذکر کرتے ہوئے ان کی عیب جوئی کی۔ اس پر سعد بن ابی وقاص نے جواب دیا: "آپ نے مجھے اپنے گھر میں داخل کیا، اپنے تخت پر بٹھایا، پھر آپ نے علی ابن ابی طالب کے حق میں بدگوئی اور سب و شتم شروع کر دیا۔ خدا کی قسم، اگر مجھے علی کے تین خصائص و فضائل میں سے ایک بھی ہو تو وہ مجھے اس کائنات سے زیادہ عزیز ہو جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ کاش کہ نبی اللہ ص نے میرے حق میں یہ فرمایا ہوتا جب کہ آنحضور ص غزوہ تبوک پر تشریف لے جا رہے تھے تو آپ نے علی کے حق میں فرمایا:"کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو کہ ہارون کو موسی سے تھی سوائے ایک چیز کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔ یہ ارشاد میرے نزدیک دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب تر ہے۔ پھر کاش کہ میرے حق میں وہ بات ہوتی جو آنحضور ص نے خیبر کے روز علی کے حق میں فرمائی تھی کہ "میں جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اسکے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اسکا رسول ص اس سے محبت رکھتے ہیں۔ اللہ اسکے ہاتھ پر فتح دے گا اور یہ بھاگنے والا نہیں [غیر فرار]۔ یہ ارشاد بھی مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ عزیز تر ہے۔ اور کاش کہ مجھے رسول ص کی دامادی کا شرف نصیب ہوتا اور آنحضور (ص) کی صاحبزادی سے میرے ہاں اولاد ہوتی جو علی کو حاصل ہے، تو یہ چیز بھی میرے لیے دنیا و مافیہا سے عزیز تر ہوتی۔ آج کے بعد میں تمہارے گھر کبھی داخل نہ ہوں گا۔ پھر سعد بن ابی وقاص نے اپنی چادر جھٹکی اور وہاں سے نکل گئے۔
 البدایہ و النہایہ، جلد 7، صفحہ 341، باب فضائل علی ابن ابی طالب

یہ ایک مستند و متعبر روایت ہے لیکن انٹرنیٹ پر موجود چند نواصب نے پھر بھی اس میں شک ڈالنے کے لیے ایک راوی احمد بن خالد پر اعتراض کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اہل ِسنت کی کتابوں کے مطابق یہ راوی احمد بن خالد انتہائی ثقہ ہے اور اس کو ضعیف ثابت کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ انکے متعلق آئمہ رجال کے اقوال:
الذھبی نے ان کے متعلق کہا ہے: امام، محدث، ثقہ (سیر اعلام النبلاء جلد 9، صفحہ 539)۔ امام یحیی ابن معین: ثقہ (تھذیب الکمال جلد 1، صفحہ 301)۔ امام ابن حبان نے اس راوی کو اپنی کتاب 'الثقات' میں شامل کیا ہے جس میں امام بن حبان نے صرف انہی راویوں کو شامل کیا ہے جو ثقہ ہیں (جلد 8، صفحہ 6)۔ امام ابن ماجہ نے احمد بن خالد سے روایات نقل کی ہیں اور وہابیوں کے سعودی شیخ ناصرالدین البانی نے ان احادیث کو صحیح قرار دیا ہے (سنن ابن ماجہ، جلد 2، حدیث 3188) ۔ امام ابن خزیمہ نے احمد بن خالد سے اپنی کتاب میں روایات نقل کی ہیں جبکہ امام ابن خزیمہ نے کتاب کے شروع میں ہی واضح کیا ہے کہ وہ صرف وہ احادیث نقل کرتے ہیں جن کی سند میں ثقہ راوی ہوں۔ امام حاکم نے اپنی کتاب 'المستدراک' میں احمد بن خالد سے حدیث نقل کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے (المستدراک، ج 4 ص 117 حدیث 7072)۔


ثبوت نمبر 5:

اہل ِسنت کی احادیث کی چھ معتبر ترین کتابوں میں سے ایک یعنی سنن ابن ماجہ، جلد اول:

حدثنا علي بن محمد حدثنا أبو معاوية حدثنا موسى بن مسلم عن ابن سابط وهو عبد الرحمن عن سعد بن أبي وقاص قال قدم معاوية في بعض حجاته فدخل عليه سعد فذكروا عليا فنال منه فغضب سعد وقال تقول هذا لرجل سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول من كنت مولاه فعلي مولاه وسمعته يقول أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي وسمعته يقول لأعطين الراية اليوم رجلا يحب الله ورسوله

یعنی حج پر جاتے ہوئے سعد بن ابی وقاص کی ملاقات معاویہ سے ہوئی اور جب کچھ لوگوں نے علی کا ذکر کیا تو اس پر معاویہ نے علی کی بدگوئی کی۔ اس پر سعد بن ابی وقاص غضب ناک ہو گئے اور کہا کہ تم علی کے متعلق ایسی بات کیوں کہتے ہو۔ میں نے رسول اللہ ص کو کہتے سنا ہے کہ جس جس کا میں مولا، اُس اُس کا یہ علی مولا، اور یہ کہ اے علی آپکو مجھ سے وہی نسبت ہے جو کہ ہارون ع کو موسی ع سے تھی سوائے ایک چیز کہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا، اور میں نے [رسول اللہ ص] سے یہ بھی سنا ہے کہ کل میں علم ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہے۔

یہ بالکل صحیح الاسناد روایت ہے اور سلفیوں / وہابیوں کے امام ناصرالدین البانی نے اسے کتاب 'سلسلہ الاحاديث الصحيحہ' ج 1 ص 26 میں ذکر کیا ہے اور صحیح قرار دیا ہے۔
 سلسلہ الاحاديث الصحيحہ ، ج 1 ص 26


ثبوت نمبر 6:

علامہ عبد ربہ اندلسی اپنی کتاب العقد الفیرد میں معاویہ اور سعد ابن ابی وقاص کے درمیان ہونے والے مکالمہ کو ایک اور انداز سے نقل کیا ہے:

فکتبت ام سلمۃ زوج النبی الی معاویۃ: انکم تلعنون اللہ و رسولہ علی منابرکم، و ذلک انکم تلعنون علی بن ابی طالب و من احبہ، و انا اشھد ان اللہ احبہ و رسولہ، فلم یلتفت الی کلامھا۔

جب حسن بن علی کی وفات ہوئی تو معاویہ حج کے لئے گئے اور مدینہ میں داخل ہوئے اور منبر ِرسول سے علی پر لعنت کرنا چاہتے تھے لیکن وہاں کے لوگوں نے ان سے کہا: 'سعد بن ابی وقاص یہیں موجود ہیں اور وہ آپ کے اس فعل کو قبول نہیں کرینگے، آپ کو ان سے پہلے پوچھ لینا چاہئے'۔ لہٰذا معاویہ نے سعد سے رابطہ کیا اور اس متعلق دریافت کیا جس پر سعد نے کہا:
'اگر تم نے یہ کیا تو میں اس مسجد سے چلا جاؤنگا اور پھر کبھی یہاں واپس نہیں آؤنگا'۔ لہٰذا معاویہ نے اپنے آپ کو اس فعل سے روکے رکھا جب تک کہ سعد کا انتقال نہ ہوگیا پھر اس کے بعد معاویہ نے منبر ِرسول سے علی پر لعنت کرنا شروع کردیا اور اپنے گورنروں کو بھی حکم دیا کہ وہ بھی منروں سے علی پر لعنت کریں لہٰذا گورنروں نے ایسا ہی کیا۔
 العقد الفرید، ج 3 ص 300

ثبوت نمبر 7:

ام المومنین حضرت ام سلمہ سلام اللہ علیہا نے علی ابن ابی طالب کو گالیاں دینے پربھرپور احتجاج کیا۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ سلام اللہ علیہا نے معاویہ کو ایک خط لکھا جس کا ذکر علامہ ابن ابی ربہ نے اپنی کتاب 'العقد الفرید' میں یوں کیا ہے:

معاویہ نے منبر ِرسول سے علی پر لعنت کرنا شروع کردیا اور اپنے گورنروں کو بھی حکم دیا کہ وہ بھی منروں سے علی پر لعنت کریں لہٰذا گورنروں نے ایسا ہی کیا۔ پھر زوجہ ِرسول ام سلمہ نے معاویہ کو خط تحریر کیا جس میں لکھا: 'تم اپنے منبروں سے علی بن ابی طالب اور ان کے محبان پر لعنت کرنے کے نتیجے میں دراصل خدا اور اس کے رسول پر لعنت کرتے ہو، میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ اور اس کے رسول ان سے محبت کرتے'۔ لیکن معاویہ نے امہ سلمہ کی بات پر دہان نہ دیا۔
العقد الفرید، ج 3 ص 300

ام المومنین حضرت ام سلمہ سلام اللہ علیہا کی یہ روایت کئی طریقوں سے امام احمد نے اپنی مسند میں بھی نقل کی ہے جسے کتاب کا حاشیہ تحریر کرنے والی شیخ شعیب الارناووط نے صحیح قرار دیا ہے:

حدثنا عبد الله حدثني أبى ثنا يحيى بن أبى بكير قال ثنا إسرائيل عن أبى إسحاق عن عبد الله الجدلي قال دخلت على أم سلمة فقالت لي : أيسب رسول الله صلى الله عليه و سلم فيكم قلت معاذ الله أو سبحان الله أو كلمة نحوها قالت سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول من سب عليا فقد سبني

یحیی بن ابی بکیر نے ہم سے بیان کیا کہ اسرائیل نے ابو اسحاق سے بحوالہ ابو عبداللہ البجلی ہم سے بیان کیا کہ میں حضرت ام سلمہ کے پاس گیا تو آپ نے مجھے فرمایا کہ کیا تم میں رسول اللہ (ص) کو سب و شتم کیا جاتا ہے؟ میں نے کہا کہ معاذاللہ یا سبحان اللہ یا اسی قسم کا کوئی کلمہ کہا ۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (ص) کو فرماتے سنا ہے کہ جس نے علی کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی۔
 مسند احمد بن حنبل، ج 6 ص 323 حدیث 26791

امام ِ اہل ِسنت ابو یعلیٰ نے کتاب مسند ابی یعلیٰ، ج 12 ص 444 میں 444اسی روایت کو دوسرے طریقے سے نقل کیا ہے جس پر کتاب کا حاشیہ تحریر کرنے والے علامہ حسین سالم اسد نے کہا ہے کہ روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔

حدثنا أبو خيثمة حدثنا عبيد الله بن موسى حدثنا عيسى بن عبد الرحمن البجلي عن السدي عن أبي عبد الله الجدلي قال : قالت أم سلمة : أيسب رسول الله - صلى الله عليه و سلم - على المنابر ؟ قلت : وأنى ذلك ؟ قالت : أليس يسب علي ومن يحبه ؟ فأشهد أن رسول الله - صلى الله عليه و سلم - كان يحبه

ابی عبداللہ البجلی روایت کیا ہے انہوں نے بیان کیا ہے کہ حضرت ام سلمہ نے مجھے فرمایا : 'منبر پر سے رسول اللہ پر سب کیسے ہوسکتا ہے؟' البجلی نے پوچھا: 'کیسے؟'۔ حضرت ام سلمہ نے جواب دیا: 'کیا علی اور ان سے محبت کرنے والوں پر سب نہیں کیا رہا؟۔ میں گواہی دیتی ہوں کہ رسول اللہ ان سے محبت کیا کرتے تھے'۔

اور ابن کثیر الدمشقی نے اپنی کتاب البدایہ و النہایہ میں حضرت ام سلمہ کے الفاظ کو کئی اور طریوقوں سے نقل کیا ہے:
 البدایہ و النہایہ، جلد ہفتم، صفحہ 463 [اردو ایڈیشن، نفیس اکیڈمی، ترجمہ اختر فتح پوری صاحب


ثبوت نمبر 8:

علامہ ابن اثیر نے اپنی کتاب 'تاریخ الکامل' میں امام حسن اور معاویہ کے درمیاں صلح کی شرائط نقل کیں ہیں جن میں سے ایک یہ بھی تھے کہ معاویہ، جس نے علی بن ابی طالب پر مساجد کے منبروں سے سب و شتم کا سلسلہ شروع کیا ہوا تھا، اسے بند کیا جائے۔ علامہ ابن اثیر لکھتے ہیں:

وكان الذي طلب الحسن من معاوية أن يعطيه ما في بيت مال الكوفة، ومبلغه خمسة آلاف ألف، وخراج دار ابجرد من فارسن وأن لا يشتم علياً، فلم يجبه إلى الكف عن شتم علي، فطلب أن لا يشتم وهو يسمع، فأجابه إلى ذلك ثم لم يف له به أيضاً، وأما خراج دار ابجرد فإن أهل البصرة منعوه منه وقالوا: هو فيئنا لا نعطيه أحداً، وكان منعهم بأمر معاوية أيضاً.

حسن نے معاویہ سے جو امور طلب کئے تھے وہ یہ تھے کہ کوفے کے بیت المال کی تمام رقم جسکی مقدار پچاس لاکھ تھی اور فارس کے دارلابجرد کا خراج انہیں دیا جائے اور یہ کہ علی ابن ابی طالب پر سب و شتم نہ کیا جائے۔ معاویہ نے سب و شتم سے باز رہنے کو منظور نہیں کیا۔ اس پر حسن نے پھر طلب کیا کہ ان کو ایسے وقت میں سب و شتم نہ کیا کریں جب حسن اس کو سن سکتے ہوں۔ اس بات کو معاویہ نے قبول کیا لیکن بعد میں یہ شرط بھی پوری نہ کی۔ باقی رہا دار الابجرد کا خراج تو اسے اہل بصرہ نے یہ کہہ کر روک لیا کہ وہ ہمارے مال غنیمت میں سے ہے اور وہ ہم کسی کو نہ دینگے۔ انہوں نے اس میں بھی معاویہ کے حکم سے ہی رکاوٹ ڈالی۔
 تاریخ الکامل (عربی)، ج 2 ص 108
 تاریخ الکامل (اردو)، ج 2 ص 2-3 (عثمانیہ اکیڈمی، حیدراباد، انڈیا)۔

اسی تاریخی حقیقت کو کئی سنی علماء نے اپنی کتابوں میں جگہ دی ہے۔ جیسے امام الذھبی اپنی کتاب 'العبر في خبر من غبر' میں صلح کی شرائط نقل کرتے ہیں:

ثم كتب إلى معاوية على أن يسلم إليه بيت المال وأن لا يسب عليًا بحضرته وأن يحمل إليه خراج فسا ودارابجرد كل سنة

پھر حسن نے معاویہ کو لکھا کہ (کوفہ کا) بیت المال ان کے حوالے کیا جائَے اور علی پر سب نہ کیا جائے اور دارالبجرد کا ٹیکس ہر سال انہیں دیا جائے
 العبر في خبر من غبر، ج 1 ص 18، باب: 37 ھجری

علامہ اسمعیل بن ابو الفداء اپنی 'تاریخ ابوالفداء' جلد 1، ص 648 پر لکھتے ہیں:

وكان الذي طلبه الحسن أن يعطيه ما في بيت مال الكوفة وخراج دارا بجرد من فارس وأن لا يسب علياً فلم يجبه إلى الكف عن سبّ علي فطلب الحسن أن لا يشتم علياً وهو يسمع فأجابه إِلى ذلكَ ثم لم يف له به

الحسن کی شرائط یہ تھیں: کوفہ کے بیت المال ان کے حوالے کیا جائے، دارالبجرد کا اخراج انہیں دیا جائے اور علی کو گالیاں نہیں دی جائیں۔ معاویہ نے علی کو گالیاں دینے کی شرط ماننے سے انکار کیا جس پر الحسن نے کہا کہ علی کو اس وقت گالیاں نہ دی جائیں جب وہ اسے سن سکتے ہوں جس کو معاویہ نے مان لیا لیکن اس شرط کو پورا نہ کیا۔
 تاریخ ابوالفداء، جلد 1، ص 648

اہل ِسنت کے نامور امام جن کی شیعہ دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں یعنی امام ابن کثیر اپنی کتاب 'البدایہ و النہایہ' میں لکھتے ہیں:

فاشترط أن يأخذ من بيت مال الكوفة خمسة آلاف ألف درهم، وأن يكون خراج دار أبجرد له، وأن لا يسب علي وهو يسمع

[الحسن] نے یہ شرائط رکھیں کہ کوفہ کے بیت المال سے پچاس لاکھ درھم کا خراج انہیں [اور انکی فوج] کے حوالے رکھا جائے اور دار ابجرد کا خراج بھی انہیں کو ملے اور یہ کہ علی ابن ابی طالب پر سب نہ کیا جائے جبکہ حسن اسے سن سکتے ہوں۔
 البدایہ و النہایہ، ج 8 ص 17

اہل ِسنت کے ایک اور پیشوا علامہ ابن خلدون جن کے ناصبیت سے قربت کا اعتراف دیوبند مذہب کے مفتی نظام الدین شامزئی نے بھی کیا ہے، اپنی کتاب 'تاریخ ابن خلدون' میں تحریر کرتے ہیں:

فكتب إلى معاوية يذكر له النزول عن الأمر على أن يعطيه ما في بيت المال بالكوفة و مبلغه خمسة آلاف ألف و يعطيه خراج دار ابجرد من فارس و ألا يشتم عليا و هو يسمع

یعنی حسن نے معاویہ کو منصب ِخلافت سے اترنے کے عوض شرائط یوں تحریر کیں کہ کوفہ کے بیت المال جس کی مالیت پچاس لاکھ تھی ان کے حوالے کیا جائے، دارالبجرد کی ٹیکس کی امدنی سے ان کو حصہ دیا جائے اور علی کو گالیاں نہیں دی جائیں جبکہ وہ اسے سن سکتے ہوں۔
تاریخ ابن خلدون، ج 2 ص 648

امام ابن جریر طبری بھی یہ روایت نقل کرتے ہیں:

وقد كان صالح الحسن معاوية على أن جعل له ما في بيت ماله وخرج دارا بجرد على ألا يشتم علي وهو يسمع فأخذ ما في بيت ماله

الحسن نے معاویہ سے ان شرائط پر صلح کرلی تھی کہ بیت المال میں جو کچھ بھی ہے وہ حسن کے حوالے کیا جائے اور دار البجرد کا اخراج بھی اور علی کو اس وقت گالیاں نہ دی جائیں جب وہ اسے سن سکتے ہوں
تاریخ طبری

امام طبری نے یہ روایت عوانہ بن الحکم الکبی (متوفی 147 ھ) سے لی ہے۔ عوانہ نے معاویہ ابن ابی سفیان اور بنی امیہ پر دو تاریخی کتابیں لکھی تھیں۔ عوانہ کے متعلق امام ذھبی کہتے ہیں کہ عوانہ روایات بیان کرنے میں صدوق ہیں (سیر اعلام النبلاء جلد 7، صفحہ 201)۔ امام عجلی نے عوانہ کو اپنی کتاب 'معارفت الثقات' جلد 2، صفحہ 196 میں شامل کیا ہے۔ علامہ یاقوت حموی (متوفی 626 ھ) اپنی کتاب ’معجم الادباء‘ جلد 2 صفحہ 232 میں کہتے ہیں کہ 'كان عالماً بالأخبار والآثار ثقة' یعنی عوانہ تاریخ اور روایات کے عالم ہیں اور ثقہ ہیں۔ مزید عبداللہ بن جعفر کا قول نقل کرتے ہیں کہ عوانہ بن الحکم کوفہ میں تاریخ اور فتوحات کے علماء میں سے ہیں اور شاعری و فصاحت میں کافی علم رکھتے ہیں، ان کا ایک بھائی تھا، انہوں نے ظرافت بھری روایات بیان کی ہیں، وہ موثق تھے۔ قاضی ابو بکر العربی (متوفی 468 ھ) کی مشہور کتاب ’العواصم من القواصم‘ صفحہ 189 کے حاشیہ میں علامہ محب الدین خطیب (متوفی 1389 ھ) عوانہ کے متعلق لکھتے ہیں: 'أكبر شيوخ المدائني' یعنی المدائن کے بلند پایا شیوخ میں سے تھے۔ صفدی (متوفی 764 ھ) نے عوانہ کو صدوق قرار دیا ہے۔

ابن عساکر نے 'تاریخ الدمشق' میں امام حسن اور معاویہ کے درمیاں صلح کی شرائط مندرجہ ذیل سند سے نقل کرتے ہیں:

اخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي أنا الحسن بن علي أنا محمد بن العباس أنا احمد بن معروف نا الحسين بن محمد بن سعد أنا أبو عبيد عن مجالد عن الشعبي وعن يونس بن أبي إسحاق عن أبيه وعن أبي السفر وغيرهم ۔۔۔۔۔۔۔ ولا يسب علي وهو يسمع وان يحمل إليه خراج فسا ( 3 ) ودار ابجرد ( 4 ) من ارض فارس كل عام

ابو بکر بن محمد بن عبدالباقی نے روایت کی الحسن بن علی انہوں نے محمد بن العباس سے انہوں نے احمد بن معروف سے انہوں نے حسین بن محدم انہوں نے محمد بن سعد سے انہوں نے ابو عبید سے انہوں نے مجاہد سے انہوں نے شعبی سے اور یونس بن ابی اسحاق سے انہوں نے اپنے والد سے اور ابی السفر وغیرہ سے کہ۔۔۔ علی کو گالیاں نہ دی جائیں جب وہ اسے سن سکتے ہوں اور فارس کے دارالبجرد اور فسا کا ہے سال کا اخراج۔۔۔۔۔

یہاں ہم ابن عساکر کی بیان کردہ سند پر کچھ بحث کرلیں۔ علم الرجال سے واقف لوگ جان سکتے ہیں کہ مندرجہ بالا سند میں بعض جگہ 'اور' کا لفظ استعمال ہوا ہے جسکا مطلب یہ ہے کہ اس سند کی دراصل تین طریق ہیں، یعنی:
1۔ ابو بکر بن محمد بن عبدالباقی نے روایت کی الحسن بن علی انہوں نے محمد بن العباس سے انہوں نے احمد بن معروف سے انہوں نے حسین بن محدم انہوں نے محمد بن سعد سے انہوں نے ابو عبید سے انہوں نے مجاہد سے انہوں نے شعبی سے۔

2۔ ابو بکر بن محمد بن عبدالباقی نے روایت کی الحسن بن علی انہوں نے محمد بن العباس سے انہوں نے احمد بن معروف سے انہوں نے حسین بن محدم انہوں نے محمد بن سعد سے انہوں نے ابو عبید یونس بن ابی اسحاق سے انہوں نے اپنے والد سے۔

3۔ ابو بکر بن محمد بن عبدالباقی نے روایت کی الحسن بن علی انہوں نے محمد بن العباس سے انہوں نے احمد بن معروف سے انہوں نے حسین بن محدم انہوں نے محمد بن سعد سے انہوں نے ابو عبید سے انہوں نے ابی السفر وغیرہ سے۔

مندرجہ بالا تین طریقوں میں سے دوسری طریق نہایت معتبر ہے:

1۔ أبو بكر محمد بن عبد الباقي: ابن جوزی نے کہا ’ثقہ‘ (سیر اعلام النبلاء، ج 36 ص 392) جبکہ امام ذھبی نے کہا ’عادل‘ (سیر اعلام النبلاء، ج 20 ص 23)۔
2۔ حسن بن علی الجواھری: بغدادی نے کہا ’ثقہ‘ (تاریخ بغداد، 7 ص 404) جبکہ ذھبی نے کہا ’صدوق‘ (سیر اعلام النبلاء، ج 18 ص 68)۔
3۔ محمد بن العباس الخزاز: البغدادی ’ثقہ‘ (تاریخ بغداد، 3 ص 337) اور ذھبی نے بھی کہا ’ثقہ‘ (سیر اعلام النبلاء، ج 16 ص 409)۔
4۔ احمد بن معروف بن بشر: بغدادی ’ثقہ‘ (تاریخ بغداد، 5 ص 368) جبکہ ذھبی نے بھی کہا ’ثقہ‘ (تاریخ اسلام، ج 24 ص 103)۔
5۔ الحسين بن محمد بن عبدالرحمان: البغدادی نے کہا ’ثقہ‘ (تاریخ بغداد، 8 ص 91) الذھبی ذھبی نے کہا ’بڑے حافظ‘ (تذکرہ الحفاظ، ج 2 ص 680) اور یہ بھی کہا کہ وہ روایت کرنے میں بہت سخت یعنی محتاط تھے (تاریخ اسلام، ج 21 ص 164)۔
6۔ محمد بن سعد (مصنف الطبقات الکبیر): بغدادی نے کہا کہ ہمارے نزدیک وہ عادل لوگوں میں سے ہیں اور روایت کرنے میں سچے ہیں۔ (تاریخ بغداد، 2 ص 366) جبکہ امام ذھبی نے کہا ’حافظ، علامہ، حجت‘ (سیر اعلام النبلاء، ج 10 ص 664)۔
7۔ محمد بن عبید: ابن حجر العسقلانی نے کہا ’ثقہ‘ (تقریب التھذیب، 2 ص 110) جبکہ ذھبی نے بھی کہا ’ثقہ‘ (تذکرہ الحفاظ، ج 1 ص 333)۔
8۔ يونس بن ابی اسحاق: ابن حجر العسقلانی نے کہا ’صدوق‘ (تقریب التھذیب، 2 ص 348) جبکہ ذھبی نے بھی کہا ’صدوق‘ (الکاشف، ج 2 ص 348)۔
9۔ ابی اسحاق الشعبی: ابن حجر العسقلانی نے کہا ’ثقہ‘ (تقریب التھذیب، 1 ص 739) جبکہ ذھبی نے کہا ’ثقہ حجت‘ (سیر اعلام النبلاء، ج 5 ص 394)۔
ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ یہ دانستہ ہے کہ غیردانستہ لیکن تاریخ ابن عساکر کی جس کاپی پر ہم نے انحصار کیا ہے اس کی سند میں دو روایوں کے نام آپس میں مل گئے ہیں یعنی 'الحسن بن محمد بن سعد' جبکہ دراصل یہ دو مختلف لوگ ہیں یعنی الحسن بن محمد اور پھر محد بن سعد جو کہ اہل سنت کے امام اور مشہور کتاب 'الطبقات الکبیر' کے مصنف بھی ہیں۔

امام ذھبی نے کتاب 'سیراعلام النبلاء' ج 3 ص 263 جبکہ امام جمال الدین المزی نے اپنی کتاب 'تھذیب الکمال' ج 6 ص 246 ترجمہ نمبر 1248 میں یہی روایت محمد بن سعد سے مختلف طریق سے نقل کی ہیں۔

تحریف کیس:

ان تینوں علماء ابن عساکر، الذھبی اور جمال الدین مزی اور ان کی اسناد کا ذکر اس لیے ہے کہ ان تینوں نے یہ روایات اپنے سے پہلے آنے والے مشہور عالم امام محمد بن سعد سے نقل کی ہیں لیکن آج چھپنے والی محمد بن سعد کی کتاب 'الطبقات الکبیر' میں ہمیں یہ روایات نظر نہیں آتی ہیں اور تعصب میں مبتلا لوگوں نے ان علماء کی کتب میں من مانی تحریف شروع کر رکھی ہے اور یہ سنت بنی اسرائیل میں مبتلا ہیں کہ جب انہوں نے اپنی کتابوں سے اُن تمام چیزوں کی تحریف کر دی جو ان کی خواہشات اور خود ساختہ عقائد کے خلاف تھیں۔

صلح الحسن کی شرائط اسی طرح اور علماء نے بھی لکھی ہیں جیسے شیخ زین الدین عمر بن الوردی نے تاریخ ابن الوردی، ج 1 ص 201 اور علامہ صلاح الدین خلیل نے الوافی بالوافیات، ج 12 ص 68 میں۔


معاویہ کے گورنروں کا کھلے عام علی ابن ابی طالب پر سب و شتم کرنا


ثبوت نمبر 9:

علامہ اسماعیل بن ابو الفدا نقل کرتے ہیں:

وكان معاوية وعماله يدعون لعثمان في الخطبة يوم الجمعة ويسبون علياً ويقعون فيه

معاویہ اور اسکے گورنر جمعے کے خطبوں میں عثمان کی تعریف کرتے تھے اور علی کو گالیاں دیتے تھے۔
 تاریخ ابو الفداء، جلد 1، صفحہ 120

سلفی / وہابی / اہل ِحدیث حضرات کے ٹاپ کے امام ابن تیمیہ اپنی کتاب منہاج السنہ، جلد 6، صفحہ 201 پر لکھتے ہیں:

وقد كان من شيعة عثمان من يسب عليا ويجهر بذلك على المنابر

عثمان کے شیعہ [طرفدار] کھلے عام مسجدوں کے منبروں سے علی کو گالیاں دیتے تھے۔


ثبوت نمبر 10: مروان بن حکم کا علی ابن ابی طالب پر سب شتم کرنا


مروان بن الحکم نے معاویہ کے حکم سے عید کی نماز میں بدعت جاری کر کے خطبے میں علی بن ابی طالب کو برا کہنا شروع کر دیا۔

صحیح مسلم کی روایت ملاحظہ ہو:

186 - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، كِلاَهُمَا عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، - وَهَذَا حَدِيثُ أَبِي بَكْرٍ - قَالَ أَوَّلُ مَنْ بَدَأَ بِالْخُطْبَةِ يَوْمَ الْعِيدِ قَبْلَ الصَّلاَةِ مَرْوَانُ فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ فَقَالَ الصَّلاَةُ قَبْلَ الْخُطْبَةِ ‏.‏ فَقَالَ قَدْ تُرِكَ مَا هُنَالِكَ ‏.‏ فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ أَمَّا هَذَا فَقَدْ قَضَى مَا عَلَيْهِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏"‏ مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ وَذَلِكَ أَضْعَفُ الإِيمَانِ ‏"‏ ‏.‏

طارق بن شہاب کہتے ہیں: یہ مروان بن الحکم تھا جس نے سب سے پہلے خطبے کو عید کی نماز پر مقدم کرنے کی بدعت جاری کی۔ ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا: 'نماز خطبے سے پہلے ہونی چاہیے'۔ اس پر مروان نے کہا: 'یہ چیز ترک ہو چکی ہے'۔ اس پر ابو سعید نے فرمایا: 'اس شخص [مروان] نے وہی کچھ کیا ہے جو فرض اس کے ذمے لگایا گیا تھا۔۔۔۔
 صحیح مسلم، کتاب الایمان
نوٹ: اس وقت معاویہ ابن ابی سفیان خلیفہ تھا اور اُس نے مروان بن الحکم کو مدینہ کا حاکم مقرر کیا تھا اور یہ مکروہ بدعت و ضلالت معاویہ ابن ابی سفیان کے حکم سے مروان نے شروع کی تھی۔

ہم صحیح بخاری میں پڑھتے ہیں:

ابو سعید خدری کہتے ہیں:
۔۔۔۔ جب عید کی نماز کا وقت ہوا تو مروان نے چاہا کہ وہ منبر پر چڑھ کر نماز سے قبل خطبہ دے۔ اس پر میں نے اُسے کپڑوں سے پکڑ لیا، لیکن اُس نے اپنے کپڑے جھٹکے سے چھڑا لیے اور منبر پر چڑھ کر اس نے خطبہ دیا۔ میں نے مروان سے کہا: 'اللہ کی قسم تم نے رسول (ص) کی سنت تبدیل کر دی ہے'۔ اس پر مروان نے جواب دیا: 'وہ دن گئے جن کا تم ذکر کر رہے ہو'۔ اس پر میں نے کہا کہ میں جو کچھ جانتا ہوں وہ اس سے بہتر ہے جو میں نہیں جانتا۔ اس پر مروان نے جواب دیا: 'لوگ عید کی نماز کے بعد خطبہ سننے کے لیے نہیں بیٹھتے لہذا میں خطبہ عید کی نماز سے پہلے ادا کر لیتا ہوں'۔
 صحیح بخاری(انگریزی)، کتاب 15، حدیث 76

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ تھی کہ صحابہ و تابعین عید کی نماز کے بعد خطبے کے لیے نہیں بیٹھتے تھے؟ کیا وہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت بھول گئے تھے؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ صحابہ و تابعین اس لیے مروان کے خطبے میں نہیں بیٹھتے تھے کیونکہ خطبے میں علی ابن ابی طالب اور اہلبیت علیہم السلام پر سب و شتم کیا جاتا تھا۔

دیوبند کے امام محمد انور شاہ کشمیری صحیح بخاری کی شرح 'فیض الباری شرح صحیح بخاری' میں لکھتے ہیں:

ثم إن من السُّنة تقديمَ الصلاةِ على الخُطبة. وإنما قَدَّمها مراونُ على الصلاةِ لأنه كان يَسُبُّ عليًا رضي الله عنه

سنت نبوی یہ ہے کہ نماز کو خطبے سے پہلے ادا کیا جائے، لیکن مروان بن الحکم نے خطبے کو نماز پر پہلے جاری کر دیا کیونکہ وہ خطبے میں علی (رض) کو برا بھلا کہتے تھے۔
  فیض الباری شرح صحیح بخاری، جلد 1، صفھہ 722، روایت: 954، کتاب العیدین

امام شافعی اپنی کتاب ’الام‘ ج ا ص 392 میں لکھتے ہیں:

امام شافعی کہتے ہیں کہ عبداللہ بن یزید الخطمی کا قول ہے کہ رسول اللہ (ص)، ابو بکر، عمر اور عثمان خطبہ سے قبل نماز ادا کرتے تھے حتی کہ معاویہ آئے اور انہوں نے خطبہ کو نماز سے قبل کردیا

ابن کثیر کتاب البدایہ و النہایہ میں لکھتے ہیں:

ومروان كان أكبر الأسباب في حصار عثمان لأنه زور على لسانه كتاباً إلى مصر بقتل أولئك الوفد، ولما كان متولياً على المدينة لمعاوية كان يسب علياً كل جمعة على المنبر‏.‏وقال له الحسن بن علي‏:‏ لقد لعن الله أباك الحكم وأنت في صلبه على لسان نبيه فقال‏:‏ لعن الله الحكم وما ولد والله أعلم‏.‏

جب مروان مدینے کا گورنر تھا تو وہ علی ابن ابی طالب پر ہر جمعے کی نماز کے بعد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے منبر مبارک پر چڑھ کر سب [برا کہنا، گالیاں دینا] کیا کرتا تھا۔
 البدایہ و النہایہ، ج 8 ص 285

حافظ جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفاء، صفحہ 199 پر اسی چیز کا ذکر عمیر ابن اسحق سے کیا ہے کہ:

عمیر ابن اسحق سے مروی ہے کہ مروان ہم پر امیر تھا اور وہ علی ابن ابی طالب پر ہر جمعہ کی نماز کے بعد منبر رسول (ص) سے سب کرتا تھا جبکہ حسن اسے سن رہے ہوتے تھے لیکن کوئی جواب نہ دیتے تھے۔

اور امام الذھبی تاریخ الاسلام، جلد دوم، صفحہ 288 پر یہی بات لکھ رہے ہیں:

مروان بن الحکم ہر جمعے کے خطبے کے بعد علی ابن ابی طالب پر سب کیا کرتا تھا

اور مروان کی اس سنت کو اسکے خاندان والوں نے جاری رکھا، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہم پڑھتے ہیں:

6382 - حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، - يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَازِمٍ - عَنْ أَبِي، حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ اسْتُعْمِلَ عَلَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ مِنْ آلِ مَرْوَانَ - قَالَ - فَدَعَا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا - قَالَ - فَأَبَى سَهْلٌ فَقَالَ لَهُ أَمَّا إِذْ أَبَيْتَ فَقُلْ لَعَنَ اللَّهُ أَبَا التُّرَابِ ‏.‏ فَقَالَ سَهْلٌ مَا كَانَ لِعَلِيٍّ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَبِي التُّرَابِ وَإِنْ كَانَ لَيَفْرَحُ إِذَا دُعِيَ بِهَا ‏.‏ فَقَالَ لَهُ أَخْبِرْنَا عَنْ قِصَّتِهِ لِمَ سُمِّيَ أَبَا تُرَابٍ قَالَ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَيْتَ فَاطِمَةَ فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي الْبَيْتِ فَقَالَ ‏"‏ أَيْنَ ابْنُ عَمِّكِ ‏"‏ ‏.‏ فَقَالَتْ كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَىْءٌ فَغَاضَبَنِي فَخَرَجَ فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لإِنْسَانٍ ‏"‏ انْظُرْ أَيْنَ هُوَ ‏"‏ ‏.‏ فَجَاءَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ ‏.‏ فَجَاءَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهُوَ مُضْطَجِعٌ قَدْ سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ شِقِّهِ فَأَصَابَهُ تُرَابٌ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَمْسَحُهُ عَنْهُ وَيَقُولُ ‏"‏ قُمْ أَبَا التُّرَابِ قُمْ أَبَا التُّرَابِ ‏"‏ ‏

سہل روایت کرتے ہیں کہ مدینہ میں مروان کے خاندان میں سے ایک شخص حاکم ہوا اور اس نے سہل کو بلایا اور حکم دیا [فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا] کہ وہ علی ابن ابی طالب کو گالی دے۔ سہل نے انکار کیا۔ اس پر وہ حاکم بولا کہ اگر تو گالی دینے سے انکار کرتا ہے تو کہہ لعنت ہو اللہ کی ابو تراب پر۔ ۔۔۔۔۔

علامہ ابن حجر مکی الحیثمی نے اپنی مشہور شیعہ مخالف کتاب 'السوائق المحرقہ' میں یہ صحیح روایت نقل کرتے ہیں:

بزاز کی روایت میں ہے کہ اللہ نے حکم [والد ِمروان] اور اسکے بیٹے پر لعنت کی لسان نبوی کے ذریعے سے۔ اور ثقہ راویوں کی سند کے ساتھ مروی ہے کہ جب مروان کو مدینے کا گورنر بنایا گیا تو وہ منبر پر ہر جمعے میں علی ابن ابی طالب پر سب و شتم کرتا تھا۔ پھر اسکے بعد حضرت سعید بن عاص گورنر بنے تو وہ علی پر سب نہیں کرتے تھے۔ پھر مروان کو دوبارہ گورنر بنایا گیا تو اس نے پھر سب و شتم شروع کر دیا۔ حضرت حسن کو اس بات کا علم تھا لیکن آپ خاموش رہتے تھے اور مسجد نبوی میں عین اقامت کے وقت ہی داخل ہوتے تھے لیکن مروان اس پر بھی راضی نہ ہوا یہاں تک کہ اس نے حضرت حسن کے گھر میں ایلچی کے ذریعے ان کو اور حضرت علی کو گالیاں دلوا بھیجیں۔ ان لفویات میں سے ایک یہ بات بھی تھی کہ 'تیری مثال میرے نزدیک خچر کی سی ہے کہ جب اس سے پوچھا جائے کہ تیر باپ کون ہے تو وہ کہے کہ میری ماں گھوڑی ہے۔' حضرت حسن نے یہ سن کر قاصد سے کہا کہ تو اسکے پاس جا اور اُس سے کہہ دے کہ خدا کی قسم میں تجھے گالی دے کر تیرا گناہ کم نہیں کرنا چاہتا۔ میری اور تیری ملاقات اللہ کے یہاں ہو گی۔ اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔ اللہ نے میرے نانا جان (ص) کو جو شرف بخشا ہے وہ اس سے بلند و برتر ہے کہ میری مثال خچر کی سی ہو۔ ایلچی نکلا تو جناب ِحسین سے اسکی ملاقات ہو گئی اور انہیں بھی اس نے گالیوں کے متعلق بتایا۔ حضرت حسین نے اسے پہلے تو دھمکی دی کہ خبردار جو تم نے میری بات بھی مروان تک نہ پہنچائی اور پھر فرمایا کہ: 'اے مروان تو ذرا اپنے باپ اور اسکی قوم کی حیثیت پر بھی غور کر۔ تیرا مجھ سے کیا سروکار، تو اپنے کندھوں پر اپنے اس لڑکے کو اٹھاتا ہے جس پر رسول اللہ (ص) نے لعنت کی ہے'۔۔۔۔۔۔ اور عمدہ سند کے ساتھ یہ بھی مروی ہے کہ مروان نے عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تو وہ ہے جس کے بارے میں قرآن میں یہ آیت اتری: 'جس نے کہا اپنے والدین سے کہ تم پر اُف ہے۔'۔۔۔۔ عبدالرحمن کہنے لگے: 'تو نے جھوٹ کہا، بلکہ رسول اللہ (ص) نے تیرے والد پر لعنت کی تھی'۔

نوٹ: مروان کی بدزبانی کا یہ پورا واقعہ علاوہ دیگر مورخین کے امام جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفاء میں بھی نقل کیا ہے اور متعدد دوسرے علماء نے اس کو بیان کا ہے۔

سوال: مروان کافر کیوں نہیں بنا جبکہ وہ صحابہ علی ابن ابی طالب، حسن و حسین کو گالیاں دیتا تھا؟

معاویہ و بنی امیہ کے حامی نواصب اب یہ بتائیں کہ کیا علی ابن ابی طالب صحابی نہ تھے؟ کیا حسن و حسین علیہم السلام صحابی رسول نہ تھے؟ کیا دختر رسول، سیدۃ نساء العالمین، بتول و زہراء ، جگر گوشہ رسول صحابیہ نہ تھیں کہ انہیں معاذ اللہ معاذ اللہ یہ مروان بن حکم (لعین ابن لعین) اس طرح گالیاں دے؟

آپ کو ان نواصب کا مکروہ چہرہ دیکھنا ہے تو دیکھئے مولانا ظفر احمد عثمانی کی کتاب 'برات عثمان' صفحہ 42-44 (مکتبہ صدیقیہ، اٹک، پاکتسان) جو کہ سپاہ ِصحابہ کی ویب سائیٹ پر بھی موجود ہے ،جس میں یہ مروان بن حکم کو کافر کہنے کے بجائے 'رضی اللہ عنہ' اور 'فقیہ مدینہ' کہہ رہے ہیں اور اس سے مروی روایات انکی کتابوں میں بھری ہوئی ہیں۔

تو بجائے مروان کو کافر بنانے کے انہوں نے اسے نہ صرف 'رضی اللہ عنہ' بنا لیا بلکہ اپنا خلیفہ اور 'امیر المومنین' بنا دیا۔

یہاں قارئین کی معلومات کے لئے سوال ہے کہ کیا آپ کو علم ہے کہ صحابی طلحہ کو کس نے قتل کیا تھا؟ آپ کو حیرت ہو گی کہ طلحہ کو تیر مار کر ہلاک کرنے والا کوئی اور شخص نہیں بلکہ یہی مروان بن حکم ہے ۔ یقین نہیں آتا ہے کہ پھر بھی یہ لوگ اسے 'امیر المومنین' بنائے بیٹھے ہیں۔ یہ اللہ کی ان پر لعنت ہے جو یہ اپنے ہی کبار صحابہ کے قاتلوں کو 'رضی اللہ عنہ' اور اپنا خلیفہ و امیر المومنین بنائے بیٹھے ہیں۔

اہل سنت کی معتبر کتب میں یحیی ابن سعید سے روایت ہے:

جب طلحہ نے میدان جنگ سے پسپا ہونا شروع کیا تو اس وقت طلحہ کے لشکر کی صفوں میں مروان بن حکم بھی موجود تھا۔ مروان بن حکم اور بنی امیہ، طلحہ کو عثمان کا قاتل سمجھتے تھے۔ مروان نے طلحہ پر ایک تیر کھینچ کر چلایا، جس سے وہ بری طرح زخمی ہو گیا۔ پھر اس نے ابان (جو عثمان کا بیٹا تھا) سے کہا: 'میں نے تمہیں تمہارے باپ کے ایک قاتل سے نجات دلا دی ہے۔' طلحہ کو بصرہ میں ایک اجڑے ہوۓ گھر میں منتقل کر دیا گیا جہاں اس کا انتقال ہوا۔
سنی حوالے:
1. طبقات ابن سعد، ج 3، ص 159
2. ابن حجر عسقلانی، الاصابہ، ج3، ص 532
3. تاریخ ابن اثیر، ج3، ص244
4. اسد الغابہ، ج3، ص87
5. ابن عبد البر، الاستیعاب، ج2،ص766

ثبوت نمبر 11: مغیرہ بن شعبہ کا علی ابن ابنی طالب پر سب و شتم

مغیرہ بن شعبہ، جو معاویہ ابن ابی سفیان کا ایک اور گورنر تھا، وہ بھی علی ابن ابی طالب کو معاویہ ابن ابی سفیان کے حکم سے گالیاں دیا کرتا تھا اور لعنت بھیجتا تھا۔

تاریخ کامل، جلد 3، صفحہ 234:

معاویہ ابن ابی سفیان نے مغیرہ کو بطور گورنر نامزد کیا اور کہا: 'میں نے تمہاری نامزدگی اپنی عقل کے مطابق کی ہے، تو اب تم مجھے ان شرائط پر بیعت دو کہ تم اس روایت کو جاری رکھو گے کہ تم علی کی بے عزتی اور لعن کرو گے اور حضرت عثمان کی تعریف کرو گے'۔ مغیرہ کچھ عرصے کوفہ کا گورنر رہا اور اس دوران وہ علی ابن ابی طالب کی بدگوئی کرتا تھا اور ان پر لعنت کرتا تھا۔

اور ابن کثیر البدایہ و النہایہ جلد 8، صفحہ 50 پر لکھتے ہیں:

قال‏:‏ قال سلمان لحجر‏:‏ يا ابن أم حجر لو تقطعت أعضاؤك ما بلغت الإيمان، وكان إذ كان المغيرة بن شعبة على الكوفة إذا ذكر علياً في خطبته يتنقصه بعد مدح عثمان وشيعته فيغضب حجر هذا ويظهر الإنكار عليه‏.‏

جب مغیرہ بن شعبہ کوفہ کا والی تھا تو وہ خطبے میں عثمان اور انکے ساتھیوں کی مدح کے بعد علی ابن ابی طالب کی تنقیض کرتا تھا۔ اس پر حضرت حجر غضب ناک ہو کر احتجاج کرتے تھے۔
 البدایہ و النہایہ جلد 8، صفحہ 50

مسند احمد بن حنبل، جلد 4، حدیث 18485، اول مسند الکوفین، حدیث زید بن ارقم:

حدثنا ‏ ‏محمد بن بشر ‏ ‏حدثنا ‏ ‏مسعر ‏ ‏عن ‏ ‏الحجاج ‏ ‏مولى ‏ ‏بني ثعلبة ‏ ‏عن ‏ ‏قطبة بن مالك ‏ ‏عم ‏ ‏زياد بن علاقة ‏ ‏قال ‏ ‏نال ‏ ‏المغيرة بن شعبة ‏ ‏من ‏ ‏علي ‏ ‏فقال ‏ ‏زيد بن أرقم ‏ ‏قد علمت أن رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏كان ‏ ‏ينهى عن سب الموتى فلم تسب ‏ ‏عليا ‏ ‏وقد مات ‏

زید بن علاقہ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں: مغیرہ بن الشعبہ نے علی ابن ابی طالب کو گالیاں دیں تو اس پر زید بن ارقم کھڑے ہو گئے اور کہا: 'تمہیں علم ہے کہ رسول (ص) نے مردہ لوگوں کو گالیاں دینے سے منع کیا ہے، تو پھر تم علی ابن ابی طالب پر کیوں سب کر رہے ہو جب کہ وہ وفات پا چکے ہیں؟'۔
 مسند احمد بن حنبل، جلد 4، حدیث 18485

یہ صحیح روایت ہے اور اسے حاکم اور پھر الذھبی نے صحیح قرار دیا ہے۔ اور شیخ شعیب الارنؤوط نے مسند احمد کے حاشیہ میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔حتی کہ شیخ البانی نے بھی اسے 'سلسلہ احادیث صحیحیہ' ج 5 ص 520 حدیث 2397 میں صحیح قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح روایت ہے۔


ثبوت نمبر 12: بسر بن ارطات کا علی ابن ابی طالب پر سب و شتم

امام ابن جریر طبری علی ابن محمد سے نقل کرتے ہیں:

بسر بن ارطات نے بصرہ کے منبر پر کھڑے ہو کر علی ابن ابی طالب کو برا بھلا کہا۔ پھر اُس نے کہا: 'میں خدا کے نام پر پوچھتا ہوں کہ جو جانتا ہے کہ میں سچا ہوں وہ اسکی گواہی دے اور اسی طرح اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں جھوٹا ہوں تو وہ بھی اسکی گواہی دے'۔ اس پر ابو بکرہ نے کہا کہ بخدا ہم سب جانتے ہیں کہ تم جھوٹے ہو۔ اس پر بسر بن ارطات نے حکم دیا کہ ابو بکرہ کو قتل کر دیا جائے۔

اور یہی واقعہ امام ابن اثیر نے تاریخ الکامل جسے تاریخ ابن اثیر کہا جاتا ہے میں یوں نقل کیا ہے:

وكان السبب في ذلك أن الحسن لما صالح معاوية أول سنة إحدى وأربعين وثب حمران بن أبان على البصرة فأخذها وغلب عليها، فبعث إليه معاوية بسر ابن أبي أرطأة وأمره بقتل بني زياد بن أبيه، وكان زياد على فارس قد أرسله إليها علي بن أبي طالب، فلما قدم بسر البصرة خطب على منبرها وشتم عليا ثم قال: نشدت الله رجلا يعلم أني صادق إلا صدقني أو كاذب إلا كذبني. فقال أبو بكرة: اللهم إنا لا نعلمك إلا كاذبا. قال: فأمر به فخنق.

جب حضرت حسن نے سن 41 میں معاویہ ابن ابی سفیان سے صلح کی تو حمران ابن ابان نے بصرہ پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔ اس پر معاویہ ابن ابی سفیان نے بسر بن ارطات کو وہاں روانہ کیا اور حکم دیا کہ زید بن ابیہ اور اس کی اولاد کو قتل کر دے اور زیاد اس وقت فارس میں تھا کیونکہ علی ابن ابی طالب نے انکو وہاں روانہ کیا تھا۔ بسر بن ارطات نے بصرہ کے منبر پر کھڑے ہو کر علی ابن ابی طالب کو برا بھلا کہا۔ پھر اُس نے کہا: 'میں خدا کے نام پر پوچھتا ہوں کہ جو جانتا ہے کہ میں سچا ہوں وہ اسکی گواہی دے اور اسی طرح اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں جھوٹا ہوں تو وہ بھی اسکی گواہی دے۔ اس پر ابو بکرہ نے کہا بخدا ہم سب جانتے ہیں کہ تم جھوٹے ہو'۔ اس پر بسر بن ارطات نے حکم دیا کہ ابو بکرہ کو قتل کر دیا جائے۔
 تاریخ الکامل، ج 2 111

ثبوت نمبر 13: زیاد اور کثیر ابن شہاب کا علی ابن ابی طالب پر سب و شتم

امام ابن جریر طبری اپنی تاریخ میں نقل کرتے ہیں:

پھر معاویہ کا قاصد زیاد کے پاس یہ حکم لے کر پہنچا کہ ان میں سے چھ افراد کو چھوڑ دیا جائے اور آٹھ کو یہ بتاتے ہوئے قتل کر دیا جائے کہ ہمیں حکم ہے کہ تمہارے سامنے علی سے بیزاری اختیار کرنے اور اُن پر لعن کرنے کی شرط رکھی جائے۔ اگر تم اسے قبول کر لو تو ہم تمہیں رہا کر دیں گے اور اگر تم انکار کرتے ہو تو پھر ہم تمہیں قتل کر دیں گے۔

اور کثیر ابن شہاب بھی شہر الری میں منبر سے علی ابن ابی طالب کو گالیاں دیتا تھا۔ علامہ ابن اثیر اپنی کتاب تاریخ کامل میں نقل کرتے ہیں:

ولما ولی المغیرۃ الکوفۃ استعمل کثیر بن شھاب علی الری، و کان بکثر سب علی علی منبر الری و بقی علیھا الی ان ولی زیاد الکوفہ فاقرہ علیہا۔۔۔۔۔

یعنی جب مغیرہ بن شعبہ کو کوفہ کا گورنر بنایا گیا تو کثیر بن شہاب کو شہر الری کا ولی مقرر کیا گیا۔ اور یہ کثیر ابن شہاب علی ابن ابی طالب کو شہر الری کے مسجد کے منبر سے گالیاں دیتا تھا ۔۔۔ اور زیاد جب بصرہ آیا تو وہ منبر پر کھڑا ہوا اور اس نے خطبہ دیا جس میں علی ابن ابی طالب کو برا بھلا کہا۔


ثبوت نمبر 14: علماء ِاہل ِسنت کی گواہیاں

اب تک ہم نے تاریخ و حدیث کی کتابوں سے حقائق نقل کئے۔ اب پیش ِخدمت ہیں علماء ِاہل ِسنت کی گواہیآں جنہوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ ایک وقت ایسا تھا کہ معاویہ و دیگر بنی امیہ کے حکم پر علی بن ابی طالب اور ان کے دیگر گھر والوں کو گالیاں دی جاتی تھیں۔

شیخ ابو زہرہ مصری کی کتاب تاریخ مذاہب اسلامی سے اقتباس

'تاریخ مذاہب الاسلام ' مشہور محقق شیخ ابو زہرہ مصری کی کتاب ہے جسکا اردو ترجمہ 'تاریخ مذاہب اسلامی' کی نام سے ہو چکا ہے۔ اس کتاب سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے:

اموی دور حکومت میں حضرت علی کے اعزاز و احترام میں مزید اضافہ کا موجب ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ حضرت معاویہ نے اپنے عہد خلافت میں ایک بدترین سنت کو ایجاد کیا جو ان کے بیٹے اور ان کے بعد آنے والے خلفاء میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمت اللہ علیہ کے زمانہ تک جاری رہی۔ وہ سنت قبیحہ یہ تھی کہ خطبہ پڑھنے کے بعد حضرت علی پر لعنت بھیجی جاتی تھی جو صحابہ اُس وقت بقید حیات تھے انہوں نے اسے نفرت و حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور حضرت معاویہ اور اموی خلفاء کو اس سے منع کیا۔ ام المومنین حضرت سلمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت معاویہ کو اس مضمون پر مشتمل ایک خط لکھا:
'جب تم منبر پر کھڑے ہو کر حضرت علی اور ان کے احباب پر لعنت بھیجتے ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اللہ و رسول کو ملعون قرار دیتے ہو۔ میں گواہی دیتی ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت علی کو چاہتے تھے'۔

مصری عالم دین احمد زکی صفوت کی تحقیق سب علی پر

احمد زکی صفوت مصر کے مشہور عالم دین ہیں جن کی کتاب کا اردو ترجمہ عبدالصمد الاظہری نے کتاب 'عمر ابن عبدالعزیز' کے نام سے کیا ہے۔ اس کے ص 54 – 55 پر ہم پڑھتے ہیں:

حضرت علی پر تبرا بازی

جناب عمر [ابن عبدالعزیز] نے منبروں پر حضرت علی پر تبرا کہنا ممنوع قرار دیا، امیر معاویہ کی خلافت کے بعد سے تبرا ہوتا چلا آ رہا تھا۔
مورخین نے بیان کیا ہے کہ امیر معاویہ نے سن 41 ہجری میں اپنے گورنروں کو لکھا کہ میں اس شخص سے بری الذمہ ہوں جس نے علی یا ان کے گھرانے کے بارے میں کسی قسم کے فضائل بیان کیے۔ لہذا ہر گاوں اور ہر منبر پر خطیب حضرت علی کو لعن طعن کرنے لگے، ان سے برات کا اظہار کرنے لگے اور انکے اور انکے گھرانے کے بارے میں زبان درازی کرنے لگے۔
امیر معاویہ نے تمام اطراف مملکت میں لکھ بھیجا تھا کہ شیعان علی میں سے اور انکے خاندانوں میں سے کسی شخص کی گواہی کو نہ مانا جائے۔ پھر اسکے بعد ایک اور چٹھی میں لکھا:"دیکھو جس کسی کے بارے میں یہ معلوم ہو جائے کہ وہ علی اور انکے اہلبیت سے محبت کرتا ہے اسکا نام دفتر سے خارج کر دو اور اسکا وظیفہ بند کر دو، ایک دوسری چٹھی میں لکھا جس کسی کو ان لوگوں کا دوست پاو اسکو سخت سزائیں دو اور اسکا گھر ڈھا دو۔
حضرت امیر معاویہ حج کے لیے گئے تو مدینہ بھی گئے۔ انہوں نے چاہا کہ رسول اللہ کے منبر پر کھڑے ہو کر حضرت علی کے بارے میں اپنی اختلافی رائے بیان کریں تو اُن سے لوگوں نے کہا، یہاں سعدب بن ابی وقاص ہیں، وہ اس بات کو گوارا نہیں کر سکیں گے، پہلے انکے پاس کسی کو بھیج کر انکی رائے دریافت کیجئے۔ معاویہ نے انکے پاس قاصد بھیجا اور اس امر کا تذکرہ کیا۔ تو انہوں نے فرمایا، اگر آپ نے ایسا کیا تو میں مسجد سے نکل جائوں گا اور دوبارہ مسجد میں قدم نہیں رکھوں گا۔ لہذا معاویہ اس سے باز رہے حتی کہ سن 55 ہجری میں سعد بن ابی وقاص کا انتقال ہو گیا۔ جب انکا انتقال ہو گیا تو معاویہ نے حضرت علی کی منبر [رسول] پر چڑھ کے مذمت کی اور اپنے تمام عمال کو لکھا کہ وہ منبروں پر انکی مذمت کریں۔ چنانچہ انہوں نے حکم کی تعمیل کی۔ حضرت ام سلمہ نے حضرت معاویہ کو لکھا کہ تم اللہ اور رسول کو منبروں پر لعن طعن کرتے ہو کیونکہ تم علی ابن ابی طالب اور انکے دوستوں پر طعن کرتے ہو۔ میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کا رسول ان سے محبت کرتا تھا۔ امیر معاویہ نے انکی بات کی طرف کچھ بھی دھیان نہ دیا۔


علامہ عبد العزیز سید الاھل سنت

انہوں نے بھی حضرت عمر بن عبدالعزیز پر ایک کتاب 'خلیفہ الزاہد' کے نام سے لکھی ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ مولانا راغب رحمانی نے کیا ہے اور نفیس اکیڈمی کراچی نے اس کو شائع کیا ہے جس کے صفحہ 249 پر ہم پڑھتے ہیں:

بدعت معاویہ:
اسلامی شہروں میں قابل افسوس و رسوا کن اور حیا سوز ایک بدعت سرایت کر رہی تھی۔ جس نے شہروں کی ناک کاٹ کر رکھ دی تھی۔ پھر یہ بدعت بڑھتے بڑھتے تمام منبروں پر چھا گئی تھی۔ اور تمام کانوں میں بھِی گونجنے لگی تھی۔ اور مسجد نبوی میں بھی گھس گئی تھی۔ اور آپ [صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم] کے منبر پر بھی چڑھ گئی تھی۔ اوران کا اپنے حکام کو حکم تھا کہ اس بدعت کو جمہ کے خطبوں میں منبروں پر دہرایا جائے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ جب یہ بات لگاتار لوگوں کے کان کھٹکاتی رہے گی اور ان لوگوں کے دلوں میں ٹھونسی جاتی رہے گی تو لوگ ضرور اس سے متاثر ہوں گے اور ان کے دل ہماری طرف جھک جائیں گے۔


امام عبدالرحمان العمرو الاوزاعی

جو لوگ اسلامی تاریخ کے مطالعہ کا شوق رکھتے ہیں وہ جانتے ہونگے کہ امام اوزاعی (متوفی 157 ھ) کا مقام مذہب ِاہل ِسنت میں کیا ہے۔ مختصر یہ کہ ان کا شمار امام ابوحنیفہ جیسے لوگوں میں ہوتا ہے۔ امام ذہبی اپنی کتاب 'سیر اعلام النبلاء' ج 7 ص 130 میں امام زاعی کی گواہی درج کی ہے کہ:

سمعت الأوزاعي يقول : ما أخذنا العطاء حتى شهدنا على علي بالنفاق وتبرأنا منه

صدقہ بن عبداللہ نے کہا کہ میں نے الاوزاعی کو کہتے سنا: 'ہمیں تحفے تحائف اس وقت تک نہ ملتے جب تک ہم علی کو منافق نہ کہتے اور ان پر تبراء نہ کرتے'

یہ حال تھا بنی امیہ کے حکمرانوں کا کہ علی بن ابی طالب پر لعن طعن ایک سرکاری فعل بنا دیا گیا تھا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اہل ِسنت کے مندجہ بالا امام ِموصوف بحالت ِتقیہ صحابی ِرسول اور خلیفہ ِراشد علی بن ابی طالب کو گالیاں دیتے تھے یا پھر وہ بھی بے غیرتوں کے ساتھ بیغیرت بن گئے تھے۔ تحفے حاصل کرنے کا ذکر کرکے انہوں نے دوسرے امکان کو روشن کردیا ہے۔ اور سنی امام اگر علی بن ابی طالب کو گالیاں دے تو پھر بھی امام لیکن اگر شیعہ اس شخص کو لعنت کریں جس نے اہل ِسنت کے چہتے خلیفہ ِراشد کو گالیاں دیں یعنی معاویہ، تو شیعہ کافر۔ اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ سپاہ ِصحابہ کے نواصب کی خون میں شرافت کا کتنا عنصر ہے۔


امام محمد بن عبدالہادی السندی

امام محمد بن عبدالہادی السندی (متوفی 1138 ھ) نے سنن ابن ماجہ کی شرح تحریر کی ہے۔ ایک جگہ وہ فرماتے ہیں:

نال معاوية من علي ووقع فيه وسبه بل أمر سعدا بالسب كما قيل في مسلم والترمذي

معاویہ نے علی کی بےعزتی کی اور گالیاں دیں بلکہ معاویہ نے سعد کو حکم دیا کہ وہ علی کو گالیاں دیں، جیسا کہ مسلم اور ترمذی میں درج ہے


شیخ حسن سقاف

آج کے دور کے سنی عالم ِدین شیخ حسن سقاف اپنی کتاب 'مسالہ الرویہ' ص 11 میں تحریر کرتے ہیں:

دولة تتبنى وتعتنق لعن سيدنا علي وشتمه وذمه

اموی حکومت نے سیدنا علی پر لعنت کرنا اور ان کو گالیاں دینا اور بےعزتی کرنا منظور کیا

اسی جملہ کے حاشیہ میں وہ لکھتے ہیں:

ويكابر بعض الجهلة المتعصبين وينكر ذلك مع كونه ثابتا عن معاوية

بعض جاہل اور متعصب لوگ اس بات کے انکاری ہیں حالانکہ معاویہ کے متعلق یہ ثابت ہے


مولانا مفتی محمد عبدالحئی لکھنوی

شائد ہی کوئی اہل ِسنت خاص طور پر حنفی ہو جو مفتی محمد عبدالحئی لکھنوی کے نام سے واقف نہ ہو۔ بریصغیر پاک و ھند میں حنفی مسلک میں یہ ایک نمایاں نام رہا ہے۔ ان کی کتاب 'نفع المفتی واسائل مجمع متفرقات المسائل' جسکا اردو ترجمہ مولانا محمد علی لطفی نے کیا ہے، اس کے صفحہ 280 میں ہم پڑھتے ہیں:

سوال 268: دوسرے خطبہ میں عام طور پر مروج ہے کہ خطبا کلام اللی کی آیت ’ان اللہ بامرکم بالعدل والاحسان‘ کی تلاوت کرتے ہیں۔ اس کی اصل کیا ہے؟

جواب: بنی امیہ کی سلاطین دوسرے خطبے میں خلیفہ ِچہارم پر تعن و تشنیع کرتے تھے۔ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز خلیفہ ہوئے، وہ ایک دیندار، عابد، زاہد اور متقی امیر تھے، تو انہوں نے اس مروج طریقہ ِتعن کو منسوخ کردیا اور اس کی جگہ دوسرے خطبہ میں اس آیت کا پڑھنا مقرر فرمایا۔
 المفتی واسائل مجمع متفرقات المسائل، ص 280


امام ابن حزم

امام الحافظ ابن حزم اندلسی اپنی کتاب ’جوامع السیرہ‘ میں لکھتے ہیں:

اس کے بعد خلافت بنی عباس کو منتقل ہوئی۔۔۔لیکن پھر وہ بھی پہلے کی طرح بادشاہت میں تبدیل ہوگئی۔۔۔ البتہ اس مرتبہ انہوں نے کسی صحابی پر ’سب‘ نہ کیا برعکس بنی امویہ کے کہ جنہوں نے ان لوگوں کی حمایت کی جو علی بن ابی طالب (رض)، ان پر اور زاہرہ کے پاک فرزندوں پر لعنت کرتے تھے۔
 جوامع السیرہ


مختلف ادوار کے اکابر وعلمائے دیوبند

دنیا میں بلعموم اور برہ صغیر میں بالخصوص، کون ایسا شخص ہوگا جو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے نام سے واقف نہ ہو۔ وہ دیوبند مکتبہ ِفکر سے تعلق رکھتے تھے۔ اپنی مشہور ترین کتاب 'خلافت و ملوکیت' میں وہ فرماتے ہیں:

ایک اور نہایت مکروہ بدعت حضرت معاویہ کے دور میں شروع ہوئی کہ وہ خود اور ان کے حکم سے ان کے تمام گورنر خطبوں میں برسر ِمنبر حضرت علی (رض) پر سب و شتم کی بوچھاڑ کرتے تھے حتیٰ کہ مسجد ِنبوی میں منبر ِرسول پر عین روضہ نبی کے سامنے حضور (ص) کے محبوب ترین عزیز کو گالیاں دی جاتیں تھیں اور حضرت علی کی اولاد اور ان کے قریب ترین رشتہ دار اپنے کانوں سے گالیاں سنتے تھے۔
الطبری، ج 4 ص 188
ابن الاثیر، ج 3 ص 234 ، ج 4 ص 154
البدایہ، ج 8 ص 259 ، ج 9 ص 80
 خلافت و ملوکیت، ص 174 (ادارہ ترجمان القرآن، لاہور)۔

مودودی کے ان کلمات پر ناصبی انتہا پسند طبقوں میں مخالفت کی لہر دوڑ گئی اور انہیں گوارا نہ تھا کہ کبھی تاریخی حقائق ملت ِاسلامی کے سامنے پیش ہوں۔ حالانکہ مولانا مودودی نے اپنی ذاتی رائے پیش نہیں کی بلکہ اہل ِسنت کی معتبر تاریخ کی کتابوں کا حوالہ کو بنیاد بنایا ہے۔ پھر بھی خلافت و ملوکیت کے جواب میں ایسے نواصب کی طرف سے بہت سی کتابیں لکھی گئیں۔ ان میں دیوبند مذہب کے مفتی ِاعلیٰ مولانا تقی عثمانی صاحب کی کتاب سب سے زیادہ مشہور ہوئی کیونکہ انہوں نے بہت چالاکی سے مواد کو یوں پیش کیا کہ جس سے تاریخی حقائق مٹنے لگے۔

اس لیے جواب میں جماعت اسلامی کے ریٹائرڈ جسٹس ملک غلام علی صاحب کو جواب دے کر تاریخی حقائق پھر سے واضح کرنے پڑے اور انہی جوابات کو بعد میں کتابی شکل میں پیش کیا گیا اور اس کا نام 'خلافت و ملوکیت پر اعتراضات کا تجزیہ' رکھا گیا۔

اسی طرح مولانا مودودی کے دفاع میں ایک کتاب ' خلافت و ملوکیت اور علمائے اہل ِسنت 'جناب ابو خالد محمد اسلم نے بھی تحریر کی ۔ اس میں وہ نامور اکابرین ِ دیوبند کے بیانات نقل کرتے ہیں:

شاہ اسماعیل شہید (رح)۔
مولانا اشرف علی تھانوی (رح)۔

مولانا اشرف علی تھانوی، حکایات الاولیاء میں شاہ اسماعیل شہید (رح) کے لکھنؤ میں کئے گئے ایک وعظ کیا ذکر کرتے ہیں جس میں ان کا ایک مکالمہ ایک شیعہ سبحان خان سے ہوا:

"شاہ شہید (رح) نے سبحان خان سے پوچھا : "کیا حضرت علی کے دربار میں حضرت معاویہ پر تبرا ہوتا تھا؟ اُس نے کہا" نہیں، حضرت علی کا دربار ہجوگوئی سے پاک تھا"۔ پھر پوچھا کے حضرت معاویہ کے یہاں حضرت علی پر تبرا ہوتا تھا؟ کہا کہ بیشک ہوتا تھا۔ اس پر مولانا شہید نے فرمایا ، اہل ِسنت الحمداللہ حضرت علی کے مقلد ہیں اور روافض حضرت معاویہ کے"۔ (حکایات الاولیاء، ص 164)۔

اس مکالمہ سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ شاہ اسماعیل شہید (رح) اور مولانا اشرف علی تھانوی اس امر واقعہ سے متفق ہیں کہ حضرت معاویہ کے دربار میں حضرت علی (رض)کے خلاف تبرا بازی ہوتی تھی۔ اب اگر کوئی شخص ہٹ دھرمی کا ثبوت دے اور سب ِ علی (رض) کا امر واقعہ کا سرے سے انکار کردے اور اس سلسلے میں وارد روایات ، اقوال اور تحریروں کو خرافات اور بکواس قرار دینے سے بھی اجتناب نہ کرے تو اس کا علاج "جواب جاہلاں باشد خاموشی" کے سوا کیا ہوسکتا ہے لیکن اسے نوٹ کرلینا چاہئے کہ اس بدزبانی اور گالیوں کی زد میں کون کون سے بزرگ ہستیاں آرہی ہیں۔

قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی

قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی تاریخ ملت میں لکھتے ہیں:

"عمر بن عبد العزیز کی اصلاحات کے سلسلے میں سب سے بڑی اصلاح جو ان کے نامہ ِ اعمال میں سنہری حروف سے ثبت ہے ، حضرت علی(رض) کی شان میں بدگوئی کا انسداد ہے۔ عرصہ سے یہ دستور چلا آرہا تھا کہ خلفا ء بنی امیہ اور ان کے عُمال خطبوں میں حضرت علی (رض)پر لعن طعن کیا کرتے تھے۔ ۔۔مسند ِخلافت پر متمکن ہوئے تو آپ نے عمال کے نام حکم جاری فرمایا کہ خطبوں سے حضرت علی(رض) پر لعن طعن کو خارج کردیا جائے اور اس کی بجائے یہ آیت ِکریمہ پڑھی جائے۔۔۔" (تاریخ ملت، حصہ سوم ، ص264 )۔

مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی

مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی " تاریخ الاسلام" میں تحریر فرماتے ہیں:

"امیر معاویہ نے اپنے زمانے میں بر سر ِمنبر حضرت علی(رض) پر سب و شتم کی مزموم رسم جاری کی تھی۔ اور ان کے تمام عُمال اس رسم کو ادا کرتے تھے۔ مغیرہ بن شعبہ بڑی خوبیوں کے بزرگ تھے لیکن امیر معاویہ کی تقلید میں یہ بھی اس مزموم بدعت سے نہ بچ سکے۔
(تاریخ الاسلام، حصہ اول و دوم ، ص 13 اور 14)

عباسی و بخاری صاحبان فرمائیں کہ گزشتہ صفحات میں جن اکابر علماء کی آراء سب ِ علی(رض) کے سلسلہ میں پیش ہوئی ہیں وہ علمائے اہل ِ سنت ہیں یا کہ نہیں ؟ اگر یہ سب حضرات مسلمہ علمائے اہل ِ سنت ہیں تو ان کے خلاف رائے رکھنے والے کو کیا حق ہے کہ وہ اپنے آپ کو اہل ِ سنت میں شمار کرے۔ اس کے لئے مناسب راستہ یہ ہے کہ وہ اپنے طبعی رجحان کے مطابق یزیدیت اور ناصبیت کا علم سنبھال لے اور لوگوں کو اپنی جدت ِ فکر سے محظوظ کرے۔
 خلافت و ملوکیت اور علمائے اہل ِسنت، ص 120-122 (مکتبہ ِاہل ِسنت، گجرانوالہ)۔



باب 2: معاویہ اور بغض ِحسن ابن علی (ع)


امام حسن (ع) کا معاویہ کے ساتھ صلح کرنے پر نواصب کے اعتراضات

نواصب اکثر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر معاویہ اتنا ہی برا تھا تو امام حسن (ع) نے اس کے ساتھ صلح کیوں کی اور اسے حکومت کیوں سونپ دی۔

انشااللہ ہم اس باب میں اس صلح کی حقیقت سے اپنے قارئین کو آگاہ کرینگے۔

جواب نمبر 1: رسول اللہ (ص) نے بھی کفار کے ساتھ صلح حد یبیہ کی تھی

اگر سوال یہ ہے کہ امام حسن (ع) نے معاویہ کی ساتھ صلح کیوں کی تو ہمارا سوال ہے کہ رسول اللہ (ص) نے کفار ِمکہ کے ساتھ صلح کیوں کی تھی جو کہ صلح حد یبیہ کے نام سے مشہور ہے؟ کفار ِمکہ کے مکار و بدکار ہونے میں کسی کو شک نہیں لیکن پھر بھی رسول اللہ (ص) نے ایسے بدکار لوگوں سے صلح فرمائی۔ جس طرح رسول اللہ (ص) کی کفار ِمکہ کے ساتھ صلح سے ان لوگوں کے مکر، بدکرداری اور کفر کو نہیں چھپایا جاسکتا بالکل اسی طرح امام حسن (ص) کی معاویہ کے ساتھ صلح سے معاویہ کی ظالمانہ اور منافقانہ کاروائیوں کو چھپایا نہیں جاسکتا۔ نواصب رسول اللہ (ص) سے کفار ِمکہ کے ساتھ صلح میں جو صفائی پیش کرینگے ہم وہی صفائی امام حسن (ع) کی معاویہ کے ساتھ صلح کے سلسلے میں پیش کرنے کو تیار ہیں۔

جواب نمبر 2: رسول اللہ (ص) بنی امیہ کو اپنے منبر پر دیکھ کر غمگین ہوگئے تھے

ہم اہل ِسنت کی مندرجہ ذیل کتابوں پر انحصار کررہے ہیں:

1۔ سنن ترمذی، باب التفسیرالقرآن، سورۃ القدر، ج 5 ص 444
2۔ البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 21
3۔ اسدالغابہ، ج 2 ص 14٫
4۔ تاریخ ابن عساکر، ج 4 ص 228
5۔ مسدراک الحاکم، ج 3 ص 170

سنن ترمذی کی روایت ملاحظہ ہو:

قام رجل إلى الحسن بن علي بعد ما بايع معاوية فقال سودت وجوه المؤمنين أو يا مسود وجوه المؤمنين فقال لا تؤنبني رحمك الله فإن النبي صلى الله عليه و سلم أري بني أمية على منبره فساءه ذلك فنزلت { إنا أعطيناك الكوثر } يا محمد يعني نهرا في الجنة ونزلت { إنا أنزلناه في ليلة القدر * وما أدراك ما ليلة القدر * ليلة القدر خير من ألف شهر } يملكها بنو أمية يا محمد

جب حسن بن علی نے معاویہ کے ساتھ صلح کی تو ایک شخص اٹھا اور بولا:'آپ نے مومنین کے منہ کالے کردیئے'۔ حسن نے جواب دیا، مجھ سے پریشان نہ ہو، رسول اللہ (ص) نے خواب میں دیکھا تھا کہ بنی امیہ منبروں پر اچھل رہے ہونگے جسے دیکھ کر رسول اللہ (س) بہت غمگین ہوگئے اور پھر "إنا أعطيناك الكوثر" کا نزول ہوا۔ جس کا مطلب ہے بہشت میں موجود دریا اور پھر نزول ہوا "إنا أنزلناه في ليلة القدر۔ وما أدراك ما ليلة القدر۔ ليلة القدر خير من ألف شهر" یعنی آپ کے بعد بنی امیہ کا راج ہوگا۔

جس طرح رسول اللہ (س) معاویہ کے قبیلے بنی امیہ کے راج کا خواب دیکھ کر غمزدہ ہوگئے لیکن اس بابت چند وجوہات کی بنا پر خاموش رہے اور کسی سے اس کے حل پر گفتگو نہ فرمائی، بالکل اسی طرح امام حسن (ع) بھی چند وجوہات کی بنا پر بنی امیہ کو تخت سپرد کرتے ہوئے خاموش رہے ۔ جس طرح رسول اللہ (ص) کے غمگین ہونے کے باوجود ان کی خاموشی بنی امیہ کی حکومت کو جائز نہیں ٹھہراتی بالکل اسی طرح امام حسن (ع) کی چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر معاویہ سے صلح معاویہ کی حکومت کو جائز نہیں بنا دیتی۔

جواب نمبر 3: امام حسن (ع) نے مسلمانوں کا خون بچانے کی غرض سے صلح کی

ابن عساکر نے لکھا ہے:

قال يا مالك لا تقل ذلك أني لما رأيت الناس تركوا ذلك إلا أهله خشيت أن تجتثوا عن وجه الأرض فاردت أن يكون للدين في الأرض ناعي

جب صلح ہوگئی تو مالک بن ضمیرہ نے حسن بن علی سے کہا کہ آپ نے مومنین کے منہ کالے کردیئے جس پر حسن نے کہا کہ ایسا نہ بول، میں نے دیکھا کہ مسلمان دنیا سے ختم ہوجائینگے۔ میری خواہش ہے کہ کچھ لوگ دنیا میں موجود رہیں جو لوگوں کو اسلام سمجھائیں۔
تاریخ ابن عساکر، ج 13 ص 280

ابن کثیرنے البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 974 (نفیس اکیڈمی کراچی) ذکر ِمعاویہ کے عنوان میں ایک روایت بیان کرتے ہیں:

نعیم بن حماد نے بیان کیا ہے کہ ابن فضیل نے السری بن اسمعیل سے بحوالہ شعبی ہم سے بیان کیا ہے کہ سفیان بن اللیل نے مجھ سے بیان کیا کہ حسن بن علی مدینہ سے کوفہ آئے تو میں نے ان سے کہا کہ اے مومنین کو ذلیل کرنے والے۔ حسن نے کہا کہ ایسا نہ کہو، میں نے رسول اللہ (ص) کو کہتے سنا کہ شب و روز ختم نہ ہونگے حتیٰ کہ معاویہ بادشاہ بن جائیگا، پس مجھے معلوم ہوگیا کہ اللہ کا حکم ہوکر رہنے والا ہے پس میں نے پسند نہ کیا کہ معاویہ اور میرے درمیاں مسلمانوں کے خون بہائے جائیں۔

یہی وجہ ہے کہ آج کے دور کہ سلفی عالم ِدین حسن بن فرحان المالکی اپنی کتاب 'قراء ۃ فی کتاب العقائد' ص 72 میں لکھتے ہیں:

صلح الحسن أفضل من تعرضه ومن معه من بقية أهل البيت ومحبيهم لمذبحة ينتهي فيها ذكر أهل البيت !! فصلح الحسن أتاح لهؤلاء المحبين الاختلاط بالناس ونقل أحاديث علي وفقهه وعلمه

حسن کا صلح کرنا ان کے، باقی اہل ِبیت اور ان کے پیروکاروں کے قتل ہوجانے سے زیادہ بہتر تھا جس سے ذکر ِاہل ِبیت اختتام پذیر ہوجاتا۔ حسن کے صلح کرنے سے ان کے پیروکاروں کو لوگوں سے رابطہ کرنے اور حضرت علی کی احادیث، فقہ اور علم بیان کرنے کا موقع مل گیا۔

امام ِوقت یعنی الحسن بن علی (ع)نے جنگ اس وجہ سے نہیں رکوادی کہ ان کی نظروں میں معاویہ خلافت کا اہل تھا بلکہ وہ مسلمانوں کو قتل ِعام سے بچانا چاہتے تھے بالکل اسی طرح جیسے رسول اللہ (ص) نے اس وقت کے حالات و صورتحال میں مسلمانوں کا خون بچانے کے لئے کفار سے صلح کرلی تھی۔ ایک راہنماء کا کام اپنے حاضر اور آئندہ آنے والے پیروکاروں کو مشکل صورتحال میں درست فیصلے کرنے کا سبق دینا ہوتا ہے۔ قارئین خود ہی بتائیں کہ اس سے زیادہ مشکل حالات اور کیا ہوسکتے تھے۔ امام حسن (ع) نے صورتحال کا جائزہ لیا اور وہ راہ اپنائی جس میں دین و مسلمانوں کی بھلائی ہو اور بڑی مصیبت سے بچا جاسکتے۔ اسی بات کو حسن بن فرحان نے 'قراء ۃ فی کتاب العقائد' ص 72 میں یوں بیان کیا ہے:

كما تعلم الناس من الحسن اختيار أخف الضررين

اور لوگوں نے حسن سے سیکھا کہ جب دو مشکلوں میں گھر جائیں تو کم مشکل راہ کو اپنا لیا جائے۔

جواب نمبر 4: امام حسن (ع) نے دباؤ میں آکر صلح کی

ابن عساکر نے نقل کیا ہے:

إلا وان معاوية دعانا إلى أمر ليس فيه عز ولا نصفة فان اردتم الموت رددناه عليه وحاكمناه إلى الله جل وعز بظبا ( 5 ) السيوف وان اردتم الحياة قبلناه واخذنا لكم الرضا فناداه القوم من كل جانب البقية البقية ( 6 ( فلما افردوه امضى الصلح

حسن نے کہا کو لوگوں تمہیں معلوم ہوجائے کہ معاویہ نے جس صلح کی جانب ہمیں دعوت دی ہے جو باعزت ہے نہ انصاف کے بیان پر ہے۔ اگر تم موت کے لئے تیار ہو تو میں یہ دعوت رد کردیتا ہوں اور پھر ہم اپنی تلواروں سے جواب دیں اور معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں۔ اگر ہمیں زندگی درکار ہے تو ہم اسے قبول کرلیتے ہیں۔ یہ سننے پر ہر جانب سے آواز آئی تقیہ تقیہ۔ جب لوگ حسن کو چھوڑ گئے تو انہوں نے صلح کرلی۔
تاریخ ابن عساکر، ج 13 ص 268

اگرچہ ابن عساکر نے بقیہ بقیہ لکھا ہے لیکن چونکہ یہی روایت امام ذھبی نے سیراعلام النبلاء، ج 3 ص 269 میں تقیہ تقیہ کے ساتھ بیان کی ہے اس لئے ہم نے بھی ایسا ہی لکھ دیا ہے۔

مندرجہ بالا تقیہ بالکل ویسا ہی تھا جس طرح کا تقیہ رسول اللہ (ص) نے صلح حد یبیہ کے وقت فرمایا تھا۔

جواب نمبر 5: امام حسن (ع) نے کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ فتنہ سے بچنے کے لئے صلح کی

جیسا کہ ہم پہلے ہی بیان کرچکے ہیں کہ حالات اس نہج پر آچکے تھے کہ امام حسن (ع) کو یہی بہتر معلوم ہوا کہ صلح کرلی جائے۔ اس میں امام حسن (ع) کی کمزوری نہیں تھی بلکہ امام ِوقت کے فعل میں حکمت چھپی ہوتی ہے۔ اہل ِسنت کے امام قسطلانی نے صحیح بخاری کی شرح ارشاد الساری، ج 9 ص 190 کتاب الفتن میں لکھا ہے:

حسن نے اقتدارکسی کمزوری کی وجہ سے نہیں چھوڑا بلکہ انہوں نے فتنہ و خونریزی کو دبانے کے لئے صلح کرلی۔

امام ِاہل ِسنت کا قرار اس بات کو ثابت کررہا ہے کہ آ ئمائے اہل ِسنت کی نزدیک بھی امام حسن (ع) کا فیصلہ مشکلات و مجبوریوں کی بنا پر تھا یعنی معاویہ کی خلافت جائز نہ تھی بلکہ مجبوری کا فائدہ تھی۔

جواب نمبر 5: صلح کرنے میں معاویہ کی نیت صاف نہ تھی

ہم اہل ِسنت کی مندرجہ ذیل کتابوں پر انحصار کرتے ہیں:

1۔ صحیح مسلم، کتاب الامارہ، حدیث 4890
2 مشکات المصابیح از شاہ عبدالحق، ج 2 ص 166
3۔۔ مرقات شرح مشکات از ملا علی قاری، ج 15 ص 341
3۔ منہاج السنہ، ج 1 ص 560
4۔ حجۃ البلاغہ، ج 2 ص 213
5۔ النہایہ، ج 2 ص 109
6۔ مجمع الامثال، ج 2 ص 383 نمبر 4464

صحیح مسلم میں ہم پڑھتے ہیں:

۔۔۔۔ يقول سمعت حذيفة بن اليمان، يقول كان الناس يسألون رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الخير وكنت أسأله عن الشر مخافة أن يدركني فقلت يا رسول الله إنا كنا في جاهلية وشر فجاءنا الله بهذا الخير فهل بعد هذا الخير شر قال ‏"‏ نعم ‏"‏ فقلت هل بعد ذلك الشر من خير قال ‏"‏ نعم وفيه دخن ‏"‏ ‏.‏ قلت وما دخنه قال ‏"‏ قوم يستنون بغير سنتي ويهدون بغير هديي تعرف منهم وتنكر ‏"‏ ۔۔۔۔

حضرت حذیفہ بن الیمان سے روایت ہے کہ لوگ رسول اللہ (ص) سے بھلی باتوں کو پوچھا کرتے تھے اور میں بری باتوں کو پوچھا کرتا تھا اس ڈر سے کہ کہیں میں برائی میں نہ پڑ جاؤں۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ (ص)، ہم جاہلیت اور برائی میں تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ہم کو یہ بھلائی دی (یعنی السلام)، تو کیا اب اس کے بعد بھی کوئی برائی ہے؟ رسول اللہ (ص) نے فرمایا، ہاں لیکن اس میں دھبہ ہے۔ میں نے پوچھا وہ دھبہ کیسا؟ رسول اللہ (ص) نے کہا میرے بعد وہ لوگ ہونگے جو میری سنت پر نہیں چلیں گے اور میرے طریقے کے سوا اور راہ پر چلیں گے ان میں اچھی باتیں بھی ہونگیں اور بری باتیں بھی۔ میں نے عرض کیا کہ کیا پھر اس کے بعد برائی ہوگی؟
رسول اللہ (ص) نے کہا، ہاں ایسے لوگ پیدا ہونگے جو لوگوں کو جہنم کے دروازے کی طرف بلائیں گے، جو ان کی بات سنےگا اس کو جہنم میں ڈالدینگے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (ص) ان کوگوں کا حال ہمیں بیان فرمائیے؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ ان کا رنگ ہمارے جیسا ہی ہوگا اور ہماری ہی زبان بولیں گے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (ص) کہ اگر میں ایسے زمانے کو پاؤں تو میں کیا کروں؟ آپ نے فرمایا کہ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہو اور ان کے امام کے ساتھ رہو۔ میں نے پوچھا کہ اگر جماعت اور امام نہ ہوں؟ آپ (ص)نے فرمایا کہ پھر سب فرقوں کو چھوڑدے حتٰی کہ ایک درخت کی جڑ مرتے دم تک دانت سے چباتا رہے۔

اس روایت میں لفظ دخن استعمال کیا گیا ہے جس کی کئی سنی علماء نے وضاحت کی ہے۔ اس روایت کے متعلق نواصب کے امام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب المنہاج السنہ میں لکھا ہے:

والخبر الثاني اجتماع الناس لما اصطلح الحسن ومعاوية لكن كان صلحا على دخن

دوسری خبر اس کے متعلق ہے جب لوگ حسن اور معاویہ کی صلح پر جمع ہوگئے تھے لیکن صلح کی بنیاد دھوکے پر تھی

ابن اثیر نے النہایہ میں لکھا ہے:

دخن سے مراد وہ صلح ہے جس میں دل صاف نہ ہوں

شاہ عبدالحق محدث دہلوی نے شرح مشکات میں لکھا ہے:

دخن سے مراد وہ صلح ہے جس میں دھوکہ اور نفاق ہو۔

امام ابوالفضل المیدانی نے مجمع الامثال میں لکھا ہے:

 فاستعير الدَّخَنُ لفَسَاد الضمائر والنيات

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے حجۃ البلاغہ میں لکھا ہے:

دخن سے مراد وہ صلح ہے جو معاویہ اور حسن ابن علی کے درمیان ہوئی

امام نووی نے صحیح مسلم کی حدیث کی شرح میں لکھا ہے:

قال أبو عبيد وغيره : ( الدخن ) بفتح الدال المهملة والخاء المعجمة ، أصله : أن تكون في لون الدابة كدورة إلى سواد ، قالوا : والمراد هنا أن لا تصفو القلوب بعضها لبعض

دخن وہ رنگ ہے جو حیوانوں میں سیاہی مائل ہوتا ہے اور اس حدیث میں دخن سے مراد وہ دل ہے جو صاف نہ ہو۔

امام ملا علی قاری الحنفی نے شرح مشکات میں لکھا ہے:

وبالخير الثاني ما وقع من صلح الحسن مع معاوية والإجماع عليه وبالدخن ما كان في زمنه من بعض الأمراء كزياد بالعراق

دوسری خبر سے مراد معاویہ اور حسن کے درمیان ہونے والی صلح ہے اور دخن (دھواں یا دھبہ) سے مراد معاویہ کے زمانے کے بعض حکمران ہیں مثل زیاد کے جو عراق میں تھا۔

امام حسن (ع) نواسہ ِ رسول (س) اور جگرگوشہ ِبتول (ع) ہیں، وہ ان لوگوں میں سے ایک ہیں جن کے لئے آیت ِتطہیرنازل ہوئی، وہ جنت میں جوانوں کے سردار ہیں، صلح کے وقت ان کی نیت بالکل صاف تھی جبکہ یہ معاویہ ہی تھا جس کی نیت میں کھوٹ تھا اور جو بعد میں سب پر عیاں ہوگیا معاہدہ کی پاسداری نہ کرنے کی صورت میں، امام حسن (ع) کو قتل کروانے کی صورت میں اور امام حسن(ع) کی موت پر اظہار مسرت کرنے کی صورت میں۔

جواب نمبر 6: معاویہ نے خلافت زور و زبردستی سے حاصل کی

معاویہ نے شاطر چالیں چل کر ایسی صورتحال پیدا کردی تھیں کہ امام حسن (ع) دو باتوں میں سے ایک کو قبول کرنے کے لئے مجبور ہوئے، یا مسلمانوں کی زبردست خونریزی یا پھر صلح ۔ معاویہ نے اپنی فوج کوفہ کے باہر لگادی جبکہ امام حسن (ع) کے لوگوں کو خریدنے کی پوری کوششیں کیں۔ معاویہ نے شام، فلسطین اور دیگر علاقوں سے اپنے کمانڈروں کا اجلاس منعقد کیا جس کے بعد شام کے کمانڈر نے اپنی ساٹھ ہزار کی فوج کے ساتھ امام حسن (ع) کی جانب پیشقدمی شروع کردی (دیکھیئے تاریخ اعثم کوفی، ج 4 ص 153)۔ معاویہ کا امام حسن (ع) کے گرد ساٹھ ہزار کا لشکر بھیجنا صاف بتاتا ہے کہ معاویہ کی نیت امن کی نہیں جنگ کی تھی اور ایسی صورتحال پیدا کرنے کی تھی کہ امام حسن (ع) وہی کرنے پر مجبور ہوجائیں جیسا معاویہ چاہے۔ اپنے اس فعل سے اس نے ایک واضح اشارہ بھیج دیا تھا کہ وہ امام حسن (ع) سے کسی بھی طرح خلافت حاصل کرنا چاہتا تھا اور پھر ایک وقت وہ آیا کہ جب امام حسن (ع) کے پاس صلح کے سوا کوئی اور راستہ نہ رہا۔ معاویہ کے اس طرز ِعمل پر مولانا سید ابوالاعلٰی مودودی نے خلافت و ملوکیت، ص 15-159 میں ابن کثیر سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:

ملوکیت کا آغاز اسی قاعدے کی تبدیلی سے ہوا۔ حضرت معاویہ کی خلافت اس نوعیت کی خلافت نہ تھی کہ مسلمانوں کے بنانے سے وہ خلیفہ بنے ہوں اور اگر مسلمان ایسا کرنے پر راضی نہ ہوتے تو وہ نہ بنتے۔ وہ بہرحال خلیفہ بننا چاہتے تھے۔ انہوں نے لڑ کر خلافت حاصل کی، مسلمانوں کے راضی ہونے پر ان کی خلافت کا انحصار نہ تھا۔ لوگوں نے ان کو خلیفہ نہیں بنایا وہ خود اپنے زور سے خلیفہ بنے اور جب وہ خلیفہ بن گئے تو لوگوں کے لئے بیعت کے سوا کوئی اور چارہ کار نہ تھا۔ اس وقت ان سے بیعت نہ کی جاتی تو اس کا نتیجہ یہ نہ ہوتا کہ وہ اپنے حاصل کردہ منصب سے ہٹ جاتے بلکہ اس کے معنی خونریزی اور بدنظمی کے تھے جسے امن و نظم پر ترجیح نہیں دی جاسکتی تھی۔ اس لیے امام حسن (رض) کی دست برداری (ربیع الاول 41 ہجری) کے بعد تمام صحابہ، تابعین اور علمائے وقت نے ان کی بیعت پر اتفاق کیا اور اس کو عام الجماعت اس بنا پر قرار دیا کہ کم از کم باہمی خانہ جنگی تو ختم ہوئی۔ حضرت معاویہ خود بھی اس پوزیشن کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ اپنے زمانہ ِ خلافت کے آغاز میں انہوں نے مدینہ میں تقریر کرتے ہوئے خود فرمایا:

بخدا میں تمہاری حکومت کی زمام ِکار اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اس بات سے ناواقف نہ تھا کہ تم میرے بر سر ِاقدار آنے سے خوش نہیں ہو اور اسے پسند نہیں کرتے۔ اس معاملہ میں جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے، اسے میں خوب جانتا ہوں مگر میں نے اپنی اس تلوار کے زور سے تم کو مغلوب کرلیا ہے ۔۔۔۔اب اگر تم یہ دیکھو کہ میں تمہارا حق پورا پوررا ادا نہیں کررہا ہوں تو تھوڑے پر مجھ سے راضی رہو۔
 خلافت و ملوکیت، ص 158-159

جواب نمبر 7: صلح کرکے امام حسن نے دنیا کو دکھا دیا کہ معاویہ کتنا بڑا جھوٹا اور مکار ہے

صلح کا معاہدہ جن وعدوں کی بنیاد پر ہوا ان میں سےایک شرط یہ تھی کہ معاویہ کے مرنے کے بعد حکومت امام حسن (ع) کو منتقل ہوجائیگی۔ جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری، ج 13 ص 65 میں لکھا ہے:

اني اشترطت على معاوية لنفسي الخلافة بعده

حسن نے کہا کہ معاویہ سے میں نے یہ شرط رکھی ہے کہ معاویہ کے بعد میں حکمران ہونگا۔

اسی طرح نواصب کے امام ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 80 میں لکھا ہے:

وقد كان معاوية لما صالح الحسن عهد للحسن بالأمر من بعد

جب معاویہ نے حسن سے صلح کی تو معاویہ نے وعدہ کیا کہ اس کے بعد حسن حکمران ہونگے۔

صحیح بخاری کی ایک حدیث کے مطابق منافق وہ ہے جو وعدہ کرکے مکر جائے۔ اس صلح نے معاویہ کی مکاری اور اس کا بغض ِاہل ِبیت (ع) سب کے سامنے عیاں کردیا جیسا کہ معاویہ نے اپنا وعدہ نہ نبہانے اور اپنے بعد اپنے بیٹے یزید کو حکمران مقرر کرنے کی نیت سے امام حسن (ع) کو ہی قتل کروادیا۔ اس صلح کے ذریعے ہی امت کو معاویہ کا منافقانہ کردار عیاں کروایا گیا ۔ اللہ تعالیٰ کا سورہ الرعد آیت 25 میں فرمان ہے:

اور جو لو گ الله کا عہد مضبوط کرنے کے بعد توڑ تے ہیں اور اس چیز کو توڑتے ہیں جسے الله نے جوڑنے کا حکم فرمایا اور ملک میں فساد کرتے ہیں ان کے لیے لعنت ہے اور ان کے لیے برا گھر ہے۔

جواب نمبر 8: امام حسن کے مطابق خلافت ان کا حق تھا اور معاویہ چور تھا

شیخ مفتی کمال الدین بن طلحہ الشافعی (متوفی 682 ھ) اپنی کتاب مطالب السئول، ج 2 ص 17 میں جنگ بندی کے بعد امام حسن (ع) نے جو خطبہ دیا لکھا ہے:

اے بندگان ِخدا، تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے میرے نانا کی ذریعے تم لوگوں کی ہدایت کی اور جہالت سے بچایا اور گمراہی کی پستی سے بلند کیااور کفر کی ذلت کی بعد تمہیں عزت بخشی اور قلت کے بعد تمہیں کثرت عطا کی۔ پس، معاویہ نے میرے ساتھ ایسی چیز پر جھگڑا کیا ہے جو میرا حق ہے نہ کہ معاویہ کا ۔ پس میں نے امت کی فلاح و بہبود کی خاطر عفوودرگزر کیا ہے اور تم لوگوں نے میری بیعت کی تھی اس بات پر کہ میں جس کسی کے ساتھ صلح کرونگا تم بھی کروگے اور جس کسی کے ساتھ میں جنگ کرونگا تم بھی کروگے پس میں نے یہ مصلحت دیکھی ہے کہ میں معاویہ کے ساتھ صلح کرلوں اور جنگ بندی کرلوں۔

امام حسن (ع) کے اس خطبہ سے ثابت ہوا کہ آپ (ع) معاویہ کو خلافت کا اہل و حقدار نہیں سمجھتے تھے بلکہ معاویہ کو ظالم و غاصب سمجھتے تھے لیکن بعض مصلحت کے تحت امام ِوقت نے دشمن سے صلح کرلی بالکل اسی طرح جس طرح رسول اللہ (ص) نے کفار کے ساتھ مصلحت کے تحت صلح کرلی تھی۔ پس، جس طرح کسی کو حق نہیں کہ وہ رسول اللہ (ص) کی صلح پر تنقید کرے بالکل اسی طرح کسی کو حق نہیں کہ وہ رسول اللہ (ص) کے نائب و امام ِوقت حسن (ع) کی صلح پر کسی قسم کی کوئی تنقید کرے اور یہ رنگ دے کہ امام حسن (ع) کی صلح کا مطلب یہ ہوا کہ امام حسن (ع) کے نزدیک معاویہ کوئی بہت نیک و اہل شخص تھا۔

جواب نمبر 9: اہل ِسنت کے عقیدہ کے مطابق گمراہوں کے ساتھ صلح ہوسکتی ہے

اہل ِسنت کی عظیم کتاب الھدایہ، ج 3 ص 133 کتاب الآداب اور شرح الھدایہ، ج 10 ص 217 میں ہم پڑھتے ہیں:

ثم يجوز التقلد من السلطان الجائر كما يجوز من العادل لأن الصحابة تقلده من معاوية والحق كان بيد علي رضي الله تعالى عنه والتابعين تقلدوه من الحجاج وكان جائزا

ایک ناجائز حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے بالکل اسی طرح جیسے کسی عادل حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ معاویہ کے دور میں صحابہ نے عہدے قبض کیے حالانکہ حق تو علی کے ساتھ تھا۔ اسی طرح اگرچہ حجاج حق پر نہ تھا لیکن پھر بھی تابعین اس کی جانب سے قاضی مقرر ہوئے۔

ھدایہ کے اس فتویٰ کی رو سے معاویہ اور حجاج دونوں ایک جیسے یعنی ناجائز حکمراں تھے لیکن پھر بھی صحابہ و تابعین نے ایسے ناجائز حکمرانوں سے ملازمت کے معاہدے کیے تو کیا صحابہ نے اس قسم کے معاہدے کرکے گناہ کا ارتکاب کیا؟ اگرصحابہ کا ناجائز معاویہ سے معاہدے کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں تو پھر امام حسن (ع) کا معاویہ سے صلح کا معاہدہ کرنے میں کیا برائی ہے؟

جواب نمبر 10: اگر اب بھی صلح کی وجہ سمجھ نہ آئی تو فیصلہ قرآن سے

سورہ انفال آیت 61 میں ہم پڑھتے ہیں:

اور اگر وہ صلح کے لیے مائل ہوں تو تم بھی مائل ہو جاؤ اور الله پر بھروسہ کرو بے شک وہی سننے والا جاننے والا ہے

اس آیت کے متعلق اہل ِسنت اور خاص کر سپاہ ِصحابہ کے دیوبند مسلک کی مایہ ناز کتاب الھدایہ، ج 1 ص 381 میں ہم پڑھتے ہیں:


الإمام أن يصالح أهل الحرب أو فريقا منهم وكان في ذلك مصلحة للمسلمين فلا بأس به لقوله تعالى : { وإن جنحوا للسلم فاجنح لها وتوكل على الله } الأنفال : 61

جب امام کفار کے ساتھ صلح کا ارادہ کرے جب صلح میں مسلمانوں کے لئے کوئی مصلحت ہو، ایسی صلح کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اللہ کا فرمان ہے:
اور اگر وہ صلح کے لیے مائل ہوں تو تم بھی مائل ہو جاؤ اور الله پر بھروسہ کرو بے شک وہی سننے والا جاننے والا ہے

جب امام کو حق حاصل ہے کو وہ اپنی دور اندیشی کی بنا پر مسلمانوں کے لئے بہتری دیکھتے ہوئے دشمن سے صلح کرلے، تو امام حسن (ع) کی صلح پر سوال کس طرح اٹھایا جاسکتا ہے؟

اسی طرح اہل ِسنت کی ایک اور معتبر کتاب یعنی تفسیرلباب التاویل جو کہ تفسیر خاذن کے نام سے مشہور ہے، اس آیت کی تفسیر میں ہم پڑھتے ہیں:

فإن رأى الإمام أن يصالح أعداءه من الكفار وفيه قوة فلا يجوز أن يهادنهم سنة كاملة وإن كانت القوة للمشركين جاز أن يهادنهم عشر سنين ولا تجوز الزيادة عليها اقتداء برسول الله صلى الله عليه وسلم فإنه صالح أهل مكة مدة عشر سنين

اگر امام کفاردشمن سے صلح کرنا چاہے اور امام میں جنگ کرنے کی قوت بھی ہو تو امام سال یا اس سے کم عرصہ کے لئے صلح کرسکتا ہے ۔ اگر قوت مشرکین کے ساتھ ہو تو امام کے لئے جائز ہے کہ وہ دس سال کے عرصہ تک کے لئے صلح کرلے البتہ اس سے زیادہ کے عرصہ کے لئے جائز نہیں کیونکہ رسول اللہ (ص) نے کفار مکہ سے دس سال کے عرصہ کے لئے صلح فرمائی تھی

امام حسن (ع) رسول اللہ (ص) کے خلیفہ ضرور تھے لیکن ان کی طرح کی قوت حاصل نہ تھی ۔چاند کے دو ٹکڑے کرنے والا نبی کفار کے سامنے ہتھیار ڈالدیتا ہے اور دس سال کے عرصہ تک جنگ نہ کرنے کا ایسا معاہدہ کرلیا جس سے حضرت عمر جیسے شخص کو بھی نبوت میں شک ہونے لگا تھا۔ کیا ہی عجیب بات ہے کہ رسول کے بےشمار جانثار ساتھیوں کا دم بھرنے والے دیکھتے ہیں کہ کس طرح رسول اللہ (ص) ان تمام ساتھیوں کی موجودگی میں اتنے کمزور ہوگئے تھے کہ کفار سے دس سال تک جنگ نہ کرنے کے معاہدہ کرلیا تھا لیکن ظاہر ہے کہ اس عمل سے رسول اللہ (ص) کی نبوت پر کوئی حرف نہیں آتا تو پھر منافقین سے مجبور ہوکر امام حسن (ع) صلح فرماتے ہیں تو ان کی امامت پر حرف کیسے آسکتا ہے!

جواب نمبر 11: طلقاء خلیفہ نہیں بن سکتے

ابن اثیر نے اسدالغابہ، ج 5 س 224 میں ہم پڑھتے ہیں:

عن عمر أنه قال هذا الأمر في أهل بدر ما بقي منهم أحد ثم في أهل أحد ما بقي منهم أحد ثم في كذا وكذا وليس فيها لطليق ولا لولد طليق ولا لمسلمة الفتح شيء

حضرت عمر نے کہا کہ خلافت اہل بدر میں رہےگی اور طلقاء اور ان کی اولادوں کا اس میں کوئی حق نہیں ہے۔

معاویہ نے پریشان ہوکر فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کرلیا، ایسے لوگوں کو طلقاء کہا جاتا ہے اور جناب عمر کے مطابق ایسے لوگ خلافت کے اہل نہیں۔ شاہ والی اللہ دہلوی نے ازالت الخفاء، ج 1 ص 25 میں لکھتے ہیں:

جس میں شرائط خلافت نہ ہو وہ گناہ گار ہے

مندرجہ بالا دونوں عبارتوں کا نتیجہ واضح ہے کہ معاویہ خلافت کا اہل نہیں لیکن پھر بھی حکمران بننے کی خواہش کی وجہ سے وہ گنہگار بنا۔ اسی حوالے سے ہم حضرت عائشہ کے الفاظ پڑھتے ہیں کتاب البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 131 میں:


اسود بن یزید نے بیان کیا ہے کہ میں نے حضرت عائشہ سے کہا کہ کیا آپ ایسے شخص پر تعجب نہیں کرتیں جو طلقاء میں سے ہے اور خلافت کے بارے میں رسول اللہ (ص) کے اصحاب سے جھگڑا کرتا ہے؟ حضرت عائشہ نے فرمایا اور تم اس بات سے تعجب نہیں کرتے کہ یہ اقتدار ِ الٰہی ہے جسے وہ نیک و بدکار کو دیتا ہے اور اس نے فرعون کو اہل ِمصر پر چار سو سال تک بادشاہ بنایا اور اسی طرح دیگر کفار کو بھی۔

اگر حضرت عائشہ کے یہ الفاظ سن کر اب بھی سپاہ ِصحابہ کے جیسے نواصب معاویہ کے خلیفہ تسلیم کرتے ہیں تو ان کے کیا ہی کہنے!


معاویہ کو دی گئی بیعت

نواصب کا اعتراض ہے کہ امام حسن (ع) نے معاویہ کو بیعت دے دی تھی لہٰذا معاویہ کی خلافت جائز ہوئی۔

جواب نمبر 1: بیعت کی معنی

بیعت کے اصل معنی عاہدہ کرنے کے ہیں ۔ صلح الحسن میں صلح کی شرائط کا کاغذ پر اتارنا ثابت کرتا ہے کہ ایک مکمل معاہدہ تحریر کیا گیا تھا۔ امام حسن (ع) حکومت ان درج ذیل شرائط کی بنیاد پر منتقل کررہے تھے۔ معاویہ کے دستخط کے ساتھ ہی بیعت مکمل ہوگئی یعنی معاہدہ دونوں فریقین کی مرضی سے پختہ ہوگیا۔ لہٰذا بیعت معاہدہ کے لئے تھی نہ کہ خلافت کے لئے یہی وجہ ہے کہ معاویہ کا شمار خلفائے راشدین میں نہیں ہوتا جبکہ امام جلال الدین سیوطی نے امام حسن (ع) کا شمار خلفائے راشدین میں کیا ہے۔

جواب نمبر 2: نواصب نادانی یا حیلہ کی بنیاد پر صلح کو بیعت کا نام دیتے ہیں

ہم اہل ِسنت کی مندرجہ ذیل کتابوں پر انحصار کرتے ہیں:

1۔ البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 18
2۔ الاتیعاب، ج 1 ص 115
3۔ تھذیب التھذیب، ج 2 ص 259
4۔ مطالب السئول، ج 2 ص 26
5۔ تذکرۃ الخواص، ص 113
6۔ مروج الذھب، ج 3 ص 8
7۔ القعد الفیرد، ج 2 ص 244
8۔ المعارف، ص 92
9۔ سوائق المحرقہ، ج 2 ص 29
10۔ تاریخ بغداد، ج 178 ذکر قیس بن سعد
11۔ اخبار الطوال، ص 118
12۔ منہاج السنہ، ج 1 ص 560

ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے:

۔۔۔فصالحه‏۔۔۔ وهو في ذلك هو البار الراشد الممدوح

پس حسن نے معاویہ کے ساتھ صلح کرلی اور یہ صلح قابل ِستائش عمل ہے

علامہ ابن حجر مکی الھیثمی اپنی شیعہ مخالف کتاب السوائق المحرقہ میں لکھتے ہیں

ولما تصالحا كتب به الحسن كتابا لمعاوية صورته
بسم الله الرحمن الرحيم هذا ما صالح عليه الحسن بن علي رضي الله عنهما معاوية بن أبي سفيان

جب انہوں نے صلح کرلی تو حسن نے معاویہ کو ایک خط لکھا جس کا مواد یہ تھا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ یہ صلح حسن بن علی کرتا ہے معاویہ بن ابی سفیان سے

امام ابن عبد البر نے الاستیعاب میں لکھا:

عن الشعبي قال لما جرى الصلح بين الحسن بن علي ومعاوية

شعبی نے بیان کیا ہے کہ جب حسن بن علی اور معاویہ کے درمیاں صلح ہوئی۔۔۔

امام ابن حجرعسقلانی نے تھذیب التھذیب میں لکھا:

معاویہ اور حسن کے درمیاں صلح ربیع الاول سن 41 ہجری میں ہوئی۔

نواصب کا امام ابن تیمیہ نے منہاج السنہ میں لکھا ہے:

والخبر الثاني اجتماع الناس لما اصطلح الحسن ومعاوية لكن كان صلحا على دخن

دوسری خبر اس کے متعلق ہے جب لوگ حسن اور معاویہ کی صلح پر جمع ہوگئے تھے لیکن صلح کی بنیاد دھوکے پر تھی

پس، امام حسن (ع) نے معاویہ سے صلح کی تھی لیکن معاویہ خیل قبیلہ نے معاویہ کی حکومت کو خلافت رنگ دینے اور اس کی حکومت کو جائز قرار دینے کی کوشش میں اس صلح کو بیعت کا رنگ دینا شروع کردیا۔ صلح کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ جس سے صلح ہوری ہے اس کی حکومت جائز ہو گئی ورنہ رسول اللہ (ص) کا کفار سے صلح کرنا کیا کفار کی حیثیت کو جائز بنا دیا تھا؟


ناصبی قیاس کہ امام حسن نے معاویہ سے وظیفہ وصول کرکے معاویہ کی خلافت کو تسلیم کرلیا

نواصب کی ہمیشہ سے ہی یہ کوشش رہی کے کہ کسی نہ کسی طرح معاویہ کی ملوکیت کو خلافت کا رنگ دیا جائے اور ایسے دلائل تلاش کئے جائیں کہ جس سے وہ معاویہ کی ملوکیت کو جائز ٹھہرا سکیں ۔ اسی طرح کی ایک ناکام کوشش وہ اس دلیل سے پیش کرنے لگے ہیں کہ چونکہ امام حسن (ع) نے معاویہ کی حکمرانی کے دوران اس سے وظیفہ حاصل کیا لہٰذا امام حسن کی نظر میں معاویہ کی حکمرانی جائز ہوئی۔

جواب نمبر1:

اگر ظالم کسی مظلوم سے اس کا حق چھین لے اور بعد میں اس چھینی ہوئی مقدار سے قسطوں کے طور پر تھوڑا تھوڑا حق واپس مظلوم کو دیتا رہے تو اسکا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ظالم مظلوم کی طرف رحم دل ہوگیا ہے یا پھرمظلوم کا ظالم سے اپنے حق میں سے ملنا والا ذرہ سا حصہ قبول کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ظالم کہ پاس بچ جانے والا باقی مال جائز ہوگیا۔ مقبوضہ فلسطین کی مثال لے لیجئے جہاں ظالم و غاصب اسرایئلیوں نے فلسطین کی زمین پر قبضہ کرلیا لیکن مظلوم فلسطینیوں سے معاہدہ کے بعد اسرائیل نے فلسطین کی زمین کا کچھ حصہ دوبارہ فلسطینیوں کو دے دیا۔ اسرائیل کی جانب سے غصب شدہ زمیں کا کچھ حصہ واپس فلسطینیوں کو دینے کا مطلب یہ نہیں کہ زمیں کا باقی حصہ جو اسرائیل کے پاس ہے وہ جائز ہوگیا۔ کچھ بھی ہوجائے، اسرائیل ظالم اور فلسطین مظلوم ہی رہینگے۔

جواب نمبر2:

اللہ کے نبی موسی (ع) نے کافر فرعون کے گھر پرورش پائی اور بچپن سے ہی فرعون کے مہیا کیے گئے رزق، مال و متاع پرمنحصر رہے اس کے باوجود نبی نبی ہی رہا اور کافر کافر ہی رہا۔ اسی طرح امام حسن (ع) معاویہ کے دور میں بیت المال سے وظیفہ تسلیم کیا لیکن امام ِحق، امام ِحق ہی رہا اور ظالم ظالم ہی رہا۔

جواب نمبر3:

حضرت یوسف (ع) اللہ کے نبی تھے لیکن وہ ایک کافر بادشاہ کے گھر پر رہے، اس کے گھر کا زرق کھایا اور اس کے مال پر انحصار کیا اور ایک وقت وہ آیا جب کافر بادشاہ نے حضرت یوسف کو غلہ کا نگہبان مقرر کردیا لیکن پھر بھی حضرت یوسف اللہ کے نبی ہی رہے اور وہ بادشاہ کافر ہی رہا۔ اسی طرح اگر امام حسن (ع) نے ظالم بادشاہ سے وظیفہ تسلیم کیا تو اس میں کیا حرج ہے؟ امام امام ہی رہا اور ظالم ظالم ہی۔

جواب نمبر4:

بیت المال معاویہ کی ذاتی ملکیت نہ تھی بلکہ اس کا مقصد مسلمانوں کی فلاح و بہبود تھا اور اس بیت المال سے معاویہ نے جو کچھ بھی امام حسن کو بھیجا وہ انہوں نے اپنی ضروریات کے لئے رکھا اور باقی غریبوں، مسکینوں اور یتیموں کے کام میں لائے۔ پس، امام حسن نے ایک غاصب سے غریبوں کا حق حاصل کیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ یہ مال انہی لوگوں تک پہنچے جو اس کے حقدار ہیں۔

جواب نمبر5:

علمی جوابات کے بعد آیئے اب حوالہ جات کی بنا پر ناصبی قیاس کا رد کریں جو کہ ناصبیت کے اس قیاس کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔ امام ِ اہل ِسنت ابو بکر الجصاص الرازی (متوفی 370 ھ)لکھتے ہیں:

 حسن بصری ٗ سعید بن جبیر ٗ شبعی اور تمام تابعین ان ظالم (حکمرانوں) سے وظیفے لیتے تھے لیکن اس بناء پر نہیں کہ وہ ان سے دوستی رکھتے تھے اور ان کی حکومت کو جائز تصور کرتے تھے ٗ بلکہ اس لئے لیتے تھے کہ یہ تو ان کے اپنے حقوق ہیں جو ظالم و فاجر لوگوں کے ہاتھ میں ہیں۔ ان سے دوستی کی بنیاد پر یہ کام کیسے ہو سکتا ہے حالانکہ انہوں نے حجاج سے تلوار کے ذریعے مقابلہ کیا چار ہزار قراء (علماء) نے ٗ جو تابعین میں سے بہترین اور فقہاء تھے ٗ عبدالرحمن بن محمد بن اشعث کی قیادت میں حجاج سے اھواز کے مقام پر جنگ کی ٗ پھر بصرہ اور بعد ازاں کوفہ کے قریب فرات کے کنارے دیر جماجم کے مقامات پر حجاج سے جنگ کی ہے۔ انہوں نے عبد الملک بن مروان کی بیعت توڑ دی تھی ٗ ان (اموی حکمرانوں) پر لعنت کرتے اور ان سے تبرا کرتے تھے۔ ان سے پہلے کے لوگوں کا معاویہ کے ساتھ بھی یہی طریقہ تھا ٗ جب وہ حضرت علی کی شہادت کے بعد زبردستی حکمران بن گیا حسن اور حسین بھی (معاویہ سے)وظائف لیتے تھے ٗ بلکہ معاویہ سے اسی طرح تبرا کرتے تھے جس طرح حضرت علی معاویہ سے تبرا کرتے تھے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ آپ کو وفات کے بعد جنت اور رضوان میں لے گیا۔چنانچہ ان (ظالم حکمرانوں) کی طرف سے عہدہ قضاء قبول کرنے اور وظائف لینے میں یہ دلیل نہیں ہے کہ یہ حضرات ان ظالموں سے دوستی رکھتے تھے اور ان کی حکومت کو جائز اعتقاد کرتے تھے۔
احکام القرآن للجصاص ج 1 ، ص81 ، 82 طبع بیروت


معاویہ کا حسن ابن علی کی موت کو مصیبت نہ سمجھنا

اب تک بات ہوئی معاویہ کے علی بن ابی طالب (ع) پر لعنت کرنے کی بدعت ایجاد کرنے کے حوالے سے۔ آئیے اب ہم معاویہ کی اہل ِبیت (ع) دشمنی کے مزید شواہد پیش کرتے ہیں۔ معاویہ نے علی بن ابی طالب (ع) سے بضض رکھ کر اپنے منافق ہونے پر مہر ثبت کی لیکن الحسن بن علی بن ابی طالب (ع) کی شہادت پر خوشی کا اظہار کرنے اور سجدہ ِشکر بجالا کر منافقین کا امام ہونا بھی ثابت کردیا۔

سنن ابو داود، کتاب 32، حدیث 4119:

مقدام بن معدیکرب معاویہ ابن ابنی سفیان کے پاس آئے تو معاویہ بن ابی سفیان نے المقدام بن معدی کرب سے کہا: کیا تمہیں علم ہے کہ الحسن بن علی وفات پا گئے ہیں؟ اس پر مقدام بن معدی کرب نے قرآنی آیت پڑھی انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ایک آدمی نے کہا: تو کیا تم الحسن کے مرنے کو ایک مصیبت تصور کر رہے ہو ؟ اس پر مقدام نے جواب دیا: "میں اسے مصیبت کیسے نہ جانوں جبکہ رسول ص الحسن کو اپنی گود میں لیتے تھے اور کہتے تھے کہ الحسن مجھ سے ہے جبکہ الحسین علی سے ہیں۔
اس پر بنی اسد کے آدمی نے کہا: الحسن ایک جلتا ہوا انگارہ تھا جسے اللہ نے بجھا دیا۔

اس روایت میں یہ جہاں 'فلاں' (یعنی، ایک آدمی) کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں مراد بذات خود معاویہ ہے جیسا کہ مسند احمد بن حنبل میں معاویہ کا نام مروی ہے، مگر امام ابو داؤد نے اسے 'فلاں' کے لفظ سے تبدیل کر دیا ہے یعنی یہ معاویہ ابن ابنی سفیان ہے جس نے پوچھا کہ تو کیا تم اس [الحسن ابن علی] کے مرنے کو ایک مصیبت تصور کر رہے ہو ؟

علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے سنن ابو داؤد کی شرح لکھی ہے جو کہ 'عون المعبود شرح سنن ابی داؤد' کے نام سے مشہور ہے اور تمام سلفی ویب سائٹس پر موجود ہے۔ مثلا http://hadith.al-islam.com جو کہ سلفی حضرات کی مستند ترین ویب سائٹس میں شمار ہوتی ہے۔

اس روایت کے ذیل میں عون المعبود میں یہ شرح دی گئی ہے:

فقال له فلان ) وفي بعض النسخ وقع رجل مكان فلان والمراد بفلان هو معاوية بن أبي سفيان رضي الله تعالى عنه والمؤلف لم يصرح باسمه وهذا دأبه في مثل ذلك وقد أخرج أحمد في مسنده من طريق حيوة بن شريح حدثنا بقية حدثنا بحير بن سعد عن خالد بن معدان قال وفد المقدام بن معد يكرب وفيه فقال له معاوية أيراها مصيبة الحديث( أتعدها ) وفي بعض النسخ أتراها أي أنعد يا أيها المقدام حادثة موت الحسن رضي الله تعالى عنه مصيبة والعجب كل العجب من معاوية فإنه ما عرف قدر أهل البيت حتى قال ما قال فإن موت الحسن بن علي رضي الله عنه من أعظم المصائب وجزى الله المقدام ورضي عنه فإنه ما سكت عن تكلم الحق حتى أظهره وهكذا شأن المؤمن الكامل المخلص

۔۔۔ (فقال لہ فلان) اور کچھ جگہ لفظ فلاں کی جگہ لفظ "رجل" استعمال کیا گیا ہے، اور اس فلاں سے مراد معاویہ ابن ابی سفیان رضی اللہ تعالی ہیں۔ جیسا کہ مؤلف [امام ابو داؤد] یہ معلوم نہیں ہونے دیتے چونکہ یہ انکی عادت ہے۔ احمد [امام احمد بن حنبل] اپنی مسند میں حیوۃ بن شریح سے بیان کرتے ہیں جو بقیۃ سے اور جو بحیر بن سعد سے اور وہ خالد بن معدان سے بیان کرتے ہیں : “اور معاویہ نے ان سے کہا: تو کیا تم اس [الحسن ابن علی] کے مرنے کو ایک مصیبت تصور کر رہے ہو ؟ ۔۔۔۔

۔۔۔بعض جگہ پر ( أتعدها ) اور بعض جگہ پر (أتراها) یعنی کیا تم دیکھتے ہو ، تصور کرتے ہو الحسن ابن علی کی موت کو ایک مصیبت؟

تعجب پر تعجب (انتہائی تعجب) ہے امیر معاویہ کے اس قول پر۔ انہوں نے اہلبیت کی قدر نہ پہچانی حتی کہ ایسی بات کہہ دی۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی موت یقینا بہت بڑی مصیبت تھی اور اللہ حضرت مقدام رضی اللہ عنہ کو جزائے خیر دے اور ان سے راضی ہو کہ انہوں نے کلمہ حق ادا کرنے میں خاموشی اختیار نہ کی اور اسے اعلانیہ کہہ دیا۔ مومن کامل و مخلص کی یہی شان ہے۔ بنو اسد کے شخص نے جو کچھ کہا وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی رضا اور تقرب حاصل کرنے کے لیے تھا۔ اُس نے یہ سخت گھٹیا بات اس وجہ سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے کہی تھی کہ (امام حسن کی موجودگی میں) امیر معاویہ کو اپنی خلافت کے زوال کا خوف تھا۔
 عون المعبود، ج 11 ص 128

یہی الفاظ مولانا خلیل احمد صاحب نے بذل المجہود، شرح سنن ابی داؤد میں اسی روایت کی تشریح کرتے ہوئے درج کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

اسدی نے یہ بات معاویہ کی رضا اور تقرب حاصل کرنے کے لیے کہی تھی۔ جب حضرت مقدام نے اس شخص کی بات سنی جو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے امیر معاویہ کی خاطرداری کے لیے کہی تھی، تو حضرت مقدام امیر معاویہ سے کہنے لگے کہ میں یہاں سے آج ہرگز نہ ہلوں گا جب تک آپ کو غصہ نہ دلاؤں اور آپ کو ایسی بات نہ سناؤں جو آپ کو ناپسند ہو جس طرح کہ آپ نے مجھے ایسی بات سنائی جو مجھے پسند نہیں۔

اور برصغیر کے مشہور اہلحدیث عالم دین مولانا وحید الزمان خان صاحب اس روایت کے ذیل میں حاشیہ میں لکھتے ہیں:

حسن کے انتقال پر معاویہ کو یہ کہنا کہ یہ مصیبت نہیں ہے مبنی تھا اوپر تعصب کے علی اور اولاد علی سے۔ راضی ہو اللہ اپنے رسول کے اہل بیت سے اور ہمارا حشر ان کے ساتھ کرے۔ امین۔

روایت میں آگے بیان ہے کہ حضرت مقدام نے امیر معاویہ کو قسم دلا کر پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مردوں کو سونے کا زیور اور ریشم پہننے سے منع نہیں فرمایا اور خدا کی قسم یہ چیزیں آپ کے گھر کے لوگ استعمال کرتے ہیں۔ اس کی شرح میں صاحبِ عون المعبود فرماتے ہیں:

فَإِنَّ أَبْنَاءَك وَمَنْ تَقْدِر عَلَيْهِ لَا يَحْتَرِزُونَ عَنْ اِسْتِعْمَالهَا وَأَنْتَ لَا تُنْكِر عَلَيْهِمْ وَتَطْعَن فِي الْحَسَن بْن عَلِيّ ‏

آپ کے لڑکے اور گھر کے مرد (یزید وغیرہ) ان اشیاء کے استعمال سے پرہیز نہیں کرتے اور آپ ان پر نکیر نہیں کرتے۔ اور ادھر آپ حسن بن علی پر طعن کرتے ہیں۔

معاویہ کا حسن ابن علی کی موت پر سجدہ ِشکر اور تکبیر ادا کرنا


ہم اہل ِسنت کی مندجہ ذیل معتبر کتابوں پر انحصار کرتے ہیں:

1۔ اخبار الطوال، ص 221
2۔ العقد الفرید، ج 1 ص 225
3۔ تاریخ خمیس، ج 2 ص 294
4۔ حیات الحیوان، ج 1 ص 84
5۔ تذکرۃ الخواص، ص 123
6۔ تاریخ ابی الفداء، ج
7۔ تاریخ ابن خلکان، ج 2 ص 67
8۔ مروج الذھب، ج 3 ص 8
9۔ مقاتل الحسین، ج 1 ص 140
10۔ ربیع الابرار، ج 4 ص 186

علامہ زمخشری اپنی کتاب ربیع الابرار میں لکھتے ہیں:

حسن کی موت کی خبر سن کر معاویہ نے سجدہ ِ شکر ادا کیا

علامہ ابن خلکان اپنی کتاب وافیات الاعیان جو کہ تاریخ ابن خلکان کے نام سے مشہور ہے، میں لکھتے ہیں:

ولما كتب مروان إلى معاوية بشكاته كتب إليه أن أقبل المطي إلى بخبر الحسن ولما بلغه موته سمع تكبيرا من الحضر فكبر أهل الشام لذلك التكبير فقالت فاختة زوجة معاوية أقر الله عينك يا أمير المؤمنين ما الذي كبرت له ؟ قال مات الحسن

جب مروان نے معاویہ کو شکایت تحریر کی، اس نے لکھا کے اسے بتایا گیا ہے کہ حسن کی موت ہوگئی ہے۔ معاویہ نے جب یہ خبر سنی تو انہوں نے تکبیر کہی تو جس پر اہل شام نے بھی تکبیر کہی۔ لہٰذا معاویہ کی زوجہ فاختہ نے کہا: 'اے امیر المومنین، اللہ آپ کو خوش رکھے، آپ نے تکبیر کیوں کہی؟' معاویہ نے جواب دیا: 'حسن کی موت ہوگئی ہے'

علامہ ابو حنیفہ احمد بن داؤد الدینوری اپنی کتاب اخبار الطوال میں لکھتے ہیں:

حضرت حسن کی وفات کی خبر معاویہ کو بھی مل گئی ۔ انہیں عامل ِمدینہ مروان نے اس امر سے مطلع کیا تھا۔ چنانچہ معاویہ نے ابن عباس کو بلوایا۔ ان دنوں ابن عباس شام میں انہیں کے یہاں آئے ہوئے تھے۔ جب وہ ملے تو معاویہ نے حسن کی وفات پر تعزیت بھی کی اور اظہار ِمسرت بھی کیا۔ لہٰذا ابن عباس نے کہا: 'آپ حس کی موت پر خوش نہ ہوں۔ خدا کی قسم ان کی بعد آپ کا بھی چل چلاؤ ہے'۔
 اخبار الطوال (اردو ترجمہ)۔

علامہ ابن عبد ربہ اپنی کتاب العقد الفرید میں لکھتے ہیں:

ولما بلغ معاويةَ موتُ الحسن بن علي خر ساجداً لله ثم أرسل إلى ابن عباس وكان معه في الشام فعزاه وهو مُستبشر

حسن کی موت کی خبر سن کر معاویہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے سجدہ ِ شکر ادا کیا۔ پھر انہوں نے ابن عباس کو پیغام بھجوایا اور انہیں بلوایا۔ جب ابن عباس تشریف لائے تو حالانکہ معاویہ نے ان سے حسن کی موت پر تعزیت کی لیکن وہ بہت خوش تھے۔

علامہ کمال الدین دمیری (المتوفی 808 ھ) نے کتاب حیات الحیوان جبکہ علامہ دیار بکری نے کتاب تاریخ خمیس میں اس واقع کو یوں درج کیا ہے:

ابن عباس معاویہ کے پاس آئے تو معاویہ نے کہا: 'کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے خاندان کے ساتھ کیا ہوا ہے؟' ابن عباس نے جواب دیا: 'مجھے کسی بات کا علم نہیں سوائے اس کہ تم بہت خوش ہو اور میں نے سنا تم نے باآواز ِبلند تکبیر کہی'۔ معاویہ نے کہا: 'حسن کی موت ہوگئی ہے

 
باب نمبر 3: معاویہ باغی تھا


باغی کی تعریف

اہل ِسنت کی فقہ کی مشہور کتاب درالمختار، ص 113:

لغت میں بغاوت کا مطلب ہے طلب کرنا جبکہ عرف میں بغاوت کا مطلب ہے اس شئے کو طلب کرنا جو حلال نہ ہو۔ شرعی طور پر باغی ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو امام حق کی اطاعت سے نکل جائیں

مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے تفہیم القرآن، ج 5 ص 80 میں لکھا:

ابن ھمام نے فتح القدیر شرح ھدایہ میں لکھا ہے کہ علماء کا اجماع ہے کہ باغی وہ ہے جو امام ِحق کی نافرمانی کرے۔ امام شافعی نے کتاب الام میں لکھا ہے کہ باغی وہ ہے جو عادل امام سے جنگ کرے۔ امام مالک نے کہا ہے کہ یہ فرض ہے کہ جو کوئی عادل امام کی مخالفت کرے اس سے جنگ کی جائے۔


باغی کی نماز ِجنازہ پڑھنے کی ممانعت

امام نووی کتاب المنہاج، ج 7 ص 47 میں رقمطراز ہیں:

وقال أبو حنيفة لا يصلى على محارب ولا على قتيل الفئة الباغية وقال قتادة لا يصلى على ولد الزنى

امام ابو حنیفہ کا کہنا ہے کہ اگر باغی یا ڈکیت گروہ کا کوئی رکن مرجائے تو اس کی نماز ِجنازہ ادا نہیں کرنی چاہیے جبکہ قتادہ کا کہنا ہے کہ زنا سے پیدا ہوئے شخص کی بھی نماز ِجنازہ نہیں پڑھنی چاہئے۔

تو معلوم ہوا کہ معاویہ کی نماز ِجنازہ تو اہل ِسنت کے کسی اصول کے مطابق بھی ادا نہیں ہوسکتی!

در المختار، ج 2 ص 282 میں ہم پڑھتے ہیں:

وهي فرض على كل مسلم مات، خلا) أربعة: (بغاة، وقطاع طريق) فلا يغسلوا، ولا يصلى عليهم

یہ فرض ہے کہ ہر مسلمان کے مرنے کے بعد اس کی نمازِجنازہ پڑھی جائے سوائے چار کے، یعنی باغی اور چور کے، نہ تو ان کو غسل دیا جانا چاہیئے اور نہ ہی ان کی نماز جنازہ ادا کرنی چاہیئے۔


امام ِوقت کے خلاف بغاوت کرنا مسجد میں زنا کرنے کے مترادف ہے

قاضی شوکانی نیل الاوطار، ج 7 ص 198 میں لکھتے ہیں:

واعلم أن قتال البغاة جائز إجماعا كما حكي ذلك في البحر ولا يبعد أن يكون واجبا لقوله تعالى { فقاتلوا التي تبغي } وقد حكي في البحر أيضا عن العترة جميعا أن جهادهم أفضل من جهاد الكفار إلى ديارهم إذ فعلهم في دار الإسلام كفعل الفاحشة في المسجد

یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ باغی کے خلاف لڑنا جائز ہے جیسا کہ البحر میں درج ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کے مطابق تو ایسا کرنا واجب ہے: "فقاتلوا التي تبغي" اور البحر میں یہ بھی درج ہے کہ تمام عترت کا کہنا ہے کہ باغیوں سے لڑنا کفار سے ان کی زمین پر لڑنے سے زیادہ افضل ہے کیونکہ باغیوں کا مسلمانوں کی زمین پر بغاوت کرنا مسجد میں زنا کرنے کے مترادف ہے۔

یعنی معاویہ نے مسجد میں زنا کا ارتکاب کیا ہے!


معاویہ نے علی بن ابی طالب (ع) سے جنگ کی جو کہ امام و خلیفہ ِحق تھے

ابن کثیر البدایہ والنہایہ، ج 7 ص 253 میں لکھتے ہیں:

وخرج علي إلى المسجد فصعد المنبر وعليه إزار وعمامة خز ونعلاه في يده، توكأ على قوسه، فبايعه عامة الناس

بوقت ِبیعت حضرت علی مسجد کی طرف گئے اور منبر پر تشریف فرما ہوگئے اور عام لوگوں نے حضرت علی کی بیعت کرلی۔

اہل ِسنت کی کتابوں سے باغی کی تعریف پیش کرنے کے بعد اور یہ واضح کرنے کے بعد کہ حضرت علی بن ابی طالب (ع) اک جائز امام و خلیفہ ِوقت تھے، عرض ہے کہ معاویہ کا شمار بھی باغیوں میں ہی ہوتا ہے کیونکہ اس نے اپنے دور کے امام اور خلیفہ ِحق کی اطاعت سے انکار کرتے ہوئے ان کے خلاف بغاوت کی ۔ پیش ِخدمت ہے اہل ِاسنت کی معتبر کتاب الاستیعاب، ج 3 ص 267 میں ابن عبدالبر لکھتے ہیں:

فحارب معاوية علياً خمس سنين

معاویہ نے علی سے پانچ سال تک جنگ کی

ابن اثیر نے اپنی کتاب اسدالغابہ فی معرفت الصحابہ، ج 1 ص 1027 میں تحریر کیا ہے:

ولم يبايع عليا وأظهر الطلب بدم عثمان فكان وقعة صفين بينه وبين علي

معاویہ نے علی کی بیعت نہ کی، پھر معاویہ نے قتل ِعثمان کا بدلہ لینے کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد معاویہ اور علی میں جنگ ِصفین ہوئی۔

امام النواصب ابن کثیر اپنی کتاب البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 23 میں تحریر کیا ہے:

فلما امتنع معاوية من البيعة لعلي حتى يسلمه القتلة، كان من صفين ما قدمنا ذكره

معاویہ نے اس وقت تک علی کی بیعت سے انکار کردیا جب تک وہ قاتل ِعثمان ان کے حوالہ نا کردیں لہٰذا دونوں کے درمیان صفین کی جنگ ہوئی

امام جلال الدین سیوطی کتاب تاریخ خلفاء، ص 173 میں کہتے ہیں:

خرج معاوية على علي كما تقدم و تسمى بالخلافة ثم خرج على الحسن

معاویہ نے علی کے خلاف بغاوت کی اور اپنے آپ کو خلیفہ نامزر کردیا اور پھر حسن کے خلاف بھی بغاوت کی۔


علمائے اہل ِسنت کا اقرار کہ معاویہ باغی و ظالم ہے

محدث شاہ عبدالعزیز دہلوی اپنی مشہور شیعہ مخالف کتاب تحفہءاثنا عشریہ، ص 181 میں بیان کرتے ہیں:

یہ معلوم ہونا چاہئے کہ تمام قطب ِاہل ِسنت کا اس پر اجماع ہے کہ معاویہ بن ابی صفیان، حضرت امیر کی امامت کے شروع سے ہی اور امام حسن سے صلح تک باغی رہا اور اپنے وقت کے امام کی اطاعت نہ کی۔
 تحفہءاثنا عشریہ، ص 181

اسی طرح کتاب کے صفحہ 11 پر ہم پڑھتے ہیں:

اصل فرقہ اہل ِسنت والجماعت کا تھا جو کہ صحابہ و تابعین کا تھا۔ وہ مہاجرین و انصار تھے جو کہ علی کے غلام تھے اور خلافت کے مددگار تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ عثمان کی شہادت کے بعد مرتضیٰ امام برحق تھے اور تمام انسانوں پر ان کی اطاعت فرض تھی۔ علی اپنے دور میں سب سے زیادہ افضل تھے، جس کسی نے بھی خلافت کے معاملہ پر ان سے اختلاف کیا یا ان کی خلافت کو رد کیا وہ گناہگار اور باغی ہے۔
 تحفہءاثنا عشریہ، ص 11

امام سعد الدین تفتازانی نے اپنی کتاب شرح المقاصد، ج 2 ص 306 میں تحریر کیا ہے کہ:

اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ معاویہ اسلام کا پہلا باغی تھا

آئیے اب ہم اہل ِسنت میں فقہ کی چند بلند درجہ کتابوں کا ذکر کرتے ہیں جن میں معاویہ کا حوالہ واضح طریقے سے ایک ناجائز اور غاصب عامر کے طور پر کیا گیا ہے۔ اہل ِسنت کی فقہ کی مایہ ناز کتاب الہدایہ، ج 3 ص 133 اور اسی طرح الہدیہ کی مختلف شروح میں بھی جن میں فتح القدیر شرح ہدیہ، ج 16 ص 333 اور عنایہ شرح ہدایہ، ج 10 ص 217 شامل ہیں، ہم پڑھتے ہیں:

قوله ويجوز التقلد من السلطان الجائر كما يجوز من العادل لأن الصحابة رضي الله عنهم تقلدوه من معاوية رضي الله عنه والحق كان بيد علي رضي الله عنه في نوبته ، والتابعين تقلدوا من الحجاج

ایک ناجائز حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے بالکل اسی طرح جیسے کسی عادل حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ معاویہ کے دور میں صحابہ حالانکہ حق تو علی کے ساتھ تھا۔ اسی طرح حالانکہ حجاج حق پر نہ تھا لیکن پھر بھی تابعین اس کی جانب سے قاضی مقرر ہوئے۔

اس کے بعد ایک جملہ لکھا ہے:

هذا تصريح بجور معاوية

یہ معاویہ کے ظالم ہونے کا ثبوت ہے

اسی طرح امام علاوالدین ابی الحسن علی بن خلال الطارابلسی (متوفی 844 ھ) اپنی کتاب معین الاحکام، ص 3 پر لکھتے ہیں:

ويجوز تقلد القضاء من السلطان العادل والجائر ، وأما العادل فلأن النبي صلى الله عليه وسلم بعث معاذا إلى اليمن قاضياً وولى عثمان بن أسد على مكة أميرا ، وأما الجائر فلأن الصحابة رضي الله عنهم تقلدوا الأعمال من معاوية بعد أن أظهر الخلاف مع علي رضي الله عنه وكان الحق مع علي

ایک ناجائز حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے بالکل اسی طرح جیسے کسی عادل حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے۔ جائز حکمراں (کے سلسلے میں جائز ہے) کیونکہ رسول اللہ نے معاذ کو قاضی کی حیثیت سے یمن بھیجا اور عثمان بن اساد کو مکہ کا گورنر مقرر کیا تھا جبکہ ناجائز حکمران (کے سلسلے میں جائز ہے) کیونکہ معاویہ کے علی سے اختلاف کے بعد صحابہ (رض) نے معاویہ سے عہدے تسلیم کیے۔

اسی طرح اہل ِسنت مسلک کی فقہ کی ایک اور بلند پایہ کتاب تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق، ج 4 ص 177 میں ہم پڑھتے ہیں:

ويجوز تقلد القضاء من السلطان العادل والجائر ومن أهل البغي ) لأن الصحابة رضي الله تعالى عنهم تقلدوه من معاوية في نوبة علي ، وكان الحق بيد علي يومئذ ، وقد قال علي رضي الله تعالى عنه أخواننا بغوا علينا

ایک ناجائز یا جائز یا پھر باغی حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے کیونکہ صحابہ (رض) نے علی کی خلافت کے زمانے میں معاویہ سے یہ عہدہ قبول کیا جبکہ حق علی کے ساتھ تھا اور علی نے کہا کہ ہمارے بھائی ہمارے خلاف بغاوت کررہے ہیں۔

اہل ِسنت میں فقہ کی چند نامور کتابوں میں سے ایک بحرالرائق شرح کنزالدقائق، ج 6 ص 274 میں ہم پڑھتے ہیں:

(قوله ويجوز تقلد القضاء من السلطان العادل والجائر وأهل البغي) لأن الصحابة رضي الله تعالى عنهم تقلدوه من معاوية والحق كان بيد علي رضي الله تعالى عنه

ایک ناجائز یا جائز یا پھر باغی حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے کیونکہ صحابہ (رض) نے علی کی خلافت کے زمانے میں معاویہ سے یہ عہدہ قبول کیا جبکہ حق علی کے ساتھ تھا۔

آئیے اب اسی طرح ہم مسلک ِاہل ِسنت کے امام محمد بن حسن الشیبانی (متوفی 189 ھ) کے خیالات سے بھی آگاہ کردیں۔ علامہ عبدالقادر القرشی الحنفی نے اپنی کتاب الجواھر المضیہ، ج 2 ص 26 میں امام محمد بن حسن الشیبانی کا بیان یوں نقل کیا ہے:

"محمد" بن أحمد بن موسى بن داود الرازي البرزالي الفقيه القاضي الخازن. سمع عمه علي بن موسى العمي ومحمد بن أيوب الرازي. وولي القضاء بسمرقند. وسمع أهلها عليه. مات سنة إحدى وستين وثلاثمائة. قال السمعاني كان ثقة فاضلا وقال الحاكم كان فقيه أصحاب أبي حنيفة قال سمعت عمي سمعنا أبا سليمان الجوزجاني سمعت محمد بن الحسن يقول لو لم يقاتل معاوية عليا ظالما لهو متعديا باغيا كنا لا نهتدي لقتال أهل البغي

محمد بن احمد بن موسی بن داؤد الرازی البرذالی الفقیہ القاضی الخازن۔ انہوں نے اپنے چچا علی بن موسی اور محمد بن ایوب الرازی سے احادیث سنیں۔ وہ سمرقند کے قاضی مقرر کیے گئے اور انہوں نے وہاں کے لوگوں سے احادیث سنیں۔ ان کی وفات 361 ہجری میں ہوئی۔ السمعانی کا کہنا ہے کہ وہ ثقہ اور فاضل تھے۔ حاکم کا کہنا ہے کہ وہ ابو حنیفہ کے اصحاب میں سے ایک فقیہ تھے، انہوں نے کہا تھا کہ میں نے چچا ابو سلیمان الجوزجانی سے سنا ک انہوں نے محمد بن الحسن سے یہ کہتے سنا کہ اگر معاویہ جو کہ ظالم، جارح اور باغی تھا، علی کے خلاف جنگ نہ کرتا تو ہمیں ظالمین کے خلاف جنگ کرنے کا موقع ہی نہ ملتا۔
 الجواھر المضیہ، ج 2 ص 26

سلفی و اہل حدیث مسلک کے قاضی شوکانی کتاب نیل الاوطار، ج 7 ص 348 میں لکھتے ہیں:

قوله: أولاهما بالحق فيه دليل على أن عليا ومن معه هم المحقون ، ومعاوية ومن معه هم المبطلون ، وهذا أمر لا يمتري فيه منصف ، ولا يأباه إلا مكابر متعسف

حدیث "حق کا مستحق" میں اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ علی اور جو لوگ علی کے ساتھ تھے وہ حق پر تھے جبکہ معاویہ اور جو لوگ معاویہ کے ساتھ تھے وہ باطل راہ پر تھے اور اس بات میں کوئی عادل شخص شک نہیں کرسکتا جبکہ صرف ہٹ دھرم لوگ ہی اس بات کا انکار کرینگے۔
 نیل الاوطار، ج 7 ص 348

اور اب پیش ِخدمت ہے اہل ِسنت کے نامور عالم ِدین علامہ عبدالکریم شہرستانی کو اپنی کتاب ملل و النحل، ج 1 ص 103 میں لکھتے ہیں:

ولا نقول في حق معاوية وعمرو بن العاص الا أنهما بغيا على الامام الحق فقاتلهم مقاتلة أهل البغي وأما أهل النهروان فهم الشراة المارقون عن الدين بخبر النبي صلى الله عليه وسلم ولقد كان رضي الله عنه على الحق في جميع أحواله يدور الحق معه حيث دار

ہم معاویہ اور عمروبن العاص کے متعلق کچھ نہیں کہتے سوائے اس کے کہ انہوں نے امام برحق کے خلاف جنگ کی لہٰذا علی نے ان لوگوں کو باغی تصور کرتے ہوئے ان سے جنگ کی۔ جبکہ نہروان والے لوگ شرانگیز اور مرتد تھے جیسا کہ رسول اللہ نے بتادیا تھا اور علی (رض) اپنے ان تمام مسائل میں حق پر تھے اور حق وہیں رخ کر رہا تھا جہاں جہاں علی رخ کرتے۔
 ملل و النحل، ج 1 ص 103


صحابی ِرسول حضرت عمار بن یاسر (رض) کی شہادت اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ معاویہ باغی تھا

اب تک ہم نے تاریخی حقائق اور علمائے اہل ِسنت کی آراء کی روشنی میں یہ ثابت کیا کہ معاویہ باغی تھا۔ اب ہم حدیث ِرسول کی روشنی میں ثابت کرینگے کہ معاویہ اور اس کا ناصبی ٹولہ باغی تھا۔ رسول اللہ (ص) نے صحابی ِجلیل حضرت عمار یاسر (رض) جن کا پاؤں کی دھول کو ہر شیعہ اپنی آنکھ کا سرما سمجھتا ہے، کے متعلق فرمایا:

وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن ابن عون، عن الحسن، عن أمه، عن أم سلمة، قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ تقتل عمارا الفئة الباغية ‏"

ام المومنین حضرت ام سلمہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ عمار کو ایک باغی گروہ قتل کریگا۔
 صحیح مسلم، کتان الفتن، حدیث 7508

رسول اللہ (ص) کی یہ مشہور پیشن گوئی اس بات کو واضح کررہی ہے کہ حضرت عمار یاسر (رض) کے قاتلان باغی تھے۔ حضرت عمار یاسر (رض) کا جنگ صفین کے دوران معاویہ کی فوج کے ہاتھوں قتل ہونا اس بات پر مہر ثبت کردیتا ہے کہ معاویہ اینڈ کمپنی باغی تھی۔

متعدد صحابہ و تابعین جو حضرت علی اور حضرت معاویہ کی جنگ میں تذبذب کا شکار تھے، حضرت عمار یاسر کو یہ معلوم کرنے کے لئے علامت قرار دے دیا تھا کہ دونوں میں سے حق پر کون ہے باطل پر کون۔

ابوبکر جصاص اھکما القرآن میں لکھتے ہیں:

حضرت علی بن وابی طالب نے باغی گروہ کے خلاف تلوار سے جنگ کی اور ان کے ساتھ وہ اکابر صحابہ اور اہل ِبدر تھے جن کا مرتبہ سب جانتے ہیں۔ اس جنگ میں وہ حق پر تھے اور اس میں اس باغی گروہ کے سوا جو ان سے برسر ِجنگ تھا اور کوئی بھی ان سے اختلاف نہ رکھتا تھا۔ مزید براں خود نبی (ص) نے عمار (رض) سے فرمایا تھا کہ تم کو ایک باغی گروہ قتل کریگا۔ یہ ایک ایسی خبر ہے جو تواتر کے ساتھ نقل ہوئی ہے اور عام طور پر صحیح مانی گئی ہے حتیٰ کہ معاویہ سے بھی جب عبداللہ ابن عمرو بن العاص نے اسے بیان کیا تو وہ اس کا انکار نہ کرسکے البتہ انہوں نے اس کی یہ تاویل پیش کی عمار کو اس نے قتل کیا ہے جو اس کو ہمارے نیزوں کے آگے لے آیا۔
 خلافت و ملوکیت، ص 137

اب بھی کوئی ابہام رہ گیا ہو تو ہم نواصب کے امام ابن تیمیہ کی فتویٰ ہی پیش کیے دیتے ہیں جس میں انہوں نے واضح لکھا ہے کہ حضرت عمار (رض) کے قاتل لوگوں کو جہنم کی طرف بلارہے تھے۔ مجموع الفتاوی، ج 3 ص 437 میں وہ لکھتے ہیں:

( ورواه مسلم أيضا عن أم سلمه عن النبى صلى الله عليه وسلم أنه قال ( تقتل عمارا الفئة الباغية ( وهذا أيضا يدل على صحة أمامة على ووجوب طاعته وأن الداعى إلى طاعته داع إلى الجنة والداعى إلى مقاتلته داع إلى النار وإن كان متأولا

یہ صحیح مسلم میں درج ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ عمار کو ایک باغی گروہ قتل کریگا اور یہ علی کی امامت کے صیح ہونے کا اور اس بات کا کہ علی کی اطاعت واجب تھی ثبوت ہے اور وہ لوگ جو علی کی اطاعت کی جانب بلا رہے تھے وہ جنت کی جانب بلا رہے تھے جبکہ وہ جو علی سے جنگ کررہے تھے وہ جہنم کی جانب بلا رہے تھے حاللانکہ انہوں نے تاویل کی۔


علی (ع) کے ہمراہ باغیوں کے خلاف جنگ کرنا لوگوں پر فرض تھا

محبان ِمعاویہ یعنی نواصب کا کہنا ہے کہ یہ ضروری نہ تھا کہ معاویہ اور حضرت علی بن ابی طالب (ع) کے درمیان جنگ میں کسی ایک کا ساتھ دیا جاتا۔ لیکن نواصب کہ اس بہانے سے ہوا نکل جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے پیشن گوئی کردی تھی کہ:

اے علی، بہت جلد ایک باغی گروہ تم سے جنگ کریگا اور تم حق پر ہوگے۔ جو کوئی بھی تمہاری نصرت نہ کرے وہ مجھ سے نہیں۔
کنزالعمال، ج حدیث 32970


معاویہ جیسے ناکثین و قاسطین کے متعلق رسول (ص) پیشن گوئی کر گئے تھے کہ ان سے لڑنا فرض ہے

نواصب چاہے اپنے اجداد کا دفاع کرنا کی کتنی ہی کوششیں کیوں نہ کرلیں وہ کبھی معاویہ کے سنگین جارئم و گناہوں پر پردہ کبھی نہیں ڈال سکتے کیونکہ معاویہ کے گناہوں کی تعداد و نوعیت ہی کچھ ایسی ہے۔ اور خصوصا ً معاویہ کی بغاوت کے متعلق ناصبی ٹولہ جتنی تاویلیں پیش کرلے، رسول اللہ (ص) کی احادیث کے سامنے یہ ساری تاویلیں ایسی ہی ثابت ہوتی ہیں جیسے لوہے کی ڈھال پر لکڑی کے بنے تیر مارنا۔ رسول اللہ (ص) معاویہ اور اس کی باغی کمپنی کے متعلق پہلے ہی بیان فرما گئے تھے۔ ابن اثیر نے اسدالغابہ، ج 1 ص 801 میں نقل کیا ہے:

عن أبي سعيد الخدري قال : أمرنا رسول الله صلى الله عليه و سلم بقتال الناكثين والقاسطين والمارقين فقلنا : يا رسول الله صلى الله عليه و سلم أمرتنا بقتال هؤلاء فمع من فقال : مع علي بن أبي طالب معه يقتل عمار بن ياسر

ابو سعید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے ہمیں ناکثین (بیعت توڑدینے والے)، قاسطین (جو بیعت دینے سے گریز کریں) اور مارقین (یعنی خوارج) سے جنگ کرنے کا حکم دیا۔ میں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ (ص)، آپ نے ہمیں ان لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم تو دیا ہے لیکن کس کے ہمراہ؟ رسول اللہ (ص) نے جواب دیا علی بن ابی طالب کے ہمراہ اور عمار بن یاسر اس میں قتل ہوجاینگے۔

اسی کے آگے ہم پڑھتے ہیں:

عن مخنف بن سليم قال : أتينا أبا أيوب الأنصاري فقلنا : قاتلت بسيفك المشركين مع رسول الله صلى الله عليه و سلم ثم جئت تقاتل المسلمين قال : أمرني رسول الله صلى الله عليه و سلم بقتل الناكثين والقاسطين والمارقين

مخنف بن سلیم سے روایت ہے کہ ہم ابو ایوب النصاری (رض) کے پاس گئے اور کہا کہ آپ نے رسول اللہ (ص) کی ساتھ مشرکین سے جنگ کی اور اب آپ مسلمانوں سے جنگ کرتے ہیں؟ اس پر انہوں نے کہا کہ ہمیں رسول اللہ (ص) نے ناکثین ، قاسطین اور مارقین کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔

اسی طرح امام النواصب ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے:

عن أحمد بن حفص البغدادي عن سليمان بن يوسف، عن عبيد الله بن موسى، عن فطر، عن حكيم بن جبير، عن إبراهيم، عن علقمة عن علي قال: أمرت بقتال الناكثين والقاسطين والمارقين

حضرت علی نے فرمایا کہ مجھے حکم ہے کہ میں ناکثین ، قاسطین اور مارقین کو قتل کروں۔

یہی وجہ ہے کہ شیخ محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب سیئول، ص 68 میں لکھا ہے:

فبدأ علي بقتال الناكثين وهم أصحاب الجمل وثنى بقتال القاسطين وهم أصحاب معاوية

علی نے ناکثین یعنی جنگ ِجمل والے لوگوں سے جنگ کر کے ابتداء کی اور اس کے بعد علی نے قاسطین یعنی معاویہ کے ساتھیوں سے جنگ کی۔


عبد اللہ ابن عمر کی تمنا رہ گئ کہ وہ علی کے ہمراہ باغیوں کے خلاف جنگ میں نہ تھے

حضرت عمر کے بیٹے اور مشہور صحابی عبداللہ ابن عمر کی تو آرزو رہ گئی کہ وہ علی بن ابی طالب (ع) کے ہمراہ باغیوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیتے۔ علامہ ابن عبدالبر نے الاستیعاب، ج 3 ص 83 اور امام بدرالدین الاعینی نے عمدۃالقاری شرح صحیح بخاری، ج 11 ص 349 میں عبد اللہ ابن عمر کا یہ بیان نقل کیا ہے:

مجھے غم ہے کہ میں نے علی کے ہمراہ باغیوں کے خلاف جنگ میں حصہ نہ لیا۔ ابی بکر بن ابی جھم نے کہا کہ عبد اللہ ابن عمر کا بیان ہے کہ مجھے اور کسی بات کا اتنا دکھ نہیں جتنا اس بات کا کہ میں نے علی کے ہمراہ باغیوں کے خلاف جنگ میں حصہ نہ لیا۔


بزرگ صحابہ نے علی بن ابی طالب (ع) کی امامت میں جنگ میں حصہ لیا

معاویہ کو باغی کی تعریف میں لانے سے بچانے کی غرض سے نواصب یہ بھی کہتے ہیں کہ مہاجرین و انصار نے جنگ سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔ حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ مہاجرین و انصار میں سے تمام بزرگ ہستیاں مولا علی بن ابی طالب (ع) کے ہمراہ باغیوں سے لڑی تھیں۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اپنی شیعہ مخالف کتاب تحفہ اثنا عشری، ص 18 میں 37 ہجری یعنی جنگ صفین کے حوالے سے لکھتے ہیں:

سب سے پہلے وہ مہاجرین و انصار اور تابعین اس لقب شیعہ سے منقلب تھے جو ہر پہلو میں حضرت مرتضیٰ کی اطاعت و پیروی کرتے تھے اور وقت ِ خلافت سے ہی آپ کی صحبت میں رہے ، آپ کے مخالفین سے لڑے اور آپ کے امر و نواہی کو مانتے رہے۔ انہی شیعہ کو مخلصین کہتے ہیں۔ ان کے اس لقب کی ابتدا 37 ہجری سے ہوئی

یہی نہیں بلکہ مولا علی بن ابی طالب (ع) کے ہمراہ باغیوں کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے شہید ہونے والے بزرگ صحابہ میں خزیمہ بن ثابت شامل تھے (دیکھئے اہل ِسنت کی صحابہ کی زندگیوں پر لکھی گئی کتابیں جیسے الاستیعاب، ج 1 ص 347، اسد لغابہ، ج 2 ص 113)۔ اس کے علاوہ رسول اللہ (ص) کی محبت کے لئے مشہور حضرت اویس قرنی بھی شہید ہونے والوں میں شامل ہیں (اسد لغابہ، ج 1 ص 180، الاستیعاب، ج 1 ص 123)۔ معروف صحابہ ِاکرام میں جو مولا علی (ع) کے علم تلے لڑ کر شہید ہوئے ان میں حضرت ھشام ابن عتبہ بھی شامل تھے جن کی شہادت کے بعد حضرت طفیل (رض) نے کہا تھا:

تم شہید ہوئے کیونکہ تم نے سنت کے دشمن سے جنگ کی
اسد الغابہ، ج 5 ص 277

اور ہم الاستیعاب، ج 3 ص 229 میں یہ بھی پڑھتے ہیں کہ:

حضرت عبد الرحمان بن ابزی نے کہا ہے کہ صفین میں علی کے ہمراہ بیت الرضوان میں حصہ لینے والے 800 صحابہ نے حصہ لیا۔(جاری ہے)